وحشتوں کی نئی فصل

مقتدا منصور  جمعرات 13 نومبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

غالب نے کہا تھا کہ ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے ۔ مگر میرا المیہ یہ ہے کہ میرے آگے تماشے نہیں بلکہ سفاکیوں، درندگیوں اور انسانیت سوزیوں کی داستانیں رقم ہوتی ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وطن عزیز میں جو کچھ ہورہا ہے ، اسے کیا نام دوں ۔ کیونکہ میں الفاظ کی قلت و قحط کا اس حد تک شکار ہوچکا ہوں کہ اپنے جذبات و احساسات کی صحیح طور پر ترجمانی بھی نہیں کرپا رہا ۔

کوٹ رادھاکشن میں مسیحی جوڑے کے ساتھ جو کچھ ہوا ، یا گجرات میں Blasphamy کے الزام میں زیر حراست ملزم کا ایک ASI کے ہاتھوں قتل کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس لیے کہ غیر مسلموں کی بستیوں کی بستیاں جلاکر خاکستر کرنا ، ان کی لڑکیوں کو اغوا کرکے مسلمان لڑکوں سے جبری نکاح بھی کوئی نہیں بات نہیں ہے ۔ پھر خود مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور فقہوں کی ایک دوسرے پر تکفیر اور تحقیر کے ساتھ قتل کے مظہر میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوا ہے ۔ یہ جنون کہاں تک جائے گا؟ کیا گل کھلائے گا اور اس انجام کار کیا ہوگا؟ کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔

عقیدے و نظریے اور نسلی و لسانی تفاخر کی بنیاد پر دیگر انسانوں کی تحقیر و تذلیل کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ اسی طرح مذہبی اور قومیتی معاملات میں ہر فرد کے ازخود منصف و قاضی بن کر فیصلے صادر کرنے کی روایت بھی خاصی پرانی ہے ۔ لیکن جب وکلا نے مذہبی اور قومیتی جذبات سے مغلوب ہو کر مخالفین پر حملہ آور ہوکر انھیں قتل یا جانی و مالی نقصان پہنچانے والوں کے گلے میں ہار ڈالے، تو عوام الناس بالخصوص ناخواندہ اور نیم خواندہ افراد میں قانون شکنی کے رجحان کو تقویت حاصل ہوئی ۔

کیونکہ یہ سمجھ لیا گیا کہ وکلا جو قانون کی نزاکتوں اور باریکیوں سے واقف ہوتے ہیں ، جب وہ کسی قتل یا اقدام قتل کو سراہ رہے ہوں ، تو یہ لازماً کوئی اچھا اور قابل ستائش فعل ہے ۔ دوسری طرف مذہبی علما نے عقیدے کے نام پر قتل کو جنت کی کنجی قرار دے کر اس مجرمانہ اقدام کی مزید حوصلہ افزائی کی ۔ جب کہ معاشرے کے معتبر طبقات نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ فرد واحد کے اس طرح قانون ہاتھ میں لینے سے معاشرے پر کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ انھوں نے اس حقیقت کو بھی فراموش کردیا کہ مذہب کے نام پرجنم لینے والی منافرت مسلسل نیچے کی طرف بڑھتی ہے ۔

یہ عقیدے سے فقہہ، فقہہ سے فرقہ اور فرقہ سے مسلک تک جا پہنچتی ہے۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ متشدد ہوتی چلی جاتی ہے۔ نتیجتاً کوٹ رادھاکش جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں یا پھر ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ پیش آنے والے سانحے جنم لیتے ہیں ۔

اب انھی معاملات و مسائل سے جڑے دوسرے پہلو کی طرف آئیے ۔ دنیا کی ماضی بعید اور ماضی قریب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسانوں نے اپنے قومی تشخص کی بحالی اور جغرافیائی آزادی کے لیے انتہائی خوشنما اور جذباتی نعرے تخلیق کیے ، یعنی کہیں عقیدے کو بنیاد بنایا گیا ، کہیں نسلی و لسانی تشخص کو ، کہیں رنگ و نسل کا سہارا لیا گیا تو کہیں ثقافتی تفاخر کو ذریعہ بنایا ۔ مگر آزادی کے بعد ان کی قیادتوں نے ان نعروں سے جان چھڑا کر قومی ترقی کے حصول کے اہداف کو اپنی ترجیح بنایا۔ مگر پاکستان کی سیاسی و انتظامی قیادتیں ابتدا ہی سے ایسا کرنے میں ناکام رہیں ۔

گو بابائے قوم نے 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں دستور سازی کے بارے میں واضح رہنمائی فراہم کردی تھی، مگر تہذیبی نرگسیت میں مبتلا سیاسی قیادت اور بیوروکریسی ان کے خیالات سے استفادہ کرنے کے بجائے نئے ملک میں مذہب کے نام پر نئے تجربات کرنے پر کمربستہ تھی۔ غرور و نخوت اور فکری رومانیت کی ماری اشرافیہ نے نہ صرف 1940 کی قرارداد کو پس پشت ڈالا، بلکہ پہلے قرارداد مقاصد کے ذریعے اور پھر ون یونٹ بناکر ایک نئے نوآبادیاتی نظام (Neo-Colonialism) کی بنیاد پاکستان میں ناکامیوں سے نہ سیکھنے اور اپنے غلط اقدامات پر اصرار کرنے کی روایت نے ملک کے عالمی تشخص اور اندرون ملک امن وامان کی صورتحال کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔

سقوط ڈھاکا کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ ملک کے مذہبی تشخص پر اصرار کے بجائے وفاقیت پر مبنی جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی ۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا ۔ بھٹو مرحوم نے ملک کو آئین تو ضرور دیا، لیکن جمہوریت کو دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے داغ دار بنادیا ۔ اسی طرح افغانستان میں سردار داؤد کی حکومت کے خلاف وہاں کی مذہبی قوتوں کی حمایت اور سرپرستی کر کے صرف افغانستان کی سرزمین پر ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی شدت پسند عناصر کو مجتمع ہونے اور ریاستی امور پر اثرانداز ہونے کا موقع فراہم کیا ۔ 1980 کے عشرے میں جب جنرل ضیاء نے امریکا کی ایما پر افغانستان میں روس کے خلاف مزاحمت کا پروگرام بنایا، تو انھوں نے بھی ان ہی عناصر کو استعمال کیا جنھیں 1974 میں حکومت پاکستان نے تیار کیا تھا ۔

اس سلسلے کی دوسری کڑی ملک کو فلاحی کے بجائے سیکیورٹی ریاست بنانا تھا ۔ جس کے نتیجے میں جمہوری اقدار کمزور اور غیر جمہوری قوتیں مضبوط ومستحکم ہوتی چلی گئیں ۔ اسی طرح ریاستی مقتدرہ کی غلط پالیسیوں اور مذہبی جماعتوں کی درپردہ سرپرستی کی وجہ سے ملک میں مذہبی منافرت اور متشدد فرقہ واریت انسٹیٹیوشنلائز ہوتی چلی گئی ۔

حالانکہ ہر عام انتخاب میں عوام نے مذہبی جماعتوں کو رد کرتے ہوئے کبھی 5 فیصد سے زیادہ نمایندگی نہیں دی ۔ مگر اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی کے باعث ریاستی پالیسی سازی کے علاوہ انتظامی ڈھانچے پر ان کا اثرونفوذ بڑھتا چلا گیا ۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ قانون سازی سے نصاب تعلیم میں تبدیلیوں سمیت ہر اہم ایشو پر یہ قوتیں اثرانداز ہونے لگیں ۔ نتیجتاً گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے ملتان میں راشد رحمان تک ایسے بیسیوں افراد قتل کردیے گئے، جن پر Blasphamy کا براہ راست الزام نہیں تھا۔ مگر انھیں صرف اس لیے قتل کیا گیا کہ انھوں نے ایسے افراد کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا یا بحیثیت وکیل مقدمہ لڑنے کی حامی بھری، جن پر Blasphamy کا الزام تھا۔ یہ دراصل دیگر لوگوں کے لیے ایک تنبیہہ تھی کہ وہ ایسے افراد کے لیے ہمدردی کا مظاہرہ نہ کریں۔

آزادانہ تفتیش یہ بتاتی ہے کہ Blasphamy کے بیشتر کیسوں میں الزام جھوٹا ثابت ہوا اور بے گناہ افراد عوامی اشتعال کا نشانہ بنے۔ البتہ اس کے پس پشت مختلف نوعیت کے مفادات ضرور کارفرما تھے۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا سبب یہ بھی ہے کہ آئین کی بعض شقوں کی تشریح اور ان سے متعلق PPC اور Cr.PC کی دفعات میں سنگین قانونی سقم پائے جاتے ہیں ۔ حکومتیں اور وزارت قانون اس قدر دباؤ میں رہتی ہیں کہ ان شقوں اور ان سے متعلق دفعات میں کسی قسم کی ردوبدل کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کیا جاتا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس نازک اور سنگین صورتحال سے کس طرح بچا جائے؟ اگر متنازع آئینی شقوں اور دفعات میں تبدیلی ممکن نہیں ہے ، تو کم از کم بعض ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں کہ بے گناہ یا گناہ گار دونوں طرح کے افراد کی زندگیوں کو عوامی اشتعال سے بچا کر اس وقت تک قانون کی حفاظت میں رکھا جائے تاآنکہ عدلیہ ان کے مقدر کا فیصلہ نہ کردے ۔ دوسرے، حکومت محض بیان بازی کرنے کے بجائے ٹھوس اقدامات کرے تو اس قسم کے سانحات پر کافی حد تک کنٹرول پایا جاسکتا ہے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر حکومت گوجر خان اور بادامی باغ کے واقعات کا سختی سے نوٹس لے کر ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے تک لے آتی تو شاید کوٹ رادھا کشن کا واقعہ رونما نہ ہوتا ۔

مگر نہ حکومت ان واقعات کا سدباب کرنے میں سنجیدہ ہے، نہ ہی اپوزیشن کوئی موثر آواز اٹھا رہی ہے ۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں ہر سانحے کے بعد پریس کلبوں کے باہر چند درجن افراد کے ساتھ مظاہرہ کرکے محض خانہ پری کردیتی ہیں۔ جب کہ ذرایع ابلاغ بھی ایسے واقعات پر چند روز تک واویلا مچانے کے بعد خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ نتیجتاً چند ماہ کی خاموشی کے بعد پھر کوئی نہ کوئی ایسا دلخراش واقعہ رونما ہوجاتا ہے جو پہلے سے مجروح قومی تشخص پر مزید کچوکے لگا دیتا ہے ۔ کوٹ رادھاکشن کے واقعے کے بعد بھی اگر حکمران اشرافیہ خواب خرگوش سے بیدار نہ ہوئی تو یہ بدترین قومی بدنصیبی ہوگی ۔

ویسے تو جو کلنک پوری قوم کے ماتھے پر لگا ہے، اس کا مٹنا دشوار نظر آرہا ہے ۔ مگر اب بھی وقت ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے ٹھوس اقدامات کا عزم کیا جائے، تو شاید یہ داغ دھل جائے۔ وحشتوں کی کسی نئی فصل کی آبیاری کرنے کے بجائے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے تو یہ قومی مفاد میں بہتر ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔