(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - کاش تم پیدا ہی نہ ہوتی

عروہ نور  منگل 11 نومبر 2014
سب کے سامنے میری آیا کو ایک درخت سے باندھ کر اس پر کتے چھوڑ دئیے گئے تھے تاکہ آئندہ کسی سے ایسی کوتاہی نہ ہو۔ فوٹو فائل

سب کے سامنے میری آیا کو ایک درخت سے باندھ کر اس پر کتے چھوڑ دئیے گئے تھے تاکہ آئندہ کسی سے ایسی کوتاہی نہ ہو۔ فوٹو فائل

میں نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ گھر کم اور محل زیادہ تھا ،مرکزی دروازے سے رہائشی حصے تک آتے آتے کار میں بھی دس منٹس لگ جاتے تھے،بلندو بالا چار دیواری کے اندر محل نما بہت سے گھر تھے۔ کچھ تو ایسے تھے جہاں ہمارا جانا بھی سختی سے منع تھا ۔جبکہ ان میں سے ایک گھر ایسا تھا جہاں میری پھوپھیاں رہتی تھیں وہاں کسی مرد نوکر کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی بہت ساری نوکرانیاں ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ پانچ چھ برس کا بچہ بھی اسی زمرے میں آتا تھا۔

مجھے یاد ہے ایک بار میں کھیلتے کھیلتے اس طرف نکل گئی تھی، میری ایک پھوپھی نے جب مجھے دیکھا توزور سے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا تھا اور رونے لگیں، پھر انہوں نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کاش تم پیدا ہی نہ ہوتی‘‘۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ پوچھتی میری آیا بھاگتی ہوئی آئی اور مجھے وہاں سے اٹھا کر لے گئی۔ جب میں نے امی سے اس واقعے کا ذکر کیا تو وہ بہت خفا ہوئیں اور سختی سے منع کیا کہ اس بات کا ذکر میں بابا سائیں سے نہ کروں مگر میں نے ایک دن معصومیت میں آکر سب انہیں بتا دیا۔ اس دن میں نے بابا سائیں کو پہلی بار اس قدر غصے میں دیکھا تھا انہوں نے مجھے کمرے میں جانے کا کہااوراس کے بعد مجھے وہ ملا زمہ دوبارہ دکھائی نہیں دی۔اس کے ساتھ کیا ہوا، مجھے بہت عرصے بعد پتہ چلا جس کا ذکر میں آگے چل کر کروں گی۔

ہماری جاگیر میں اسکول و کالج شجر ممنوعہ تصور کئے جاتے تھے ،مگر ہمارا سارا خاندان برطانیہ اور امریکہ کی اعلی یونیورسٹیز سے پڑھا تھا،میری ابتدائی تعلیم کا آغاز مجھے لاہور کے ایک اعلی سکول میں بھیج کر کیا گیا۔ملک کے ہر بڑے شہر میں کئی کنالوں پر مشتمل ہمارے محل نما بنگلے ہیں جمہوریت ہو یا آمریت ہمارے خاندان کا شمار ایوانوں کے مضبوط ستونوں میں ہوتا ہے ۔ ہمارا کار پورچ ایک شو روم کی طرح تھا جس میں مہنگی سے مہنگی جدید ماڈل کی کاریں اور لینڈکروزر موجود ہوتی تھیں ۔زمین پر جنت اگر اپنا وجود رکھتی ہوتی تو وہ ہم جیسوں کے گھروں کے کسی ایک حصے ہی میں ہوتی۔

بابا سائیں نے تین شادیاں کی تھیں، ان کی پہلی شادی اپنے ہی خاندان میں ہوئی تھی جبکہ دوسری شادی میں سے میں اور میرا ایک بھائی تھا۔ ہم اپنی سگی والدہ کو چھوٹی امی اور سوتیلی والدہ کو بڑی امی کہتے تھے۔بابا سائیں نے تیسری شادی ایک معروف ماڈل سے کی تھی جن سے ان کی ملاقات خواتین کے حقوق پر سمینار میں ہوئی اور وہ بابا سائیں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی کہ یہ شخص تو پاکستان میں خواتین کو سارے حقوق دلوا کر ہی رہے گا۔ بابا سائیں کی زندگی بہت مصروف تھی ہماری ان سے ملاقات بہت کم ہوتی تھی مگر ٹی وی کے اکثر چینلز پر وہ تواتر کے ساتھ دکھائی دیتے تھے اور ہمیں ان کی خیریت کا پتہ چلتا رہتا تھا۔

اب ہم اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے مگر بابا سائیں پھر بھی ہم سے دور ہی تھے۔ ایک دن گاؤں سے ہماری پھوپی کی وفات کی خبر آئی، ہم چارٹر جہاز میں وہاں پہنچے ،انہیں دیکھا بھی تو اس وقت جب زندگی ان سے دور جا چکی تھی مگر ان کے چہرے پر ایک سکون تھا۔کچھ دن ہم وہاں رکے واپسی پر بڑی امی بھی ہمارے ساتھ چل پڑیں، لیکن ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی، مختلف بیماریوں نے انہیں دیمک کی طرح اندر سے کھا لیا ہے۔میں آخری وقت تک ان کے پاس رہی اور تب مجھے پتا چلا کہ ہماری پھوپھیوں کی شادیاں ہونے ہی نہیں دی گئی تاکہ ہماری جاگیرنہ تقسیم ہو، انہیں الگ حویلی دے دی گئی تھی، بچپن میں جب میں وہاں چلی گئی تھی تواس کا خمیازہ میری آیا کو اس صورت میں بھگتنا پڑا تھا کہ سب کے سامنے اسے ایک درخت سے باندھ کر اس پر کتے چھوڑ دئیے گئے تھے تاکہ آئندہ کسی سے ایسی کوتاہی نہ ہو۔

میں نے ایک دن ہمت کر کے بابا سائیں سے اس بارے میں پوچھ ہی لیا ، جس پرانہوں نے جواب دیا ’’ہاں تمہارے دادا پرانے خیالات کے انسان تھے انہوں نے غلط کیا مگر تم تو میری ذہین بیٹی ہو اور میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں۔ میں نے بات کی ہے تمہیں جلد ہی کسی یورپین ملک میں سفیر بنا کر بھیج دیا جائے گا ،تم تو جانتی ہو ہمارا خاندان ملک و قوم کی خدمت کے لئے بنا ہے‘‘۔

میں اپنا مقدر جان چکی تھی پر پھر بھی خوش تھی کہ میں اپنی جاگیر کے کسی سونے کے پنجرے میں گھٹ گھٹ کر قیدی کی موت نہیں مروں گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔