ایک پرانی بات

نصرت جاوید  جمعـء 14 نومبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بہت کوشش کے باوجود مجھے اس وقت وہ سال یاد نہیں آ رہا جب نجم الدین اربکان ترکی کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے اور پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ ان کی حکومت کو وہاں کی فوج نے بالآخر برطرف کروا دیا تھا۔ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگا دی گئی۔ مگر وہی جماعت اپنا نام بدل کر اب کئی برسوں سے ترکی کی حکمران ہے اور اس کی مخالف جماعتوں کا مستقبل ابھی تک کافی تاریک نظر آ رہا ہے۔

بہرحال جب اربکان اسلام آباد تشریف لائے تو ترکی کے سفارت خانے نے ان کو معروف و متحرک پاکستانیوں سے ملوانے کے لیے ہمارے ایک مشہور ہوٹل کے بہت بڑے ہال میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے جماعتِ اسلامی کے رہنما قاضی حسین احمد مرحوم کو بھی بہت چاؤ سے مدعو کیا گیا تھا۔ قاضی صاحب کو ہوٹل کے مین دروازے سے اس تقریب میں لا کر نجم الدین اربکان کے ساتھ ملوانے کے لیے سفارت خانے نے اپنی ایک تھرڈ سیکریٹری کو مامور کیا تھا۔

وہ 30 سے کم برس کی ایک دراز قد خاتون تھی۔ بے تحاشہ حسین اور حیران کن حد تک لمبے بالوں کی مالک۔ میں اسے دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ انتہائی ڈھٹائی سے اس کے پاس جا کر خود پر زبردستی طاری کی گئی خود اعتمادی کے ساتھ اپنا نام بتا کر تعارفی کارڈ دیا تو اس نے بڑی معصومیت سے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اس تقریب میں وقت پر پہنچنے کی پریشانی میں اپنا پرس گھر چھوڑ آئی ہے۔

اس کے پاس تعارفی کارڈ نہیں ہے مگر نام اس کا ’’الف‘‘ ہے۔ ’’ہاں تم بالکل الف کی طرح شاندار ہو‘‘۔ میں نے فوراََ اعتراف کیا۔ مگر جانے کیوں پہلی ہی ملاقات میں مجھے اپنا دوست سمجھ کر اس نے استفسار کیا کہ میرے خیال میں اس کا لباس ’’غیر اسلامی‘‘ تو نہیں۔ میں نے دو قدم پیچھے ہٹ کر اس کا جائز لیتے ہوئے کہا کہ ہماری ’’اسلامی روایات‘‘ کے مطابق اس کے لباس میں صرف دوپٹہ کی کمی ہے۔ باقی ہر شے بہت مناسب ہے۔ اسے مطمئن کرنے کے بعد پوچھنا واجب ٹھہرا کہ وہ اپنے لباس کے بارے میں اتنی متفکر کیوں ہے۔ جواباََ اس نے مطلع کیا کہ قاضی حسین احمد کو لے کر مین ہال تک لے جانا اس کی ذمے داری ہے۔

مگر اسے بتایا گیا ہے کہ قاضی صاحب اور ان کی جماعت بہت ’’قدامت پرست‘‘ ہے۔ خواتین کے بے حجاب ہونے کی شدید مخالف بھی۔ اس کے ساتھ مزید وقت گزارنے کا مجھے بہانہ مل گیا۔ میں نے اسے حوصلہ دیا کہ قاضی صاحب کوئی سخت گیر قدامت پرست نہیں ہیں۔ مجھ جیسے شخص کے ساتھ بھی بڑی شفقت سے ملتے ہیں اور میں قاضی صاحب کے آنے تک اس کے ساتھ ہی کھڑا رہوں گا۔ ہم دونوں انھیں مل کر مین ہال تک لے جائیں گے۔

پھر قاضی صاحب آ گئے۔ وہ ’’الف‘‘ کو دیکھ کر تھوڑا گھبرائے ضرور مگر فوراََ سنبھل گئے۔ اس نے جب ملانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو انکار نہ کیا بلکہ مصافحہ کرتے وقت ترکی زبان میں اس کا نام اور کیا حال ہے جیسا کوئی فقرہ بھی کہا۔ ہال کی طرف اس خاتون کے ساتھ چلتے ہوئے البتہ ان کا چہرہ بچوں کی معصومیت والی شرم سے تھوڑا سرخ رہا اور اربکان سے ملنے کے فوراََ بعد وہ اس خاتون کو بھول بھال گئے۔ وہ مگر ان کے قریب منڈلاتے رہنے پر مجبور تھی اور میں اس دوران اس کے ساتھ چپکا رہا۔ ’’الف‘‘ کے ساتھ میری یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی مگر ایک خوش گوار یاد کی طرح اس کا چہرہ اور وجود اکثر میرے ذہن میں اُمڈ آتا ہے۔

شاید اسی یاد کی بدولت دو تین برس پہلے کتابوں کی ایک دوکان میں گیا تو وہاں مجھے ایک شیلف میں جہاں تازہ آئی کتابوں کو نمایاں کیا گیا ہوتا ہے ایک ناول رکھا نظر آیا۔ اس ناول کی مصنفہ کا نام ’’الف شفق‘‘ تھا۔ یہ نام دیکھتے ہی میں نے اس ناول کا عنوان دیکھے بغیر اسے خرید لیا۔ سرِ ورق سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ناول نگار ترکی سے تعلق رکھتی ہے۔ گماں ہوا یہ وہی ’’الف‘‘ ہی نہ ہو جو مجھے ملی تھی۔ گھر آ کر ناول کے تعارفی صفحات دیکھ کر مگر جلد ہی دریافت ہو گیا کہ یہ وہ ’’الف‘‘ نہیں ہے۔

ناول کا نام Forty Rules of Love تھا۔ محبت کے چالیس اصول یا ضابطے یا مرحلے اس کا شاید اُردو متبادل ہو سکتے ہیں۔ مولانا روم اور شمس تبریزی کے عشق سے متاثر ہوئے دو افراد کی کہانی تھی جنہوں نے ایک دوسرے کو انٹرنیٹ کے ذریعے دریافت کیا تھا۔ ابتدا بڑی اچھی اور شدید شاعرانہ تھی مگر چند صفحات کے بعد میں اس ناول کو ختم نہ کر پایا۔ اس ناول کو ختم نہ کرنے کی وجہ سے اکثرچند محفلوں میں مجھے اس وقت بہت خفت محسوس ہوتی رہی جب وہاں موجود کئی لوگ کچھ اس طرح کے دعوے کرتے سنائی دیتے کہ اس ناول کی بدولت وہ عشق کی حقیقی اور مجازی جہتوں وغیرہ سے خوب متعارف ہوئے۔

ان کا فخر بھرا انبساط مجھے اکثر ’’یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟‘‘ کہنے پر بھی اُکساتا۔ مگر چونکہ میں نے وہ ناول غور سے پڑھ کر ختم نہیں کیا تھا اس لیے اس کو ’’فضول‘‘ ثابت کرنے کے کوئی دلائل میرے پاس موجود نہیں تھے۔ انٹرنیٹ کو کافی عرصے سے استعمال کرنے کے باوجود مجھ میں ابھی اتنی ہمت پیدا نہیں ہوئی کہ کسی کتاب کو پڑھے بغیر اس کے بارے میں کوئی ’’مجاہدانہ‘‘ رائے دے سکوں۔ شخصیات کے بارے میں بھی رویہ میرا ایسا ہے۔ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے مختلف شعبوں میں معروف ہوئے افراد کی لعن طعن میرا شعار نہیں۔ یہ سب کرنے کی ہمت رکھنے والی مخلوق نجانے کہاں سے آئی ہے۔

ویسے بھی موضوع اس کالم کا ہے ’’الف شفق‘‘ اور اس کے ناول اور چند روز پہلے میری بیوی کتابوں کی ایک دکان میں گئی تو اس کا ایک اورناول اٹھا لائی۔ اس ناول کے چند صفحات پڑھ کر اس نے اسے چھوڑ دیا۔ مزا نہ آنے والی کیفیت کی وجہ سے۔ میری نگاہ پڑی تو میں نے اسے اٹھا لیا۔ “The Bastard of Istanbul” اس ناول کا عنوان ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ کرنے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ میں اس ناول کا ایک ایک لفظ اپنی عادت کے برخلاف احتیاط سے دیکھ، پڑھ کر، سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں۔ کئی نشستوں کے باوجود ابھی تک اسے ختم نہیں کر پایا۔ مگر اسے ختم کرنا لازم دِکھ رہا ہے۔

ہمارے بہت کم لوگوں کو شاید اس شدت کا اندازہ ہو جو ترکی اور آرمینیا کی شناخت رکھنے والے انسانوں کے درمیان موجود جذباتی نفرتوں کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ الف شفق نے اس تناظر میں بے پناہ جرأت کے ساتھ اس ناول کو لکھا ہے جو اس نفرت کا کھوج لگانے کا ایک پر خلوص سفر محسوس ہوتا ہے۔ اس ناول کے چھپنے کے فوراََ بعد ترکی حکومت نے اس کی مصنفہ پر ’’توہینِ ترکی‘‘ کے جرم میں ایک مقدمہ بنا دیا۔ اسے اس جرم میں تین سال تک کی سزا سنائی جا سکتی تھی۔ مگر عالمی اور ترکی کی سول سوسائٹی کے دباؤ کی بدولت حکومت نے وہ مقدمہ واپس لے لیا۔

اس ناول کی کہانی اور پیغامات فی الوقت میرا موضوع نہیں۔ سوال بس ایک ہے جو اس ناول کو پڑھتے ہوئے ذہن میں گردش کر رہا ہے اور وہ یہ کہ سعادت حسن منٹو کے ’’کھول دو‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے بعد وہ کون سی ادبی تخلیق تھی جس کی وجہ سے ہمارے کسی ادیب نے ہماری ریاست اور اس کے طاقتور طبقات کو چراغ پا کر دیا تھا۔ احمد فراز ایک بار ’’مسنگ پرسن‘‘ ہوئے تھے۔ فہمیدہ ریاض جلا وطنی میں گئیں۔ حبیب جالب تو سڑکوں پر مار کھاتے رہے۔ ان کے بعد کیا ہے؟ مکمل خاموشی۔ اس کے باوجود لوگوں کا اصرار ہے کہ پاکستانی ادب خواہ وہ کسی بھی زبان میں لکھا جا رہا ہو اب بھی بہت توانا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔