حکومت، علمائے کرام، سول سوسائٹی، میڈیا اور عدم برداشت

اوریا مقبول جان  جمعـء 14 نومبر 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

صرف مغرب کے سنجیدہ لکھنے والے ہی نہیں بلکہ وہ لوگ جو ایک روشن خیال، مرنجان مرنج اور موجودہ مغربی تہذیب سے متاثر اسلام کو مسلمانوں کے لیے ترقی کا راستہ تصور کرتے ہیں، اس بات پرحیران ہیں موجودہ دور میں بہت سے مفکرین کی محبوب’’ اسلامی جمہوریت‘‘ کے ماڈل ترکی سے ایک ہزار کے قریب افراد جہاد کرنے کے لیے شام میں نئی قائم شدہ خلافت کے پاس جا پہنچے ہیں۔ یہ تمام کے تمام مرد ہیں اور ان میں وکیل، تاجر، یونیورسٹیوں کے طلبہ، اور سرکاری محکموں اور نجی کمپنیوں کے ملازمین شامل ہیں۔ ان میں سے اکثریت شادی شدہ افراد کی ہے۔ ان کی اوسط تعلیم عام ترکی کے عوام سے کہیں زیادہ ہے، جب کہ ان کی اوسط عمر27سال ہے۔

ترکی جس میں جمہوری نظام کا تسلسل 1951سے چلا آرہا ہے اور یہ سمجھا جا رہا تھا اب یہاں شدت پسندی کا خاتمہ ہو چکا، کیونکہ دنیا میں ماہرین نے یہ تاثر عام کیا ہے کہ جہاں جمہوریت یا پھر ’’ اسلام جمہوریت‘‘ ہو وہاں شدت پسندی نہیں پنپ سکتی۔ گذشتہ پندرہ سالوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی کے عوام میں سے کسی گروہ نے القاعدہ یا کسی جہادی گروہ کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کے بارے ایک یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ چونکہ وہاں 2002 سے ایک روشن خیال اسلام کی نمایندہ پارٹی بر سرِ اقتدار ہے، جو اپنے بیانات اور عالمی سطح پر اپنے موقف کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر پیدا ہونے والے غم و غصہ کو کم کر دیتی ہے۔

برما کے مسلمان ہو ں یا اسرائیل جارحیت، ترکی کا موقف ایسا ہوتا ہے کہ ترکی کے مسلمان مطمئن ہو جاتے ہیں اور وہاں سے کوئی شدت پسندی کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ اس سب کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تصور کی جاتی ہے کہ ترکی میں ایک مضبوط سول سوسائٹی موجود ہے۔ یہ سول سوسائٹی بھی ایک عجیب مخلوق ہے۔ یہ جن مسلمان ملکوں میں موجود ہے وہاں اس کو ایک خاص ایجنڈے کے ساتھ منظم کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک انھیں مختلف پراجیکٹس کے نام پر رقوم فراہم کرتے ہیں۔ اس سول سائٹی کا اصل کام ان موضوعات پر آواز اٹھانا ہوتا ہے ۔

جن سے اسلام یا مسلمانوں کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو اور ان سیکولر قوم پرست تنظیموں کی جماعت سڑکوں پر نکلنا ہوتا ہے جو معاشرے میں انتشار پیدا کر کے لوگوں کو اسلام نہیں بلکہ قومیت کے نام پر اکٹھا کریں۔ ترکی جیسی حکومت کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس سول سوسائٹی کے لیے بھی قابلِ قبول ہوتی ہیں کہ وہ اس مغربی جمہوریت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے جو ان کو قبول ہے لیکن انھیں ووٹ ایسے لوگوں نے دیے ہوتے ہیں جو اسلام کی اصل روح یعنی خلافت راشدہ کے آئیڈیل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے جب ترکی کی حکومت کسی طور پر بھی جہادی گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی، عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیتی یا پھر ایسے قوانین منظور کرنے کی کوشش کرتی ہے جو مغربی طرز زندگی کے خلاف ہیں تو یہ سول سوسائٹی سڑکوں پر نکل آتی ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال اس وقت سامنے آئی جب داعش نے شام کے شہر کوبانی پر حملہ کیا تو ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ہنگامے پھوٹ پڑے اور پچاس کے قریب لوگ مارے گئے۔ مطالبہ یہ تھا کہ ترکی کی حکومت شام میں داعش کے خلاف کردوں کی حمایت کرے۔حکومت مجبور ہو کر کردوں کو امداد بھی دینے لگی اور ٹرنینگ بھی۔لیکن کبھی بھی ترکی کی اس سول سوسائٹی نے ترکی کی حکومت کو نہیںکہا کہ افغانستان اور عراق میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف وہاں کے عوام کا ساتھ دے۔ بلکہ ترکی کی یہ ’’ اسلامی جمہوریت‘‘ جو آجکل ہمارے بہت سے اقامتِ دین کے اسلامی رہنماؤں کی آئیڈیل ہے اس کی افواج نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان میں موجود رہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف جنگ میں برابر شریکِ  بھی رہیں۔

دنیا کے سنجیدہ تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور دنیا بھر کا پریس ان تجزیات سے بھرا پڑا ہے کہ ترکی کی سول سوسائٹی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جب ایک ایسا رویہ اختیار کرتی ہے جس کے نتیجے میں حکومت کمزور پڑجاتی ہے تو پھر وہاں شدت پسندی کو عروج حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس حکومت کو ووٹ دیے ہوتے ہیں وہ اسلام کی ایک ایسی تصویر چاہتے ہیں جو دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی آواز بھی ہو اور ملک میں بھی معذرت خواہانہ رویہ نہ رکھے۔ یہی مایوسی انھیں شدت پسند بھی بناتی ہے اور جہادی بھی۔ کسی بھی ملک میں ایسا روّیہ پوری قوم کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ایک طرف سول سوسائٹی اور این جی اوز ہوتی ہیں جو ہر اس موقع کو ضایع نہیں ہونے دیتیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہو اور دوسری جانب وہ شدت پسند لوگ ہوتے ہیں جو مذہبی گروہوں کے بدترین ظلم پر بھی مذہبی لوگوں کا دفاع کرتے پھرتے ہیں۔

پاکستان مکمل طور پر اس طرح کے دو گروہوں پر تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک طرف سول سوسائٹی اور این جی اوز  ہیں جو بلوچستان کے لیے تو آواز اٹھاتی ہیں، کسی خاتون پر تشدد کے خلاف باہر نکل آتی ہیں، کسی مدرسے میں ہونے والے واقعے پر احتجاج کرتی ہیں لیکن جہاں کہیں عام مسلمانوں پر ظلم و تشدد اور بربریت ہوتی ہے ان کی زبانیں کنگ ہو جاتی ہیں۔ یہ عراق اور افغانستان میں امریکا نواز حکومت کے ظلم پر بھی خاموش رہتی ہیں اور کشمیر میں ایک لاکھ شہدا کے قتل پر بھی لیکن دوسری جانب اگر ایک شدت پسند گروہ کوڑے بھی لگادے تو مہینوں احتجاج جاری رہتا ہے۔میڈیا ان کے فنا نسزز، کارپوریٹ سرمائے سے چلتا ہے اس لیے ان کا ساتھ دیتا ہے۔

ان کے دباؤ میں حکومت خاموش رہتی ہے اور جواب میں وہ شدت پسند گروہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو کوٹ رادھا کرشن جیسے بہیمانہ اور ظالمانہ واقعہ کا بھی دفاع کرنے لگتے ہیں یا پھر اس پر بدترین خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ پسند کی شادی کرنے پر قتل ہونے والے جوڑے پر سول سوسائٹی شور مچاتی ہے اور دوسرا گروہ خاموش اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتا ہے۔

جب کہ ایسی ہزاروں مثالیں موجود میں جن میں پسند کی شادی کے بعد لڑکوں نے لڑکیوں کو بازار حسن میں بیچ دیا یا ان سے دھندا کروایا۔ اس ظلم پر سول سوسائٹی چپ سادھ لیتی ہے اور دوسرے گروہ کو اس کاعلم تک نہیں ہوتا۔ دونوں گروہ اس حدتک ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں کہ ایک کا  سچ دوسرے کا جھوٹ اور دوسرے کا سچ پہلے کا جھوٹ ثابت کرنے میں ساری توانائیاں صرف کرنے میں مصروف ہیں اور تماشہ وہ مظلوم عوام ہیں جو ان دونوں کے لیے بُز کشی کے کھیل میں  درمیا ن میں پڑی ہوئی بکری کی طرح ہیں جس کو ہر کوئی اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

کوٹ رادھا کشن میں عیسائی جوڑے کا دل د ہلا دینے والا واقعہ اگر بڑے مدرسوں کے مہتم علماء کو دہلا نہیں سکا، ان کی نیندوں کو اس نے حرام نہیں کیا تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اس لیے کہ اس واقعہ میں ان کے تیار کردہ مساجد کے امام کا بھی کردار تھا جو لاؤڈ اسپیکر پر خلق خدا کو اکٹھا کرتے رہے۔

کیا اس رویے کے بعد ایک عام شخص اسلام کی حقانیت کے لیے ان کے دروازے پر دستک دے گا؟ ان علماء کرام کو سب سے پہلے اس جوڑے کے حق میں سڑکوں میں نکلنا چاہیے تھا کہ سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ مسلمانوں کے درمیان بسنے والے غیر مسلموں کا میں ضامن ہوں‘‘۔ یہ علمائے کرام نکل پڑتے تو کسی سول سوسائٹی کو بات کرنے کی راہ نہ رہتی۔ دوسری جانب انھی دنوں میں ایک معروف نجی یونیورسٹی کے ایک استاد جو مقبول سیاسی والدین کے فرزند ہیں، ان پر اپنی ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگا تو سول سوسائٹی اور تجزیہ نگار جنسی طور پر ہراساں کرنے کی تعریف کرنے میں مصروف ہوگئے۔

انھیں اس طالبہ سے کوئی دلچسپی نہ رہے بلکہ اس بات پر بحث کرتے رہے کہ یہ جنسی تشدد بنتا ہے یا نہیں۔ جس پر وفاقی محتسب نے اسے نوکری سے نکالنے کے لیے کہا گیا، جب کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی انکوائری کہتی ہے کہ یہ ایک استاد کے مقام سے گری ہوئی بات ہے اس لیے کہ تم اپنی شاگرد سے معافی مانگ لو۔ ایسا کوئی واقعہ کسی مدرسے میں ہوا ہوتا تو ایک ماہ تک ٹی وی ٹاک شو چلتے رہتے۔

یہ ہے ہمارا المیہ اور یہ ہے ہمارے درمیان تقسیم۔ آج اگر یہ چاروں گروہ، علمائے کرام، میڈیا، سول سوسائٹی اور حکومت ساتھ مل کر سامنے نہ آئے تو یاد رکھیں ابھی صرف داعش کے پوسٹر لگے ہیں۔ کل کیا ہوگا، اس کا منظر صاف نظر آ رہا ہے۔ وہ ترکی جس میں خوشحالی بھی ہے اور جمہوریت بھی وہاں سے لوگ جہاد کا علم لے کر اٹھ سکتے ہیں تو ہمارے ہاں زمین تو بہت ہموار ہے، غربت، افلاس، بیماری، بھوک، ننگ اور بے روزگاری۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔