میری خواہش

مقتدا منصور  پير 10 نومبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاست کے بغیر صحافت بے لطف رہتی ہے، جب کہ صحافت کے بغیر سیاست بے اثر۔ دونوں ہی کو ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ سیاست دان صحافیوں کے تجزیوں، جائزوں اور تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی سیاست کو جدید سانچوں میں ڈھالتے ہیں۔ جب کہ سیاستدانوں کے ساتھ ہونے والی رسمی اور غیر رسمی ملاقاتیں اور گفتگو صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی معلومات اور سوچ میں وسعت کا باعث ہوتی ہے۔

ایک صحافی کی پیشہ ورانہ ذمے داری ہے کہ وہ تاریخ، سیاسیات، عمرانیات اور سماجی رشتوں کا مطالعے کے ساتھ سیاسی رہنمائوں، مدبرین اور اہل دانش کے علم و فضل اور تجربہ سے استفادہ کرتا رہے۔ جو آگہی ایک گھنٹے کی ملاقات میں ملتی ہے، وہ سو صفحے کی کتاب کے مطالعے سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صحافی مطالعہ چھوڑ کر صرف ملاقاتوں میں مصروف ہو جائیں، بلکہ ان دونوں سرگرمیوں میں توازن کی ضرورت ہے۔

میں نے بھی ذاتی طور پر اہل دانش اور سیاسی مدبرین کی صحبت میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ سکھر کے گلی کوچوں سے کراچی کے چھوٹے بڑے ایوانوں تک اہل دانش سے سیاسی مدبرین تک اور سیاسی قائدین سے کارکنوں تک جن اکابرین سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا، ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔ مگر میر غوث بخش بزنجو مرحوم کی سیاسی بصیرت، دوراندیشی اور فکری وسعت سے جو کچھ سیکھنے کا موقع ملا، وہ کہیں اور سے نہیں مل سکا۔

1970ء اور 80ء کے عشرے میں انھوں نے سیاسی صورتحال کے بارے میں جو جائزے اور پیش گوئیاں کیں، وقت گزرنے کے ساتھ وہ لفظ بالفظ درست ثابت ہوئیں۔ افغانستان میں ثور انقلاب کے بارے میں ان کا نقطہ نظر اور افغانستان میں لگی آگ کے پاکستان تک پہنچنے کے حوالے سے ان کے اندازے بھی مکمل طور پر صحیح ثابت ہوئے۔ پھر انھوں نے بلوچوں سمیت چھوٹی قومیتوں کو جو صائب مشورے دیے، ان کی اہمیت و افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

افغانستان میں نور محمد تراکئی کے ثور انقلاب پر جب ان کے ولی خان مرحوم سے اختلافات پیدا ہوئے تو انھوں نے NDP سے الگ ہو کر پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) تشکیل دی، جس نے جلد ہی پورے ملک کے روشن خیال اور متوشش حلقوں میں قبولیت حاصل کر لی۔ بزنجو مرحوم نے اپنی جماعت میں ترقی پسند عناصر کے علاوہ لبرل اور قوم پرستوں کو بھی جگہ دے کر اسے ایک وسیع البنیاد جماعت کی شکل دی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بایاں بازو ریاستی چیرہ دستیوں کے علاوہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی انتقامی کاروائیوں کا شکار تھا۔ مگر اس کے باوجود بائیں بازو کی اپنی سیاسی حیثیت ہوا کرتی تھی۔ 1989ء میں ان کے انتقال تک PNP ایک ملک گیر روشن خیال جماعت کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ مگر ان کی سیاسی اور فکری جاں نشینی کے دعویدار  اُن کی فکر اور جماعت کو بچانے میں ناکام رہے اور ان کے انتقال کے چند برسوں کے اندر ہی ان کی قائم کردہ جماعت قصہ پارینہ بن گئی۔

ان کے فرزندگان نے خود کو بلوچستان کی سیاست تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا اور بلوچستان نیشنل پارٹی (BNP) کی بنیاد رکھی، جب کہ میر صاحب مرحوم کے فکری وارثوں یوسف مستی خان اور لالہ عثمان بلوچ نے اپنے دیگر ساتھیوں سمیت اپنے دھڑے کو عابد حسن منٹو کی ورکرز پارٹی میں ضم کر کے نیشنل ورکز پارٹی تشکیل دی، جس کے جنرل سیکریٹری یوسف مستی خان منتخب ہوئے۔ دوسری طرف BNP اختلافات کا شکار ہوئی، تو حاصل بزنجو اور ان کے ساتھیوں نے غلطی کا احساس کرتے ہوئے ایک بار پھر قومی سیاست کی جانب رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے دوستوں کے مشورے سے قیام پاکستان کے وقت قائم ہونے والی نیشنل پارٹی کو زندہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں BNM کا ایک حصہ بھی شامل ہو گیا۔ یوں نیشنل پارٹی میں ڈاکٹر مالک بلوچ، ڈاکٹر عبدالحئی سمیت بلوچستان کے اہم سیاسی رہنما اس جماعت میں شامل ہو گئے۔ نیشنل پارٹی نے 2002ء کے انتخابات میں تو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی، لیکن 2008ء اور پھر 2013ء کے عام انتخابات میں یہ بلوچستان سے ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔

دوسری جانب نیشنل ورکرز پارٹی بھی سنجیدگی کے ساتھ بائیں بازو کی سیاست کو مجتمع کرنے کی کوششوں میں مصروف رہی۔ پہلے سوشلسٹ پارٹی، پھر کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی کا ایک دھڑا شامل ہوا، اس کے بعد لیبر پارٹی بھی اس میں ضم ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے لیے عوامی جمہوری پارٹی بھی اس جماعت میں ضم ہوئی اور اس کا نام نیشنل ورکرز پارٹی سے تبدیل کر کے عوامی ورکرز پارٹی کر دیا گیا۔ مگر بعد میں عوامی جمہوری پارٹی اس سے نکل کر نیشنل پارٹی میں ضم ہوگئی۔ لیکن عوامی ورکرز پارٹی نیشنل کا لفظ دوبارہ اپنے نام کے ساتھ شامل نہیں کر سکی، جو میر صاحب مرحوم کی وراثت تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بائیں بازو کی اتنی جماعتوں کے انضمام کے باوجود عوامی ورکرز پارٹی نہ تو پاکستانی عوام کو اپنی جانب متوجہ کر سکی اور نہ ہی ملکی سیاست میں کوئی خاطر خواہ مقام حاصل کر سکی۔

دراصل بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جو ویسے تو ترقی پسندی اور روشن خیالی کا دعویدار ہوتی ہیں، مگر اپنی سرشت میں فیوڈل تنگ نظری اور عقیدہ پرستوں جیسی قدامت پسندی کا مزاج رکھتی ہیں۔ کمزور تنظیمی ڈھانچہ، باہمی اختلافات اور معروضیت سے عاری سیاسی سوچ کے باعث یہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اپنی مقبولیت کھوتی چلی جا رہی ہیں۔ آج پاکستانی سیاست میں بائیں بازو کا عملاً کوئی وجود نہیں ہے۔

حالانکہ 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں بائیں بازو نے جن ایشوز کو اٹھایا اور جو نعرے دیے، وہ آج دائیں بازو کی قدامت پرست جماعتوں سمیت ہر جماعت کا مقبول ترین نعرہ بنے ہوئے ہیں۔ مگر آج کی نسل نہیں جانتی کہ ان نعروں کی اصل خالق بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ہیں، جو اب مکمل طور پر گہنا چکی ہیں۔ حالانکہ پاکستان جن مسائل اور جن حالات سے دوچار ہے، اس میں بائیں بازو کی سیاست وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ مگر کیا کیا جائے، جب ان جماعتوں کے کرتا دھرتا اکابرین خود ہی باہمی چپقلشوں اور ذاتی انائوں کے خول میں بند زمینی حقائق سے منہ چرا کر دراصل اپنا ہی نقصان کر رہے ہوں۔

اگر ملکی سیاسی منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جو عوام کے تمام طبقات کی نمایندہ جماعت کہلا سکے۔ پیپلز پارٹی عوام سے ہمدردی کے لاکھ دعوے کرے، مگر وہ فیوڈل مفادات کے حصول کی جماعت بن چکی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی صرف پختونوں تک محدود ہو چکی ہے۔ ایم کیو ایم کا محور سندھ کے شہری علاقے ہیں، جب کہ مسلم لیگ (ن) نے خود کو پنجاب تک محدود کرلیا ہے۔

تحریک انصاف گو کہ پورے ملک میں اپنا وجود رکھتی ہے، مگر سیاسی بصیرت کے فقدان اور واضح نظریات کی عدم موجودگی کے باعث اس میں ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی صلاحیت نظر نہیں آ رہی۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں قومی سطح پر ایک ایسی جماعت کی اشد ضرورت ہے، جو عالمی اور علاقائی منظرنامہ کے علاوہ قومی مسائل کے بارے میں واضح آگہی رکھتی ہو۔ فکری طور پر وسیع البنیاد سوچ کی حامل ہو، پاکستان کو موجودہ سیاسی اور سماجی بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس مقصد کے لیے بائیں بازو کے حلقے اگر ماضی کے سحر، فیوڈل Mindset اور فرسودہ سوچ سے باہر نکل کر زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق از سر نو اپنی صف بندی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

سیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر میری دلی خواہش ہے کہ میرصاحب مرحوم کی خاندانی اور فکری میراث ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ان کے نظریات کو جلا بخشنے کی کوشش کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب یہ لوگ اپنے اختلافات ختم کر کے مشنری جذبے کے تحت یکجا ہو جائیں۔ تا کہ میر غوث بخش بزنجو مرحوم کی سیاسی فکر کے ملک گیر فروغ کے ذریعے اس ملک کو ایک نیا سیاسی و سماجی ایجنڈا دیا جاسکے اور پریشانیوں میں مبتلا پاکستانی عوام کو حقیقی رہبری فراہم ہو سکے۔

اس سلسلے میں اپنے عزیز ترین اور مخلص دوستوں اور فکری ساتھیوں یوسف مستی خان اور لالہ عثمان بلوچ کے علاوہ برادر خرد حاصل بلوچ سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے فروعی اختلافات بھلا کر میر صاحب مرحوم کی جماعت ’’پاکستان نیشنل پارٹی‘‘ کو دوبارہ زندہ کریں۔ جو میرے خیال میں اس ملک کے عوام، متوشش شہریوں اور مثبت سوچ کے حامل اہل دانش پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ یہ عمل نہ صرف وقت کی ضرورت ہے، بلکہ پاکستان کے جغرافیہ میں آباد تمام قومیتوں اور لسانی اکائیوں کے علاوہ تمام مذاہب اور عقائد کے ماننے والوں کے حقوق کا ضامن بھی ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔