تسکین اضطراب تو دے

نادر شاہ عادل  پير 10 نومبر 2014

برمودا نے کہا تھا ’’تین انقلابات: فرانسیسی، روسی اور امریکی ابتدا میں سچ اور صحیح تھے، وہ اپنے عوام سے بے لوث وابستگی کے حامل تھے، پھر انھوں نے عوام کو اپنے درمیان سے فراموش کر دیا، فرد کو بھول گئے، درحقیقت انقلاب اپنے رستے سے ہٹ گیا تھا، اور سارے انقلاب دیوہیکل نوکرشاہی اور انتظامی عفریت کی شکل میں ڈھل گئے‘‘۔ قسم لے لو، ان انقلابات زمانہ کا علامہ قادری اور عمران خان کے مجوزہ انقلابوں سے کوئی عمرانی یا اصلاحی تعلق نہیں ہے۔

برمودا ٹرائنگل اسی عظیم اسپینی بحری سیاح ہوان ڈی برمودیز سے منسوب ہے۔ آج اس شخص کی یاد بھی اسی لیے آئی کہ سیاسی گرداب میں پھنسی ہماری سیماب صفت دھرتی ایک سیاسی برمودا ٹرائنگل جیسی صورتحال سے دوچار ہے، یوں لگتا ہے کہ خطے کے آزادی پسند اسلامیان ہند آسمان سے گر کر پاکستان کی کھجور میں اٹک گئے ہیں، ایک حصہ 71ء میں دو نیم ہو چکا، عقل کے ناخن نہ لیے، اب نیا پاکستان بنانے کا ارادہ ہے، زمینی حقائق اعصاب شکن حد تک چشم کشا ہیں، جو کچھ نظر آتا ہے وہ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔

پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جا بہ جا ادارہ جاتی بحران، معاشی ہلچل، سیاسی ڈرامہ بازی، دہشت گردی سے زندگی نڈھال۔ کہیں تزویراتی گہرائی کا قصہ پڑھیے اور سر دھنیے۔ سابق سفیر ریاض محمد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’پاکستان کی افغان پالیسی غلط مفروضوں پر قائم ہے۔ پاکستان کا افغانستان میں تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کا مفروضہ سراسر بے بنیاد ہے، افغانستان میں پاکستان کے لیے گہرائی کی تلاش کرنا موضوعی نظریہ ہے، جو مداخلت اور سرپرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘‘

چنانچہ زمینی حقائق کا نیا شعور رکھنے والے جنرل راحیل شریف افغان صدر اشرف غنی سے اس بار کس تناظر میں پاک افغان تعلقات کی مستحکم بنیاد رکھتے ہیں، اہل نظر کی بے قرار نظریں اس نکتہ پر مرکوز ہیں۔ افغان وار تھیٹر کے عالمی گدھ بھی اس پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔ وسیع تر تناظر میں دیکھیے تو تاریخ ساز شور و غوغا، دستی بموں میں پل کر ہم تو جواں ہوئے ہیں، غارت گری ہے یارو قومی نشاں ہمارا، قومی وقار، خودمختاری اور سلامتی کے سارے معاملات اغیار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں، خوشی پل بھر میں کافور۔ ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار، اسٹریٹ کرائم کی بھرمار، اقلیتیں خوفزدہ، کبھی تو ایسا منظر کہ سب دن چنگے، مگر تہوار کے دن ننگے۔

ادھر نظر ڈالیے تو پاکستانی سماج اخلاقیات کے دشت تنہائی میں رل رہا ہے، میڈیا کے الیکٹرانک بھونپو آزادی اظہار کے نام پر نئے سیاسی کلچر کی دیواریں اٹھا چکے جہاں گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونے کا اپنا مزہ ہے۔ دہشت گردی نصاب زندگی بن گئی ہے، داعش کی آمد آمد ہے، یعنی طالبان سے ترک تعلق کو اک زمانہ ہوا تو یہ نئی مصیبت سر پر آن کھڑی ہوگئی۔

فکری حلقوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قوم کو یک نکاتی ایجنڈہ پر متفق ہونا چاہیے، کیونکہ دہشت گرد وطن عزیز کا دشمن ہے، اس سے نمٹنا ملکی سلامتی، آئین و پارلیمنٹ کے وقار سربلندی، جمہوری عمل کی بقا اور عوام کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دشمن سات پردوں میں چھپا ہے، نظر کو اچھا بھی لگتا ہے اور دل کو برا۔ کالعدم بھی ہے اور ایکٹیو بھی، شاہیں بھی ہے اور زاغ بھی۔ دہشت گردی کا چیلنج جس جرات عمل کا متقاضی ہے اس کا واضح اظہار سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سے ہونا چاہیے تاکہ قوم بربادی اور بے چارگی کے اس دردناک منظرنامہ سے باہر نکلے، اس کے معمولات زندگی بحال ہوں، قتل و غارت بند ہو۔ ہم سب بندے دا پتر بن جائیں۔

جمہوری عمل کے دھارے میں سب شامل ہوں، ایک ایٹمی اسلامی ملک ڈرون حملوں کے خلاف ایک واضح موقف اختیار کرے۔ داخلی چیلنجز صبر آزما ہیں، سیاسی عمل، انتظامی کارکردگی، عوام کے ذہنوں پر چھائے خوف و ہراس، جسمانی خستگی کے سارے مظہر اور اثرات مٹ جانے چاہئیں۔ اس کے عملی اظہار کا یہی وقت ہے، جذباتی، بے معنی اور کھوکھلے بیانات کے گولے داغنے اور فلسفہ بگھارنے کا وقت چلا گیا۔

قوم نیرو کی بنسری اور جولیس سیزر کے قتل کے قصوں سے اس لیے بیزار ہے کہ اسے اپنے داخلی ’’بروٹسوں‘‘ نے بے چین کیے رکھا ہے، اسے زمینی حقائق کے اژدہے دبوچے ہوئے ہیں، ملک کو دہشت گردی، مذہبی و مسلکی، اربن فسطائیت، کشت وکشار، بد امنی اور لاقانونیت کے دہکتے آتشکدے تک لے آئے ہیں، پھر سے ایک نار نمرود اور گلزار ابراہیمی کے درمیان وقت ہمیں کھینچ کر لایا ہے۔ اہم سیاست دانوں کا شکوہ ہے کہ ملک سے نظریاتی سیاست کا جنازہ اٹھ چکا، اس لیے المدد اے مالک ارض و سما المدد۔

سب یہی کہتے ہیں قومی سیاست بے سمت ہے، فکری انحطاط عروج پر ہے، معاشرے کو شعوری، سماجی، علمی، سیاسی اور فکری سطح پر ناقابل بیان قحط الرجال اور قہرالرجال کے دو طرفہ مسائل کا سامنا ہے، یعنی اہل علم اور باکمال لوگ ناپید مگر ظلم ڈھانے والے بے شمار۔ عام آدمی محصور ہے، کوئی بھی بااثر اوباش آدمی دس مسلح لڑکوں کا گروپ بنا کر علاقہ پر راج کر سکتا ہے، اور وہ کر بھی رہا ہے۔

سیاسی رہنما باہم دست و گریباں ہیں، اہم فیصلے کے کسی مضبوط پل کو عبور کرنے میں ابھی بھی ہمیں تامل ہے، اپنے عساکر اور عدلیہ پر یقین محکم پیدا کرنے میں اشرافیہ مزید کتنا وقت لے گی، ہم ’’ایلس ان دی ونڈرلینڈ‘‘ والی کیفیت سے کب نکلیں گے، جمہوریت کی اس بند گلی سے نکلنے کا حقیقی راستہ کون سا ہے، ہم اتنے مجبور کیوں ہیں کہ کٹھ پتلیوں کی حقیقت تک بتانے سے گریزاں ہیں، سایوں کے تعاقب میں کئی قیمتی سال بیت گئے، ہاری و مزارعین اسی دھوپ میں کھڑے ہیں، بندہ مزدور کے اوقات ابھی بھی تلخ ہیں، غضب کی بات ہے کہ بادشاہ لوگ مردم شماری سے کتراتے ہیں، بلدیاتی الیکشن کا انعقاد علی بابا کے غار میں گھسنے سے زیادہ طلسم ہوشربا بنا ہوا ہے، نیشنل اسٹرٹیجی بنانے چلو تو بحث چلتی ہے کہ گھر کو آگ لگی، بھیا بھاگو پولیس اسٹیشن کی طرف، کوئی یہ نہیں کہتا عقل کے پیدلوں، فائر بریگیڈ کو بلائو۔

پوری قوم 67 برسوں سے سیاسی انتخاب کی غلط بس میں بیٹھنے اور ہر الیکشن پر غلط اسٹاپ پر اترنے کا تجربہ کرتے ہوئے اب تھک چکی ہے، المیہ یہ تھا کہ اسی تھکی ماندی روتی پیٹی ’’ووٹنگ مشین‘‘ سے امید انقلاب وابستہ کی گئی۔ لہٰذا ایک بار پھر ڈی چوک پر جا کر بس رک گئی۔ سنا ہے CNG ختم ہو گئی۔ اب ایک نیا رائونڈ ابائوٹ بنانا ہے جو ووٹرز کو ان کی انتخابی سوچ و جبلت اور داخلی محکومیت سے نجات دلائے۔ ووٹر ہی فیصلہ ساز ہو، وہی خاموش اکثریت کا کردار نبھائے، اسے ہر سیاسی جماعت اپنا ہاری نہ سمجھے۔

وسط مدتی انتخابات سے پریشاں صدر اوباما نے کچھ عرصہ قبل امریکی قوم کو نئے نعرے اور اسٹرٹیجی کی ضرورت کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے، وہ کہتے ہیں ’’ناک آئوٹ اسٹرٹیجی بنانی چاہیے۔ دہشت گردوں کو جیتنے نہ دیں، انھیں وہ کچھ نہ دو جس کی وہ تمنا رکھتے ہیں، خوفزدہ نہ ہونا بھی ایک چیلنج ہے، خوف زدہ ہونے سے انکار کر دیجیے۔ اور ہر قانون شکن چاہے کسی روپ یا بہروپ میں ہو کہیں بھی نمودار ہو، اسے ٹارگٹ پر حملہ کرنے سے پہلے دبوچا جائے۔‘‘

حکمت عملی کے نچوڑ کے حوالے سے سچ کہا انکل سام نے! ہم بھی اسی طرف چل پڑے ہیں، کچھ دہشت گرد ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکے، مگر ابھی وہ منزل نہیں آئی، آجائے گی، بقول جوشؔ: اک ذرا صبر مری جان کہ بیداد کے دن تھوڑے ہیں! انکل سام کا تذکرہ بے سبب نہیں، ہماری پوری سیاسی تاریخ انکل سام کے ’’تسکین اضطراب تو دے‘‘ کی فریادی لے کے بغیر نامکمل رہے گی۔ اس لیے ان اونٹوں کا شکریہ جن کے گلے میں تھینک یو امریکا کے پلے کارڈ لٹکے ہوئے تھے۔ پاکستان کی سیاسی کہانی سے امریکی کردار کو نکالنا ممکن نہیں لیکن اس مملکت خداداد کو بحرانوں سے بچانے کی ابتدا بلدیاتی انتخابات سے تو کی جا سکتی ہے۔

برطانوی مفکر جان اسٹیورٹ مل نے کہا تھا ’’اگر سڑکیں، ریلویز، محصولات، انشورنس آفسز، جائنٹ اسٹاک ایکسچینج کمپنیاں، جامعات، عام خیراتی ادارے حکومت کی شاخیں ہیں اور ہر میونسپل کارپوریشن، لوکل بورڈ، اور وہ تمام ادارے جو ان کے محور پر گھومتے ہیں مرکزی انتظامیہ کے محکمے کہلاتے ہیں، اور اگر ان محکموں کے تمام ملازمین حکومت کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں، حکومت ہی انھیں تنخواہیں دیتی ہے، اور یہ ادارے ہر ہر قدم پر حکومت کے مرہون منت ہوتے ہیں تو تمام تر آزادی صحافت اور مقننہ کے بنائے ہوئے عوامی آئین ایسے ملک کو اور نہ کسی اور کو آزاد ملک کی حیثیت دے سکتے ہیں، مگر صرف برائے نام۔‘‘ مثل مشہور ہے کہ ظلم پر مبنی حکمرانی شیر سے زیادہ دہشت ناک ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔