جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکا

طلعت حسین  اتوار 9 نومبر 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف امریکا کے دورے پر جانے والے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں کے بعد پاکستانی فوج اور امریکا کے درمیان دوروں کے توسط ہونے والے رابطے بحال ہو گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان دوروں کے بغیر تعلقات کچھ خاص برے تھے۔ لیکن اسامہ بن لادن کے واقعے اور سلالہ واقعے کے بعد فوج کی اعلی قیادت نے امریکا کو اس معاملے میں کچھ فاصلے پر رکھا ہو ا تھا۔ ایسی پالیسی کا فائدہ یا نقصان کیا تھا یہ واضح نہیں۔ شاید ایبٹ آباد میں امریکا کی مہم جوئی اور سلالہ حملے کے بعد تھوڑی سی سرد مہری دکھانا ضروری تھا۔

بہرحال اب وہ ایک ایسا ماضی ہے جس کو دونوں ممالک میں اہم ادارے بھلانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کا دورہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن پاکستان میں کسی کو یہ خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ امریکا پاکستانی فوج کے سربراہ کو اس دورے کے دوران ایسا ماحول فراہم کرے گا کہ جس سے ماضی میں ہونے والی حقیقی یا تصوراتی زیادتیوں کے تمام داغ دھل جائیں گے۔ جنرل راحیل شریف کے دورے کا پیرایا بے شک مثبت اور دوستانہ ہے لیکن جس ماحول میں وہ واشنگٹن پہنچیں گے‘ اس میں بہت سے ایسے سوال موجود ہیں جو پاکستان کی نظر سے متنازعہ اور چبھتے ہوئے ہیں۔

امریکا کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹ محض ایک جھلکی ہے۔ اس میں لگائے گئے الزامات اس سیاق و سباق کا خلاصہ ہیں جو امریکا کی پاکستان کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی کا بنیادی حصہ بن چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں وہ تمام باتیں دہرائی گئیں جو متعدد بار غلط ثابت ہوئیں یا جن کے بارے میں باہمی میٹنگز میں بیسیوئوں وضاحتیں کی گئیں جو امریکا نے اس وقت مان لیں مگر اس کے باوجود یہ سب کچھ دوبارہ سے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ ( قارئین کی یاددہانی کے لیے اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات بیان کیے جا رہے ہیں)۔

’’پاکستان پراکسی یا غیر مسلح جنگجوئوں کا استعمال افغانستان میں اپنے گھٹتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے اور بھارت کی بر تر فوجی طاقت کے خلاف حکمت عملی کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘‘ ۔

’’پاکستانی طالبان اب بھی افغانستان پر حملے کر رہے ہیں اور یہ پاکستان افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں مشکلات پیدا کر رہا ہے‘‘۔

جنرل راحیل شریف کے دورے میں یہ سب باتیں بھی ہوں گی۔ ظاہر ہے ان کا جواب تیار کر لیا گیا ہے۔ پہلے کی طرح پاکستان دوبارہ سے اپنے موقف کا اعادہ کرے گا۔ جنرل راحیل شریف کے دورے کی کامیابی بہر حال ان متنازعہ موضوعات پر ایسا باہمی رابطہ بنانے میں پنہاں ہو گی جو اسلام آباد پر لگائے گئے ان الزامات کو حتمی طور پر ختم کرنے کا بندوبست کر پائے۔ ظاہر ہے الزامات لگانے والے کے روابط اور ان کے پیٹ سے جنم لینے والی پالیسی پاکستان کے گرد بعض شعبوں میں گھیرہ تنگ کرنے پر مبنی ہے۔ پاکستان اور چین امریکا اور ہندوستان کی اس خطے میں پالیسی کے خلاف ایک اتحاد کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اور چوں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے لہذا اسلام آباد کو کونے میں کھڑا کر کے بے بس کرنا واشنگٹن اور دلی کے اتحاد کا ایک واضح ہدف ہے۔

مگر اس حقیقت کے باوجود امریکا بہت سے دوسرے معاملات پر پاکستان کے ساتھ تعلقات خاص حد سے زیادہ خراب کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس میں سب سے کلیدی  معاملہ افغانستان میں استحکام ہے۔ کھربوں ڈالر لگانے کے بعد امریکا افغانستان میں ایک بدترین شرمندگی سے دوچار ہے۔ اصطلاحات کا جنگل اگانے کے باوجود وہ افغانستان کی ناکامی کو چھپانے سے قاصر ہے۔ موجودہ سیاسی اعتماد سازی کابل میں عارضی امن کی کیفیت تو پیدا کر  چکی ہے لیکن یہ نظر کا دھوکا کسی وقت بھی ختم ہوسکتا ہے۔

مستحکم افغانستان مستحکم پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر بارڈر کے آر پار کوئی ایسے مسائل ہیں جن سے پاکستان کے بارے میں شبہات پیدا ہوتے ہیں تو وہ تمام تر شفافیت کے ساتھ سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ اس خاص شعبے میں پاکستان امریکا سے جواب دہی کرنے کا مجاز ہے۔ کنڑ اور نورستان میں بیٹھے ہوئے اسلحہ بردار جتھے جو کارروائیاں کر رہے ہیں اس کی براہ راست ذمے داری واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے۔ اگر جان کیری عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی میں معاہدہ کروا سکتے ہیں تو ان جتھوں کے ہاتھ بھی باندھوا سکتے ہیں۔

بہرحال افغانستان پاکستان کے بہترین مفاد میں بھی ہے۔ اس کے علاوہ نیٹو فوجوں کے ساز و سامان کی واپسی‘ مشرق وسطی میں موجود اسلحہ بردار گروپوں کی اس علاقے میں آمد‘ ہندوستان کے ساتھ تعلقات وہ اہم معاملات ہیں جہاں پر امریکا اور پاکستان کے فوجی ادارے با معنی بات چیت کر سکتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دورے میں دوسرا بڑا سوال جمہوری نظام سے متعلق ہوگا۔

اگرچہ کسی فوجی سربراہ کو جمہوریت پسند ملک کو جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن چوں کہ ہماری تاریخ کچھ ایسی نہیں ہے کہ یہ معاملات ایسے دورے کے دوران ضرور اٹھائے جاتے ہیں۔ مگر اس ضمن میں جنرل راحیل شریف ایک مضبوط اور غیر متنازعہ کوائف رکھتے ہیں۔ تین ماہ پہلے سے شروع ہونے والے دھرنے نے فوج کے سیاسی کردار کے بارے میں جو سوال اٹھائے تھے‘ وہ ختم ہو چکے ہیں۔ فوج جمہوری تسلسل کے حق میں ووٹ ڈال چکی ہے۔ اگرچہ امریکا میں چند ایک پاکستانیوں سمیت ایسے فنکاروں کی کمی نہیں ہے جو اس تصور کی تشہیر کریں کہ جیسے ابھی بھی جمہوریت خطرے میں ہے۔ لیکن معروضی حقائق اس سے کافی مختلف اور مثبت ہیں۔

جنرل راحیل شریف کے دورے کا سب سے دلچسپ پہلو امریکی اخبارات اور ٹی وی چینلز کا رویہ ہو گا۔ امریکی بر وقت انتہائی متنازعہ خبریں چلوانے کے ماہر ہیں۔ یہ دورہ بھی اس ضمن میں محسوس نہیں ہو گا۔ دیکھتے ہیں جنرل راحیل شریف کا استقبال کیسے ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔