پولیو کا خاتمہ، توانا قوم کی بنیاد (پہلا حصہ)

مجاہد حسین  منگل 11 نومبر 2014

پولیو ایک مہلک اور متعدی مرض ہے جو آج تک زیادہ ہلاکتوں کا باعث تو نہیں بنا البتہ اس نے دنیا بھر میں ہزاروں بچوں کو معذور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان دنوں پاکستان خصوصی طور پر پولیو کی روک تھام نہ کرنے کے باعث ہر طرح سے پابندیوں کا سامنا کررہا ہے، حالانکہ پولیو کا جنم پاکستان میں نہیں بلکہ اس کی جائے پیدائش یورپ اور امریکا ہے، لیکن ان ممالک نے اپنے شہریوں کی جان کو حقیقتاً قیمتی سمجھ کر اس مرض سے مکمل چھٹکارا حاصل کرلیا اور پوری دنیا نے پولیو کے مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے دنیا کا 80 فیصد سے زائد حصہ اس کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ ہوچکا ہے۔

یوں تو پولیو کا جنم قبل از تاریخ ہی ہوچکا تھا جب کہ 20 صدی عیسوی سے قبل دنیا اس سے مکمل آگاہ نہیں تھی۔ پولیو کا سب سے رجسٹرڈ کیس معروف ناول نگار اور شاعر سر والٹر اسکاٹ کا تھا، جو 1773 میں رونما ہوا جب ان کی دائیں ٹانگ مفلوج ہوئی۔ اس وقت انھیں کہا گیا ان کی ٹانگ شدید بخار کی وجہ سے مفلوج ہوئی حالانکہ یہ پولیو تھا۔ پولیو کے بارے میں پہلی رپورٹ 1843 میں شایع ہوئی جب کہ 1880 تک پولیو خاموشی کے ساتھ یورپ میں سرائیت کرتا رہا اور پھر اس نے جلد ہی امریکا کی سرزمین کو اپنا ہدف بنالیا۔

موسم گرما میں حملہ آور ہونے والی یہ وبا 1910 میں دنیا بھر کے تمام ترقی یافتہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ پولیو کیسز کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق 1893 میں پولیو کے 132 کیس سامنے آئے جن میں 18 افراد لقمہ اجل بنے۔ 1907 میں صرف نیویارک شہر میں 25 سو پولیو کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ 17 جون 1916 میں امریکا کے ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق امریکا بھر میں 27 ہزار پولیو کیس رجسٹرڈ ہوئے جن میں 6 ہزار موت کے منہ میں چلے گئے۔

1947 میں امریکا میں 2720 افراد اس وبائی مرض کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔ 1940 اور 1950 کی دہائی میں جب پولیو اپنے عروج پر تھا اس وقت دنیا بھر میں سالانہ پانچ لاکھ سے زائد افراد اس کی وجہ سے ہلاک ہوئے یا کم از کم فالج کا شکار ہوئے۔ بعد ازاں پولیو کا وائرس یورپ اور امریکا سے ہوتا ہوا دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلنے لگا جس نے ہر طرف تشویش پیدا کر ڈالی، لیکن حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا اور 1950 کے اوائل میں بوسٹن چلڈرن اسپتال کے ماہرین کی ایک ٹیم نے انسانی ریشوں سے پولیو وائرس کشید کیا اور یہی کامیابی پولیو ویکسین بنانے کا باعث بنی۔ 1954 میں اس کامیابی پر مذکورہ ٹیم کے سربراہ جان اینڈرز اور ان کی ٹیم کو نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔

12 اپریل 1955 میں جونس سالک نے باقاعدہ طور پر پولیو ویکسین بنانے کا اعلان کیا اور 1957 میں ویکسین کی تیاری کے بعد امریکا میں پہلی بار انسداد پولیو مہم چلائی گئی جس کے نتیجے میں پولیو کیسز کی تعداد 58 ہزار سے کم ہوکر 56 سو پر آگئی اور بالآخر 20 اگست 1994 میں امریکا کو پولیو فری ہونے کا اعزاز مل گیا۔ 1988 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا بھر سے پولیو کے خاتمے کا بیڑا اٹھایا اور آج سوائے چند ممالک کے دنیا میں پولیو وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیو کس طرح پھیلتا ہے؟ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایسا مرض ہے جو چھونے یا ہوا کے ذریعے سے نہیں بلکہ متاثرہ شخص کے فضلے سے پھیلتا ہے۔ یہ فضلہ گٹر کے پائپوں میں جانے کے بعد پانی میں مکس ہوکر دوسروں کو متاثر کرتا ہے پھر ایسا گندا پانی یا خوراک جس میں وائرس موجود ہو وہ بھی اس کے پھیلاؤ اور منتقلی کا سبب بنتا ہے۔ بچوں کا اعصابی نظام چونکہ بہت حساس ہوتا ہے لہٰذا پولیو کا وائرس باآسانی ان پر حملہ آور ہوجاتا ہے، البتہ قوت مدافعت کی کمی کے باعث یہ بڑوں کو بھی اپنا شکار بنالیتا ہے اور سو افراد میں پولیو وائرس کی موجودگی صرف ایک یا دو لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے یا پھر ہلاکت کی وجہ بنتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے 11 ممالک کو پولیو فری قرار دے دیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ان ممالک کو پولیو فری قرار دینے کے بعد دنیا کی 80 فیصد آبادی اس وائرس سے محفوظ ہوگئی ہے۔یوں ڈبلیو ایچ او سرٹیفکیشن میں شامل خطوں کی تعداد 4 ہوگئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کو پولیو فری قرار دینے کا مقصد یا خطے میں تین سال سے پولیو کا کوئی کیس رونما نہ ہوا ہو، علاوہ ازیں پولیو وائرس کی لیبارٹری کی بنیاد پر بہترین نگرانی ہو، وائرس کی نشاندہی کی عملی صلاحیت ہو، رپورٹ اور باہر سے آنے والے پولیو کیسز سے نمٹنے کی صلاحیت ہو اور اپنی لیبارٹریز میں پولیو کے وائرس کو حفاظت سے رکھے۔

ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پولیو فری ممالک کو خوشی منانے کے ساتھ ساتھ ان عوامل کی کڑی نگرانی کرنی ہوگی تاکہ ان کے یہاں یہ وائرس کہیں سے رپورٹ نہ ہوجائے۔ جب تک دنیا بھر سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک دنیا کے تمام ممالک پولیو کے خطرے سے دوچار رہیں گے۔ انھوں نے ایمونائزیشن کی بہترین شرح کو باہر سے آنے والے اس وائرس کو بیماری پھیلانے سے روکنے کا علاج قرار دیا ہے۔ دنیا بھر میں انسداد پولیو مہمات کے باوجود پاکستان میں تاحال پولیو کیسز پر قابو نہیں پایا جاسکا، جس کی وجہ سے اس پر عالمی ادارہ صحت نے وائرس کی روک تھام کی ناکامی اور اس کے دیگر ممالک میں منتقل ہونے کے خدشے کے باعث سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ملک میں اس وائرس کے خاتمے کے لیے 1988 میں انسدادی مہم کا آغاز ہوا، لیکن مسلسل مہمات کے باوجود اب تک اس کی روک تھام کا خواب ادھورا ہی ہے۔ 17 سال سے جاری اس مہم کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جن کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہو پارہی اور وقفہ وقفہ سے پولیو کیسز کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

وطن عزیز میں پولیو ویکسین کے خلاف ایک جھوٹا پروپیگنڈا یہ کیا جارہا ہے کہ یہ غیر مسلموں کی جانب سے تحفہ کے لبادے میں لپٹی ہوئی سازش ہے، یعنی اس سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پولیو ویکسین کیا ہے؟ ویکسین دراصل پولیو وائرس ہی ہوتا ہے، لیکن یہ انتہائی کمزور اور نیم مردہ شکل میں ہوتا ہے۔ یہ وائرس جب انسان کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے تو یہ توانا اور مضبوط پولیو وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔ قوت مدافعت دو طرح کی ہوتی ہے، کچھ وائرس کے خلاف قوت مدافعت چند ماہ کے لیے ہوتی ہے لیکن پولیو وائرس کے خلاف پیدا ہونے والی قوت ساری زندگی رہتی ہے۔

پولیو ویکسین پر جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے یا افواہیں پھیلائی جارہی ہیں وہ سب جھوٹ پر مبنی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھارت اور اسرائیل کی سازش ہے تاکہ پاکستان پولیو سے نجات حاصل ہی نہ کرسکے اور خود کو دنیا سے الگ کردے۔ 60 سال یہ ویکسین دنیا کے کروڑوں افراد کو پلائی جاچکی ہے لیکن انھیں توکوئی نقصان نہیں ہوا، آپ کیوں خود کو معذور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پولیو کے حوالے سے حالیہ پابندیاں حکومتی ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔