ذرا سوچئے کہ آپکی کسی ایسے شخص سے لڑائی ہوجائے جس سے، میرے بقول ، میرا دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں، یہ جانتے ہوئے بھی آپ اگر اصرار کریں کہ میں آپکی اس سے جان چھڑانے میں مدد کروں اور سونے پر سہاگہ یہ ہو کہ میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہامی بھی بھر لوں تو کیسا رہے گا؟ لوگ یقینا آپکو احمق اور مجھے انتہائی چالباز سمجھیں گے کہ میں آپکو وقتی دلاسہ دے رہا ہوں۔
اگر تو میرا جینا مرنا آپکے دم سے ہواور آپ میرے اگلے پانچ سال کا نان نفقہ برداشت کرنے کا اعلان کرچکے ہوں تو یہ معاملہ یکسر الٹ ہوجائے گا اورمیری آپ سے یہ دروغ گوئی میرا پاوں اور میری ہی کلہاڑی کے مصداق ہوگی۔
آئیے اب اس کہانی کو آسان کرتے ہیں، چینی قیادت کا یہ مطالبہ کہ پاکستان چینی صوبے سنکیانگ میں جاری انتہاپسندی ختم کرنے میں انکی مدد کرے اور جوابا ً میاں صاحب کاانتخاب میں عوام سے کیے گئے وعدوں کے اندازمیں ایسا کرنے کا وعدہ تحت اللفظ بہت کچھ کہ رہا ہے۔
ہماری دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے کرتا دھرتا نہ تو اس قدر بے وقوف ہیں کہ یہ تک نہ جانتے ہوں کہ کس سے کیا ، کب اور کیسے بات کرنی ہے۔ ہم جتنا مرضی شور مچا لیں کہ ہم پاکدامن اور اللہ میاں کی گائے ہیں اور سبھی ہم پر خودساختہ جہادیوں اور شدت پسندوں کی جنت ہونے کا محض الزام لگاتے ہیں۔ لیکن جناب حقیقت یہی ہے کہ اسامہ ہمارے گھر سے ہی برآمد ہوا اورابوبکر بغدادی اتنے مقبول شاید دولت اسلامیہ میں نہ ہو ں جتنی پذیرائی اور کمک انکو ہمارے یہاں دستیاب ہوری ہے ۔ اب میں نہیں جانتا کہ یہ سب لوگ مزاح کے طور پر کررہے ہیں یا پھر واقعہ دیواروں پر چاکنگ داعش کے کارندے ہی کررہے ہیں مگر جو دکھ رہا ہے اُس سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ جنگجو تنظٰم یہاں آچکی ہے۔ مرحبا یا داعش کہنے والے ہماری ہی دھرتی کے سپوت ہیں جو آئے دن اپنی وافتگی کا اظہاروطن عزیز کی دیواریں کالی کر کے کرتے رہتے ہیں۔
ایک کہاوت ہے کہ ایک لڑکی سسرال سے لڑ کر اپنے میکے آئی تو اس نے اپنی ماں سے مظلومیت کا رونا روتے ہوئے کہا کہ' والدہ مجھ سے تو گلیوں کے تنکے بھی الجھتے ہیں' ماں جو ایک جہاندیدہ عورت تھی، سمجھ گئی کہ قصور اسکی اپنی ہی بیٹی کا ہے۔
چینی بھی اسی بزرگ عورت کی طرح ہماری 'کرنیوں' سے اچھی طرح آگاہ ہیں، اس لئے یہ معاہدے اور اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ بھی کوئی'فری لنچ' نہیں ہوگا اور انکی یہ فرمائش بر محل ہے کیونکہ امریکی امدادوں کی چکر میں ہمارا مزاج ''مینوں نوٹ رکھا میرا موڈ بنے'' والا ہو گیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلےہمارے مسلم برادر ملک کی خفیہ ایجنسی کے چیف شہزادہ بن سلطان روس کے دورے پر تشریف لے گئے اور پیوٹن سے کہا کہ اگر انکا ملک شامی حکومت کو سپورٹ کرنا بند کرے تو سعودی مملکت چیچن جانبازوں کو سوچی اولمپکس میں خودکش حملوں سے باز رہنے کیلئے اپنا 'کردار' ادا کر سکتی ہے۔
چینیوں کے اس حسن ظن پر کہ ہم بھی یہ کردار سنکیانگ میں ادا کر سکتے ہیں ، ہمارے بھولے بادشاہ نے لہر میں آکر 'شہنشاہی' وعدہ تو کر دیا ہے اور وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہونگے مگر دراصل یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہم تقریباً اپنے سبھی پڑوسیوں کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ اِس بات کا ادراک میاں صاحب کو کرنا ہوگا کہ چینی وہ بھولے بھالے جیالے اور متوالے نہیں جنہیں وہ3 مہینے میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور ایسے سینکڑوں وعدوں کے جواب میں اپنا دامن جھاڑ کر دکھا دیں گے اور 1999 کے وقت خوابوں ہی خوابوں میں کروائی گئی ترقی کی دہائیاں اور مشرف کے مظالم کا واسطہ دے کر کام چلا لیں گے۔
ظل سبحانی کو واقعی جان مارنی پڑے گی اور اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنی ہوگی، صفایا کرنا ہوگا ایسے تمام شدت پسند عنا صر کا جن کو انکی پارٹی پالیسی کے طور پر اپنے پروں میں چھپا کے رکھتی آئی ہے اور فنڈنگ جو پاکستان میں شدت پسندوں کی شہ رگ ہے، اسکو کاٹنا ہوگا۔ ایسے میں انکا فیملی بزنس بھی مشکل میں پڑ سکتا ہے اور مستقبل میں جدہ شریف کی قیام گاہ اور رمضان کے وی آئی پی پروٹوکول سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
اب دیکھئے ناں جن کے بارے میں لوگ کہتے ہوں کہ انھوں نے کبھی'بلی کا بچہ' بھی قربان نہ کیا، ان سے ایسی توقع رکھنے والے چینی بھائیوں کو کیا کہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔