حالات کے تناظر میں (آخری حصہ)

نسیم انجم  اتوار 9 نومبر 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

صحرائے تھر کے لوگ شدید مایوسی کا شکار ہیں، تھر کے علاقے میں ایک یا دو ڈاکٹر کام کر رہے ہیں ان حالات میں وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم کی جانب سے تھر کے متاثرین کے لیے ایک ارب 15 کروڑ روپے کے پیکیج پر عمل درآمد مکمل ہوگیا۔ مکمل ہوگیا… کب اور کہاں؟اب تو تہلکہ خیز رپورٹ تک چھپ گئی ہے۔

اگر ایسا ہی ہے تو ہماری افواج پاکستان آج پھر مشکل گھڑی میں تھر کے رہنے والوں کی مدد کے لیے میدان عمل میں کیوں ہیں؟ آرمی نے تھر کے آفت زدہ علاقے میں امدادی اشیا بھی روانہ کردی ہیں فوری طور پر کراچی سے ساٹھ ٹن راشن روانہ کیا گیا امدادی اشیا میں کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ ادویات بھی شامل ہیں اور آفت زدہ مکینوں کے لیے مختلف مقامات پر کیمپ بھی لگائے گئے ہیں، جہاں ہمارے فوجی دن رات خدمات انجام دے رہے ہیں۔

جب کہ تھر میں بھیجے گئے چوبیس ڈاکٹروں نے تبادلہ کرا لیا، اور 160 ڈسپنسریوں کی ایس این ای منظور نہ ہوسکی تھر کے آفت زدہ علاقے کے باسی موت،  بیماریوں اور اذیت میں مبتلا ہیں، نہ علاج معالجہ اور نہ خالی پیٹ کے لیے ایندھن، ہماری فوج ہی ہے جو نامساعد حالات اور ارضی و سماوی آفات میں مبتلا لوگوں کی ہر ممکن مدد کرتی ہے، اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر آندھی و طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔

عوام کو اس بات کا بھی بے حد دکھ ہے کہ وزیراعلیٰ جب مٹھی پہنچے تو انھوں نے آرام کیا اور حکومت سندھ نے ان کی خاطر تواضح کے لیے شاندار انتظامات کیے تھے ایک نہیں قسم قسم کے کھانے، شادی اور ولیمے کی تقریب کی طرح پکوائے گئے اور ان کی خاطر مدارت کی گئی اور بے چارے باراتی صرف خوشبو ہی سونگھ سکے۔ ان کی اشتہا بڑھتی رہی اور پیٹ میں چوہوں کا قافلہ چھلانگیں لگاتا رہا۔ انھوں نے دریا دلی کا ثبوت دیتے ہوئے اتنے پیسوں کی مدد کی جتنی کہ بچوں میں عیدی تقسیم کی جاتی ہے۔ ہوگیا فرض ادا، آج کی بات نہیں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔

ایک طرف علاقہ تھر کی مشکلات ہیں تو دوسری طرف بارش اور طوفان کی آمد ٹل چکی ہے۔ سمندری طوفان نیلوفر پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی اپنا رخ تبدیل کرگیا۔ ہمارے ایک اسٹوڈنٹ نے جوکہ سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہے بڑی پریشانی اور حیرت کے عالم میں پوچھا: ’’مس! طوفانوں کے نام خواتین کے ناموں پر کیوں رکھے جاتے ہیں، پہلے قطرینہ، پھر نیلوفر، جب کہ طوفان مذکر ہے اور نام مونث ہیں؟‘‘ ہم نے کہا پاکستان میں سب چلتا ہے، غوروفکر کرنے اور اپنے ملک کا وقار بلند کرنے کے زمانے گئے۔

پاکستان بنے تقریباً 66 سال گزر چکے ہیں لیکن آج تک ان عمارتوں کے نام نہیں بدلے گئے، جو نام تقسیم سے پہلے رکھے گئے تھے، وہی ہندوانہ نام موجود ہیں۔ اس نے کہا ایسا کیوں ہے مس؟ مجھے وزیراعظم بنا دیا جائے، میں سب ٹھیک کردوں گا، دہشت گردوں کو جیل میں بند کرنے کے بجائے اسی وقت شوٹ کردوں گا، ان لوگوں کو بننے نہیں دیا جا رہا ہے جو حقدار ہیں، بس ہمارے موجودہ و سابقہ حکمران یہی چاہتے ہیں کہ وہی چھائے رہیں اسی لیے ان کے بچے، جنھیں سیاست کی الف ب پتا نہیں انھیں سیاست میں لایا گیا ہے۔

ان مسائل اور دشواریوں کے ساتھ ساتھ صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ بھی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بار بار ٹوئیٹر پر پیغام دیتے ہیں، جلسوں میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ’’مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘، ’’مرسوں مرسوں پاکستان نہ ڈیسوں‘‘ سوچنے کی بات ہے کہ کیا سندھ اور پاکستان آپ کے گھر کا دالان یا کمرہ ہے، جسے آپ دینے سے انکار کر رہے ہیں؟ پاکستان تمام مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا، کسی ایک جماعت یا ایک زبان کے بولنے والوں کے لیے ہرگز نہیں بنا تھا۔

یہ سب کا وطن ہے، خواہ ہجرت کرنے والے لوگ ہوں یا پٹھان، بلوچی، پنجابی اور سندھی ہوں اس ملک کے لیے ایسی بات کرنا شفاف سیاست کی توہین ہے اگر ہجرت کرنے والے یہ بات کرتے ہیں کہ پاکستان ان کے بزرگوں اور انھوں نے بنایا ہے، جان و مال کی قربانی دی ہے حکیم سعید (شہید) جیسے بڑے لوگوں نے اپنی جائیدادیں چھوڑی ہیں ، نوابوں، امرا و رؤسا نے اپنی حویلیوں کو خیرباد کیا ہے ہمیشہ کے لیے، تو کون سی غلط بات ہے، پھر ان ہی کو سمندر میں پھینکنے کی بات کرنا، حقوق سے محروم رکھنا زیادتی نہیں تو کیا ہے؟

صوبوں میں اضافے کے حوالے سے ایک بات ذہن میں آرہی ہے اگر فرض کرلیں کہ آپ کا ایک محل ہے، یا پھر ہزار دو ہزار گز پر ایک بڑا گھر ہے، اتنے بڑے گھر میں کام کرنے والا ایک ملازم ہو تو کیا وہ ایک ملازم گھر کے تمام امور انجام دے لے گا؟ گھر کے دس، پندرہ کمروں کی جھاڑو، ڈسٹنگ کرتے کرتے اسے پورا دن گزر جائے گا، لان کی نگہداشت علیحدہ؟ اب کھانا کون پکائے گا؟ کپڑے دھونا اور پھر استری کرنا، باہر کا سودا سلف لانا، گاڑی صاف کرنا، یہ تمام کام کیا ایک نوکر کرسکے گا؟ نہیں، بالکل نہیں، اسی وجہ سے ہر کام کے لیے علیحدہ علیحدہ ملازمین رکھے جاتے ہیں، تاکہ گھر کے نظام بہتر طریقے سے چلیں، اسی طرح سے ایک صوبے کے تمام شہروں کے انتظامات، عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک شخص کافی ہے کیا؟

حالات اسی لیے بگڑے اور حق دار اپنے حق سے محروم رہے جتنے زیادہ صوبے بنیں گے اتنا زیادہ بہتر طریقے سے کام ہوگا۔ ہندوستان اور دوسرے ممالک میں بھی نئے صوبے بنائے گئے ہیں۔ لیکن وہاں تو ایسی صورت حال نہیں ہے۔

حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ملک کی بہتری اور رعایا کی خوشی اور خوشحالی کے بارے میں غوروفکر کرنا چاہیے نہ کہ اختلافات پیدا کرکے آپس میں ہی پھوٹ ڈال کر دشمنوں کو مواقع فراہم کیے جائیں کہ آؤ ہم پر مسلط ہوجاؤ۔ آج ہندوستان ہمیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے درپے ہے وہ ہر روز نت نیا ظلم کر رہا ہے۔ بھلا ہو سابق صدر پرویز مشرف کا کہ انھوں نے ہندوستان کے حکمرانوں کو ایک ایسا آئینہ دکھا دیا ہے جس میں وہ اپنی تصویر دیکھ کر تلملا گئے ہیں انھیں اندازہ نہیں تھا شاید کہ پاکستان ان کی زیادتیوں کا مقابلہ کرنا ان سے بہتر طریقے سے جانتا ہے۔

رہی صوبوں کی بات تو صوبوں کی تقسیم سے ملک کمزور نہیں مضبوط ہوگا، سیاستدانوں کا مطالبہ غلط نہیں ہے۔ عوام وڈیروں اور جاگیرداروں کے ظلم سہتے سہتے تنگ آگئے ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ ’’میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو وارننگ دیتا ہوں، جنھوں نے ہمارے وسائل سے ہی مال بنایا ہے کہ انھوں نے اسلام کے دیے ہوئے سبق کو بھلا دیا‘‘ آج کروڑوں انسان ایسے ہیں جو دن میں بمشکل ایک وقت کھانا کھاتے ہیں، کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ آج بھی سرمایہ داروں اور مقتدر حضرات کا یہی حال ہے، وہ پیسہ بنانے میں مصروف ہیں انھیں فرصت ہی نہیں کہ وہ رعایا کی طرف دیکھیں اور ان کے مسائل حل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔