لاوارث

تنویر قیصر شاہد  منگل 11 نومبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دھان کی فصل سے بھرے کھیت چاروں اُور پھیلے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے سنہرا سمندر کاہلی سے لیٹا پڑا ہے۔ نیم خنک دوپہر میں ہوا اس سنہرے سمندر میں سرسراتی ہوئی گزر رہی تھی۔ اسی سے دھان کے ’’سمندر‘‘ میں ہلکی ہلکی لہریں پیدا ہورہی تھیں۔ فصل کٹنے کے قریب ہے۔

مَیں نے یہ جانفزا نظارہ دیکھا تو شدت سے پرل ایس بک کا عالمی شہرت یافتہ ناول Letter  From  Peeking یاد آنے لگا جس میں دھان کی پکی فصل سے وابستہ چینی ثقافت کے کئی رنگ باندھے گئے ہیں۔ یہ ایک منتظر امریکی بیوی، جس کا شوہر نسلی اعتبار سے نصف چینی ہے، کی یادوں سے وابستہ اداس کردینے والا ناول ہے۔ ایک اَن کہی اداسی سے مغلوب ہوکر مَیں نے کھڈوں میں ہچکولے کھاتی گاڑی کے پارنظریں گاڑ دیں۔ ٹوٹی اور ادھڑی سڑک کے باعث ناک اور پیشانی پر دھچکے لگتے۔ ’’کیسا دل افروز منظر ہے!‘‘ مَیں نے بے اختیار سوچا ’’اور سونا اگلتی ہوئی یہ زمین۔۔۔ مگر یہ خوف اور بے یقینی کی فضا میں گھری ہے۔‘‘ مَیں نے مشرق کی جانب دیکھا۔

اُس پار، بالکل ہی قریب ہی، جارح اور فسادئہ آماد بھارت ہے۔ اپنی نئی نئی طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا، نہایت ناقابل اعتبار ہمسایہ جسے ہوسِ زمین بھی ہے اور جو گذشتہ چھ عشروں سے ہمیں ہڑپ کر لینا چاہتا ہے۔ اس نے ہمیں سازش و طاقت سے آدھا بھی کیا اور اب وہ پروپیگنڈہ کی طاقت سے ہمیں عالمی سطح پر بدنام کرنے کے در پے بھی ہے۔ ہم ہیں کہ سفارتی محاذ پر بھی اس کے سامنے پسپا ہورہے ہیں اور معاشی اعتبار سے بھی۔ اس نے ہمیں سیاچن پر زک پہنچائی اور کارگل میں بھی۔ اور اب وہ شکر گڑھ میں ورکنگ باؤنڈری پر بھی ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے اور ایل او سی پر بھی ہمارے خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران اس نے تقریباً دو درجن کے قریب ہمارے شہریوں کا خون بہا دیا ہے اور ہم خاموش ہیں۔ دعویٰ ہے کہ دشمن کی توپیں خاموش کرادی گئی ہیں لیکن یہ توپیں تو اس دعویٰ کے برعکس پاکستان کے خلاف ہنوذ دھنا دھن گرج رہی ہیں اور ہم اس کے باوصف دشمن سے دوستی، تعاون، بھائی چارے اور امن کے خواہاں اور متمنی ہیں۔ اچانک ایک چھوٹے سے دھماکے کے ساتھ گاڑی سڑک کے بیچوں بیچ بنے گہرے کھڈے میں جاگری۔ ماتھے پر چوٹ لگنے سے مَیں ہڑ بڑا کر اچھلا اور گاڑی کی آہنی سیٹ سنبھال لی۔ باہر نکل کر بے چارگی اور غصے کو کم کرنے کے لیے زور زور سے سانسیں اندر کھینچیں۔ فضا میں رچی بسی باسمتی اور سُپری کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی۔ ایک لحظے کے لیے غصہ اور چڑ چڑا پن ہوا میں تحلیل ہوگیا۔

اگر شکر گڑھ کے کسانوں اور زمینداروں کو حکومت کی جانب سے مناسب زرعی سہولتیں، جدید آلات اور ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی فراہم کر دی جائے تو یہ زرخیز زمینیں مزید اناج پیدا کرسکیں گی۔ اس سے خوشحالی میں بھی اضافہ ہوگا۔ اگر یہاں کی ادھڑی اور شکستہ حال سڑکوں کو از سرِ نو تعمیر کردیا جائے تو یہ اناج منڈیوں تک پہنچانا بھی آسان رہے گا مگر تحصیل شکر گڑھ کے سرحدی علاقوں سے عوامی نمایندگان اور حکومتی عمال نے جس طرح کا اغماض برت رکھا ہے۔

انھیں جس بُری طرح نظر انداز کیا ہوا ہے، ایسے میں یہ سب باتیں محض ایک خواب ہیں۔ یہاں کی تباہ حال سڑکیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی ابھی سب سڑکوں پر تاک کر دشمن نے بمباری کی ہے۔ کہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ شکر گڑھ چونکہ ہمیشہ بھارتی توپخانے کی زد میں رہتا ہے، ہمیشہ تباہی پھیلنے کے اندیشے بادل بن کر چھائے رہتے ہیں، ایسے میں سرکار اور عوامی نمایندگان نے سوچا ہوگا: چھوڑیں جی، اسے ’’جیسا ہے، جہاں ہے کی بنیاد‘‘ پر رہنے دیں۔ نالہ بئیں کے پار تحصیل کا وسیع علاقہ کسی بھی کالج سے محروم ہے۔

مجھے شکر گڑھ کے ایک سابق بیوروکریٹ، جو وفاقی سیکریٹری کے عہدے سے حال ہی میں فارغ ہوئے ہیں، نے تاسف سے بتایا کہ چالیس سال قبل مَیں اپنے گاؤں کے جس اسکول کی خستہ عمارت میں زیرِ تعلیم تھا، آج بھی وہ عمارت ویسی ہی ہے۔ مَیں نے کہا: ’’ہم بحیثیت مجموعی آثارِ قدیمہ سے محبت کرنے والی قوم ہیں، اس لیے شکرگڑھ کے سرکاری حکام اور عوامی نمایندگان نے آپ کے اسکول کو اصل حالت میں رکھا ہے۔‘‘ سن کر ہنس دیے۔ یہ صاحبِ دل بیوروکریٹ چاہتے ہیں کہ نالہ بئیں سے پار کسی جگہ سرکاری کالج منظور ہوتو وہ اس کی عمارت کے لیے ایک کروڑ روپیہ عطیہ دے سکتے ہیں لیکن کوئی راستہ تو کھلے۔

اس سے پہلے کہ شکر گڑھ ضلع نارووال کا ’’تھر‘‘ بن جائے، یہاں کے معزز ارکانِ اسمبلی کو اس طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔ یہاں کے ایم پی اے مولانا غیاث الدین صاحب نے شکر گڑھ شہر کے ڈگری کالج میں ایم اے کی چند کلاسیں جاری کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب سے اجازت تو حاصل کر رکھی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مولانا غیاث الدین صاحب کی مہربانی کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گی۔ کالج کی عمارت ہی بچ جائے تو یہ بھی معجزہ ہوگا۔ اساتذہ کی مین پاور ہونے کے باوصف یہ لاوارث ہے۔

اس تحصیل کے مرکز سے چار پانچ اہم سڑکیں دیہاتوں کی جانب نکلتی ہیں۔ شکر گڑھ سے نیناں کوٹ، اخلاص پور، چھمال، درمان اور ظفروال!! سب کی سب تباہ حال۔ اس کے باوجود لوگ جیتے ہیں مگر یہ جینا بھی کیا جینا ہے۔ یہاں کے رکن قومی اسمبلی جناب دانیال عزیز ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار اور بزرگ سیاستدان کے بلند قامت صاحبزادے ہیں۔ ان کی کشیدہ قامتی قد ہی کے اعتبار سے نہیں، بلکہ وہ دیانت اور ذاتی کردار کے حوالے سے بھی سروقد ہیں۔ ان کے والد گرامی نے کئی بار رکن اسمبلی ہونے کے باوجود کرپشن کی نہ دانیال عزیز اس کے مرتکب ہوئے ہیں۔ باپ بیٹا، دونوں ہی مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں۔

دانیال صاحب اگر چاہیں تو شکر گڑھ کی سڑکوں کی حالتِ زار بھی بدل سکتے ہیں اور جس علاقے کے وہ منتخب نمایندہ ہیں، وہاں کی تعلیمی تقدیر کی بھی کا یا کلپ ہوسکتی ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے صاحبان، دونوں ہی مقتدر جماعت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ترقیاتی کاموں کے میدان میں کوئی کامیابی سامنے نہیں آسکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ غالباً یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز ہی نہیں دیے جارہے۔ پھر سڑکیں اور تعلیمی اداروں کی عمارات کہاں سے بنیں؟ لیکن اہلِ شکر گڑھ بجا طور پر سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر لاہور اور راولپنڈی میں اربوں روپے کے فنڈز سے میٹرو سڑکیں عرف جنگلہ بس بن سکتی ہیں تو ہم نے حکومت کا کیا بگاڑا ہے؟

سیکیورٹی کے اعتبار سے یقینا شکر گڑھ ’’لاوارث‘‘ ہے لیکن ایم این اے جناب دانیال عزیز کو اس بارے میں قومی اسمبلی میں اپنے ووٹروں کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ ان کا دامن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک اور صاف ہے۔ پھر انھیں آواز اٹھانے میں کیا شَے مانع ہے؟ نجی ٹی وی چینلوں پر بھی وہ خوب چہکتے ہیں۔ حکومت کی کمزوریوں کا بھی دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ این آر بی کے سابق چیئرمین رہے ہیں، اس لیے حکومت کاری کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔

جناب وزیراعظم کو آگے بڑھ کر اور فیاضی کا اظہار کرتے ہوئے دانیال عزیز ایسے کار آمد رکنِ اسمبلی سے کوئی اہم کام  لینا چاہیے۔ ایسا مگر ہو نہیں ہو رہا۔ رکاوٹ کہاں اور کیا ہے، چوہدری انور عزیز صاحب کے صاحبزادے کو اس بارے میں غور کرتے ہوئے گرہ کشائی کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے بات بن جائے۔ ان کی بات بنے گی تو ’’لاوارث‘‘ تحصیل کے مکینوں کی بھی کوئی بات بن ہی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔