انقلاب اور برادری نظام

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 10 نومبر 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جس طرح ہمارے گورے آقاؤں نے ہمیں آزادی دینے سے قبل ایک ایسا تعلیمی نظام ہمارے سر تھوپ دیا تھا جس کو اپناکر ہم آج بھی من حیث القوم تباہی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں، بالکل ایسے ہی ان گورے آقاؤں نے ہمیں جمہوریت کا وہ نظام فراہم کردیا کہ جس کو اپنانے کے بعد خود ان آقاؤں کو اور سیاست میں داخل رہنماؤں کو تو بہت فائدہ حاصل ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے لیکن اس قوم کو کچھ حاصل نہیں ہو رہا، سوائے سہانے خواب اور مسائل میں اضافے کے۔

ایک زمانہ تھا کہ کسی ریاست میں اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کے لیے یا اختیارات حاصل کرنے کے لیے بیرونی قوتوں کو لاؤ لشکر کے ساتھ باقاعدہ حملہ کرنا پڑتا تھا اور گھمسان کی جنگ اور خون خرابے کے بعد تخت و تاج پر قبضہ کرنا پڑتا تھا جیساکہ انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند میں کیا۔ لیکن جمہوریت انگریزوں کا وہ تحفہ ثابت ہوا کہ جس کے ذریعے جب بھی یہاں انھیں اپنی مرضی کے فیصلے کرانے ہوں یا حکومت وقت اپنی مرضی چلائے (یا سرکشی کرے) تو مخالف جماعتوں یا گروہوں کے ذریعے حکومت کرنے والوں کا صفایا کردیا جائے۔

یوں جمہوریت کا ایک بڑا فائدہ بیرونی قوتوں کو یہ حاصل ہوا کہ کسی ریاست پر بغیر حملہ کیے وہاں کا تختہ الٹا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب جمہوریت کا نعرہ لگانے والی جماعتوں اور گروہوں کو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ جب بھی عوام کا حصہ عروج پر پہنچے تو وہ حکمراں جماعت کے خلاف احتجاج کرکے حکومت گرا دے یوں عوام کا غصہ ٹھنڈا کردیا جائے اور نیا گروہ مزے سے اقتدار میں آجائے اور جب دوبارہ عوام کا غصہ بھڑکے تو یہ کہانی پھر دہرا دی جائے۔

ہوسکتا ہے کہ میرے بعض پڑھنے والے اس بات پر اعتراض کریں اور اتفاق نہ کریں لیکن حقائق یہی ہیں۔ جس وقت اسلام آباد میں ڈاکٹر قادری اور عمران خان کے دھرنے جاری تھے اور میرے کچھ دوست یہ یقین سے کہہ رہے تھے کہ اب انقلاب بالکل قریب ہے اور عوام کی قسمت بدلنے والی ہے اس وقت راقم نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں اور پھر اگلے روز اپنے کالم میں بھی یہ بات واضح طور پر کہی تھی کہ ہماری سیاسی اور خطے کی تاریخ بتاتی ہے جب بھی یہاں تبدیلی کی کوئی بڑی سیاسی تحریک چلی ہے اس کے پس پردہ خفیہ اور بیرونی قوتوں کے ہاتھ ہوتے ہیں۔ راقم کے اس تجزیے کے دو روز بعد ہی جاوید ہاشمی اور پھر جنرل (ریٹائرڈ) مرزا اسلم بیگ کے انکشافات نے راقم کے تجزیے کو حرف بہ حرف درست ثابت کردیا۔

کیا یہ غور طلب بات نہیں کہ اس وقت حکومت اور حزب اختلاف کی کشمکش میں جتنے بھی گروہ اور جماعتیں ہیں وہ سب کی سب جمہوریت کی سب سے بڑی داعی ہیں لیکن جمہوریت کے بیان کردہ اصول کے قطعی برعکس چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت کسی بھی طور اپنے پانچ سال پورے نہ کرے۔ حالانکہ جمہوریت کے جو اصول بیان کیے جاتے ہیں اس کے تحت تو عوام کے اہم مسائل پر آواز بلند کی جانی چاہیے اور احتجاج بھی کیا جانا چاہیے۔

دوسری طرف مشاہدات سے پتا چلتا ہے کہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے جمہوری نظام کے مقابلے میں برادری نظام زیادہ اہم کردار ادا کر رہا ہے مثلاً سرکاری اسپتالوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے لیکن راقم گواہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں کئی برادریوں کے تحت مڈل اور لوئر مڈل کلاس علاقوں میں علاج و معالجے کی مناسب سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ بعض نے تو مختلف اقسام کی بس سروسز اور تعلیم میں مدد فراہم کرنے کی سہولیات بھی فراہم کی ہوئی ہیں۔ محلے داری کا نظام بھی ہمارے ہاں جب تک مضبوط رہا، لوگوں کو بڑا فائدہ رہا۔

آج بھی جن علاقوں میں برادری یا محلے داری کا روایتی مضبوط نظام ہے وہاں ’’اسٹریٹ کرائم‘‘ کی شرح نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے، نہ ہی کسی جماعت کی جانب سے بھتہ لینے یا بقرعید پر زبردستی کھال لینے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس کلچر میں پرورش پانے والے بچوں کی تربیت بھی عموماً اچھی رہتی ہے، یعنی وہ بے راہ روی یا جرائم کی طرف آسانی سے راغب نہیں ہوتے۔ کوئی نہ کوئی نظر بچوں کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔

ایک دوسرے کی مدد سے بہت سے مسائل منٹوں میں حل ہوجاتے ہیں۔ لوگ آپس میں کمیٹیاں ڈال کر اپنی مالی مشکلات حل کرلیتے ہیں، اگر کسی کی کوئی مجبوری ہو مثلاً بیٹی کی شادی کا موقع ہو تو اس کو کمیٹی بخوشی جلد دے دی جاتی ہے جب کہ آپ کسی بینک وغیرہ سے لون لیں تو آپ کو اس کا سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور بہت مشکل طریقہ کار سے گزرنے کے بعد ہی لون آپ کو ملتا ہے اور اگر وقت پر ادائیگی نہ ہو تو عزت الگ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کریڈٹ کارڈ اور مختلف ناموں کے لون تو بہت خوبصورت لگتے ہیں مگر اس جمہوری ملک اور نظام میں یہ سہولت حاصل کرنے والے خودکشی بھی کرنے پر مجبور ہوئے مگر عوام کے نام پر، عوام کے لیے حکمرانی کرنے والوں نے ان واقعات پر بھی کوئی ایکشن نہ لیا۔

خیر راقم کا مقصد یہاں محض جمہوریت کی برائیاں کرنا نہیں بلکہ اس جانب توجہ دلانا ہے کہ نظام تعلیم کی طرح یہ جمہوری نظام اس ملک کے عوام کے لیے کوئی بڑا انقلاب لانے والا نہیں۔ محلے داری اور برادری کا نظام ماضی میں بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور اب اس کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جدت پسندی کو اپناتے ہوئے ہم اپنی بہت سی خوبیوں کو خیرباد کہہ رہے ہیں جس کے منفی اثرات ہمارے معاشرے پر پڑ رہے ہیں اور یہ منفی اثرات معاشی اور معاشرتی سمیت کئی طرح کے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔

یہ وہ مسائل ہیں کہ جن کو ریاست بھی براہ راست حل نہیں کرسکتی یہاں صرف ایک مثال کافی ہے اور وہ یہ کہ پہلے گھر بیٹھے ہی لڑکیوں کے رشتے دروازے پر چل کر آجاتے تھے، شادی کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی رشتے طے ہوجاتے تھے، معاملات و اخراجات کی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی، مگر آج ہم سب جانتے ہیں کہ شہری علاقوں میں جگہ جگہ میرج بیورو کھلے ہوئے ہیں اور جہاں بھی جائیں وہاں لڑکیوں کے رشتے تو بہت مگر لڑکوں کی قلت نظر آتی ہے۔

یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ ہمارے ہاں تمام مسائل کے حل کے لیے صرف ایک ہی طریقہ یا نظام ’’جمہوریت‘‘ کو اختیار کیا جا رہا ہے۔ جب کہ مسائل، معاشرتی، تہذیبی، مذہبی وغیرہ کے اعتبار سے الگ الگ نوعیت کے ہیں لہٰذا ان مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے کے لیے طریقے بھی مختلف ہوں گے، تاہم عصر حاضر میں عموماً عالم اسلام اور خصوصاً پاکستان میں عوام کے سیاسی، معاشی، مذہبی وغیرہ کے مسائل حل کرنے کے لیے صرف سیاسی دائرہ کار کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اس میں بھی صرف جمہوریت کو اختیار کیا جاتا ہے جب کہ دیگر بھی کئی طریقے ہیں جن سے ان مسائل کے حل میں خاصی مدد مل سکتی ہے، جس میں سے ایک طریقہ برادری نظام بھی ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ برادری نظام میں بہت سی خامیاں بھی ہیں، خاص کر دیہی علاقوں میں انسانیت سوز واقعات بھی ہوتے ہیں تاہم اگر ان برائیوں کو دور کرلیا جائے یا ان میں سے اچھائیوں کا انتخاب کرلیا جائے تو اس عمل سے عوام کے بہت سے مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، تاہم ان برائیوں کے باوجود شہری علاقوں میں خاندان، برادری اور محلے داری کا نظام اب بھی عوام کی بھلائی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اور یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و ستم سے عوام کو قدرے محفوظ بھی کیے ہوئے ہے۔

برادری اور محلے داری کے نظام نے جہاں جہاں اپنی وقعت کھوئی ہے وہاں وہاں اب لوگوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوئی ہیں، ایک دوسرے پر اعتماد تو دور کی بات، شناسائی بھی نہیں، تو بھلا بزرگوں کا احترام اور رشتے داریاں کیسے ہوں؟ اس جیسے بے شمار مسائل کا حل کسی انقلابی دھرنے کے پاس بھی نہیں۔ آئیے جہاں ہم رہتے ہیں وہاں ایک دوسرے سے دوریاں، اجنبیت ختم کریں، دفتر جاتے ہوئے پڑوس کے کسی بچے کو اسکول پہنچانے کے لیے اپنی گاڑی میں لفٹ دیں، کسی پڑوسی کا سودا لادیں، کوئی اچھی چیز پکائیں تو کبھی دائیں اور کبھی بائیں بازو کے پڑوسی کو بھی بھیج دیں، کوئی بیمار ہو تو تیمار داری کے لیے چلے جائیں۔ اسی طرح کے اور چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہم ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ آئیے غور کریں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔