(پاکستان ایک نظر میں) - افسوس کہ ایک اور واقعہ رونما ہوگیا!

شبیر رخشانی  بدھ 12 نومبر 2014
بدقسمتی سے پاکستان میں اِس طرح کے حادثات معمول بن چکے ہیں بس ہر حادثے میں فرق صرف مرنے والوں کی تعداد کا ہی ہوتا وگرنہ سب کچھ ویسا ہی ہوتا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس کو یہ حادثات روکنے ہیں وہ تو سب اچھا ہے اچھا ہے کے راگ الاپ رہے ہیں۔ فوٹو فائل

بدقسمتی سے پاکستان میں اِس طرح کے حادثات معمول بن چکے ہیں بس ہر حادثے میں فرق صرف مرنے والوں کی تعداد کا ہی ہوتا وگرنہ سب کچھ ویسا ہی ہوتا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس کو یہ حادثات روکنے ہیں وہ تو سب اچھا ہے اچھا ہے کے راگ الاپ رہے ہیں۔ فوٹو فائل

یہ شاید ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم اکثر واقعہ ہونے کے بعد سوچتے ہیں اور حرکت میں آتے ہیں اور پھر اُس واقعے میں ملوث افراد کو سزا دینے کا اعلان و وعدہ کرتے ہیں مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے ۔ وقت گزرتا ہے اور معاملہ اُس وقت تک کسی برف خانے کی زینت بن جاتا ہے جب تک کوئی نیا واقعہ رونما نہ ہوجائے۔

ایسا ہی واقعہ گزشتہ روز سکھر کے قریب ٹرک اوربس کے درمیان تصادم کے باعث پیش آیاجس میں  60 کے قریب افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں بس کا ڈرائیور بھی شامل تھا اور کئی زخمی ہوگئے۔  اس واقعے کے بعد بھی وہی سب کچھ ہوا جو ہر واقع کے بعد ہوتا ہے۔ ہمارے میڈیا کو ایک بریکنگ نیوز مل گئی اور جب اسی بریکینگ نیوز کے درمیاں ہم پر مسلط حکمرانوں کی نیند میں کچھ خلل پیدا ہوا اور مجبوراً  اُن کو کیمرے کے سامنے آنے کے لیے بیدار ہونا پڑا تو  پھرپوری انتظامیہ اور متعلقہ ادارے حرکت میں آگئے۔ اس واقعے کو ماضی کے تمام واقعات کی طرح مختلف انداز اور زاویے سے دیکھا جانے لگا۔ کہیں پر یہ خبریں آرہی تھیں کہ قصور ڈرائیور کا تھا کہ جس نے اوورٹیکنگ کے سہارے اتنے بڑا سانحہ کوجنم دیا تو کوئی  اسے اسے سڑک کا قصور بتارہا تھا جہاں اس میں گڑھا پڑ جانے کے سبب بس کو یہ حادثہ پیش آیا اور اِص کی بنیادی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اٹھارتی کی بتائی جارہی ہے۔

اسی طرح کا واقعہ کچھ عرصہ قبل گڈانی کے مقام پر دو بسوں کے درمیان ٹکرا جانے کے سبب بھی پیش آیا تھاجس کے باعث 40 کے قریب مسافر جل گئے تھے۔واقعہ کے بعد مختلف ادارے حرکت میں آگئے تھے اور اس کے لئے ایک تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی تھی کہ وہ رپورٹ پیش کرے اور ذمہ داران کا تعین کرے ۔ کیونکہ کوئی  اُس حادثے کا  ذمہ دار نیشنل ہائی اٹھارتی کو قرار دے رہے تھے کہ انکی غفلت کے سبب سڑک میں گڑھا پڑ جانے کے سبب واقعہ پیش آیا ہے تو کسی نے اسے کوسٹ گارڈ کی لاپروائی قرار دیا کہ ایرانی ڈیزل اسمگلنگ ہونے اور ٹرک پر لاد کر مارکیٹ پہنچاتے ہوئے انہی ٹرک سے آگ بھڑک اٹھی ہے اور ایک بڑا سانحہ پیش آگیا۔اُس واقعہ کےبعد  کمیشن بھی بنا، نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو وقتی طور پر پابند بھی کر دیا گیا کہ وہ سڑکوں کی حالت زار کو بہتر بنائے  اور کوسٹ گارڈ کے ذریعے ایرانی سمگلنگ شدہ تیل لانے پر پابندی عائد کی گئی ۔

مگر ہوا کیا؟ کئی ماہ گزر گئے تاحال نہ کو ئی رپورٹ سامنے آئی، نہ اسمگلنگ شدہ تیل کی سپلائی رک گئی اور نہ ہی این ایچ اے نے اپنا رویہ بدلا بس ہر چیز اپنے پرانے حساب سے چل رہا ہے  فرق آیا تو یہ کہ گڈانی واقعے میں 40 افراد جاں بحق ہوئے تھے تو اب 60 کے قریب۔

جب بھی کسی سے اس معاملے پر بات کیا جائے تو یہی جواب ملے گا کہ پاکستان ہے یہاں پیسے کے بل بوتے پر آپ کسی کی ایمان بھی خرید سکتے ہیں اور جن کی جان چلی گئی انکا تو بدلہ اللہ ہی دے دے۔ سکھر کا واقعہ بھی بڑا دلخراش تھا جس نے ایک مرتبہ پھر اہل پاکستان کو جھنجوڑا اور  ایک مرتبہ پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ کمیشن بن چکا ہے، حادثے کے خلاف نیشنل ہائی اتھارٹی پر مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم ہوگیا ہے مگر میری ذاتی رائے میں یہ وقتی کارروائی ہوگی اورکچھ ہی عرصہ  گزر جانے کے بعد جب حادثے کے شکار افراد کے اہل خانہ کا غم و غصہ کچھ کم ہو جائے گا  تو نئے واقعے کے رونما ہونے تک یہ باب بھی پرانے واقعات کی طرح زمین میں دفن کر دیا جائے گااور پھر ہر کوئی بھول جائے گا کہ ایسا واقعہ ہمارے ساتھ کب ہوا تھا۔
ہمارے اردگرد ایسے واقعات کی بھرمار ہوتی رہتی ہے جنہیں ہم میڈیا کے ذریعے روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا دن ہوگا جب ہم اِس قسم کے واقعات کے حوالے سے کوئی خبر نہ دیکھیں۔ درحقیقت ہم اِس قسم کے  واقعات اور حادثات کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ یہ ہماری زندگی کے حصہ بن گئے ہیں۔

آخر ہم بحیثیت قوم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم اکثر واقعہ ہونے کے بعد ہی کیوں ان واقعات کے محرکات کو دیکھتے ہیں جبکہ انہی واقعات کے زمہ دار ہی ہماری سوسائٹی سے جڑا انسان ہے۔مملکت خداداد میںشاید ہی کوئی ادارہ اپنا کام صحیح طرح کررہا ہو وگرنہ سب پر ہی کرپشن اور نااہلی کے الزامات عائد ہوتے ہیں۔  یہاں کس کس ادارے کا نام لیں جہاں اس معاشرے کو سنوارنے کے بجائے بگاڑ کا کام لیا جا رہا ہے۔ ادارے پامال ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی جان اور مال سے کھیلا جا رہا ہے لیکن ان کی روک تھام کے لئے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی اور لائی بھی کیوں جائے کہ جن کو یہ کام کرنا ہے وہ تو سب اچھا ہے کا راغ الاپ رہے ہیں ۔ اب جب معاملات کو ٹھیک کرنے والے کو معاملات خراب ہی نہ لگے تو وہ بھلا ٹھیک کیا کرے گا؟ اگر حالات یہی رہے تو خدشہ ہے کہ سکھر واقعہ آخری نہیں ہوگا کہ جس وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا ہے اُس کو ٹھیک کرنے کے لیے سنجیدگی درکار ہے، اوربھلا وہ سنجیدگی اب کہاں سے لائی جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔