کیا ہر امریکی جاسوس ہے؟

نصرت جاوید  منگل 11 نومبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اپنی صحافتی زندگی کے کئی برس میں نے خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے گزارے ہیں۔ کلنٹن جب 1990ء کی دہائی میں امریکی صدر منتخب ہوئے تو رابن رافیل کو جنوبی ایشیاء کے امور کا نگران مقرر کر دیا۔ اپنی اس حیثیت میں رابن رافیل نے کشمیر کے بارے میں چند بیانات دیے جنہوں نے بھارتی سیاستدانوں اور سفارت کاروں کو حیران و پریشان کر دیا۔

ان کے اس رویے نے مجھے رابن رافیل کو مزید جاننے پر مجبور کر دیا۔ اوباما نے رچرڈ ہالبروک جیسے دھانسو سفارت کار کو افغان پاکستان امور کا انچارج بنایا تو انھوں نے رابن رافیل کو بڑی کاوشوں سے پاکستان کے لیے اقتصادی امداد پر نگاہ رکھنے پر قائل کیا۔ یو ایس ایڈ سے متعلق کئی امریکی حکام اس تقرری سے خوش نہ تھے۔ نجی محفلوں میں میرے جیسے رپورٹروں کے سامنے بھی رابن رافیل کی غیبت کرنے سے نہ ہچکچاتے اور اب خبر یہ آئی ہے کہ اتنی تجربہ کار اور تگڑی سفارت کار کو امریکا کے جاسوسی اداروں نے سیکیورٹی کلیئرنس دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسلام آباد کے باخبر تبصرہ نگاروں کی اکثریت کو یقین کی حد تک گمان ہے کہ واشنگٹن میں بہت مضبوط ہوئی بھارتی لابی نے رابن کے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ پورا سچ اگرچہ ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آیا ہے۔

رابن رافیل کی ذات سے قطع نظر میں نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکی صحافیوں اور محققین کی لکھی تین کتابیں بہت غور سے پڑھیں۔ ان کتابوں کے مطالعے سے دریافت یہ ہوا کہ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ وائٹ ہاؤس پہنچنے والا صدر اوباما افغانستان اور پاکستان کے معاملات پر فیصلہ سازی کے لیے صرف اور صرف اپنے جاسوسی اداروں کی سوچ کو سنجیدگی سے لیتا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے سینئر ترین لوگوں کی سوچ کو بھی اس حوالے سے ویٹو کر دیا جاتا ہے۔ مختلف تھنک ٹینکس کے لیے برسہا برس سے پاکستان پر لکھنے والے لوگوں کے رائے کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔

امریکا کے جاسوسی اداروں کو نائن الیون کے بعد ملنے والی اہمیت اوباما کے دور میں اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ اس اہمیت کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ کئی امریکی اپنے تئیں حب الوطنی کے جذبوں سے سرشار ہو کر جاسوسی اداروں کے نظم اور نظام سے بالا بالا کچھ ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں جو طویل المدتی تناظر میں واشنگٹن کے لیے کافی ندامتوں کا باعث ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس والا قصہ ایسا ہی ایک واقع تھا۔ اوباما نے مگر انتہائی سفاکی اور ڈھٹائی سے اسے اپنا ’’باقاعدہ سفارت کار‘‘ قرار دے ڈالا اور جان کیری کی معاونت سے دیت کے اسلامی قانون کی روشنی میں اس کی جان بخشی کروا ڈالی۔

اب نیویارک ٹائمز کے دو رپورٹروں نے باہم مل کر Thomas McHaleنام کا ایک آدمی دریافت کیا ہے۔ ایک زمانے میں وہ FBI کا باقاعدہ ملازم تھا اور اپنی اس حیثیت میں پاکستان اور افغانستان کے بارہا دورے کرتا رہا۔ ان دوروں میں سب سے زیادہ توجہ اس نے ہمارے بلوچستان میں اپنے مخبر تلاش کرنے پر مرکوز رکھی۔ ایران میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں ملوث جنداللہ اگرچہ اس کا اصل ٹارگٹ رہی۔ کئی برسوں سے اب وہ FBI کا باقاعدہ ملازم نہیں رہا۔ اس کے باوجود وہ جنداللہ کی جانب سے ایران میں ہونے والی کئی وارداتوں کے بارے میں اپنی حکومت کو وقت سے پہلے مطلع کر دیتا ہے۔

سی آئی اے کے وکلاء کو پریشانی اب یہ لاحق ہے کہ اگر McHale نے جنداللہ میں موجود اپنے مخبروں سے روابط برقرار رکھے تو ان کے ادارے پر ایک ایسی تنظیم سے روابط رکھنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے جسے امریکی حکومت بھی نومبر 2010ء میں سرکاری طورپر ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے چکی ہے۔ یہ بات تو عیاں ہو گئی کہ جنداللہ کے بارے میں ٹھوس اطلاعات فراہم کرنے والے مخبر اس تنظیم کی فیصلہ ساز اداروں میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے چند ایک کو FBI ان دنوں بھی باقاعدہ معاوضہ دے رہی ہے۔ معاوضے کی یہ ادائیگی وسیع تر قانونی حوالوں سے امریکی حکومت کو ’’جنداللہ‘‘ کے سرمایہ کاروں میں شامل کر سکتی ہے۔

سی آئی اے کے وکلاء کے تمام ترخدشات مگر McHaleکی راہ میں اب بھی رکاوٹ نہیں بن رہے۔ 2013ء کے اواخر میں اس نے FBI سے افغانستان کا ایک دورہ کرنے کی اجازت مانگی تا کہ وہ بلوچستان میں موجود اپنے مخبروں سے روابط کو مزید گہرا کر سکے۔

ایف بی آئی نے اسے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا مگر McHale نے امریکی وزارتِ دفاع کے چند سرکردہ افراد کو اس دورے کی اجازت اور اس کے لیے سرمایہ فراہم کرنے پر قائل کر لیا۔ میک ہیل کو اپنی تمام تر حرکتوں کے باوجود کسی جاسوسی ادارے کا “Rogue Operator” قرار نہیں دیا امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی جو جاسوسی اداروں پر نگاہ رکھتی ہے اس کے اراکین نے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے رپورٹروں کو اس معاملے پر کوئی رائے دینے سے انکار کر دیا۔

اس کے ایک رکن نے کہا بھی تو اتنا کہ ’’جاسوسی کی دنیا میں سب چلتا ہے‘‘۔ اس کا یہ تبصرہ پڑھنے کے بعد میں سنجیدگی سے اس امر پر غور کرنا شروع ہو گیا ہوں کہ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت اپنے سے ملنے والے ہر امریکی کو ’’جاسوس‘‘ کیوں سمجھتی ہے اور میرے جیسے لوگ ان کی ’’سادہ لوحی‘‘ پر کیوں ناراض ہو جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔