(پاکستان ایک نظر میں) - ’’حکومت کیا کیا کرے؟‘‘

محمد حسان  ہفتہ 15 نومبر 2014
ہماری حکومتوں کو کام بھی تو بہت ہیں نا، اپنی ذاتی محنت اور بغیر کسی حکومتی سپورٹ کے ملک کا نام روشن کرنے والے سپوتوں کی کیا اہمیت ہے؟ اگر حکومت نے اِ ن لوگوں پر توجہ دی تو پاکستان کا اقبال اس دنیا میں بلند ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ فوٹو: فائل

ہماری حکومتوں کو کام بھی تو بہت ہیں نا، اپنی ذاتی محنت اور بغیر کسی حکومتی سپورٹ کے ملک کا نام روشن کرنے والے سپوتوں کی کیا اہمیت ہے؟ اگر حکومت نے اِ ن لوگوں پر توجہ دی تو پاکستان کا اقبال اس دنیا میں بلند ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ فوٹو: فائل

ایک دفعہ ایک غریب آدمی کسی محلّے میں لوگوں سے کھانے کو کچھ مانگتا پھر رہا تھا کہ دو دِنوں سے بھوکا ہوں خدارا مجھ پر رحم کھاؤ اور اللہ واسطے کچھ کھانے کو دے دو مگر کسی کے کان پر جُوں تک نہ رینگی اور کسی نے اُس پر ترس نہ کھایا اور وہ بیچارہ غریب آدمی بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اُس محلّے کی ایک دُکان کے آگے مَر گیا، اب جب صبح کو لوگ باہر نکلے اور اُس شخص کی لاش دیکھی تو محلّے میں چندہ جمع کیاگیا اور اُس شخص کے کفن دفن کا انتظام کر کے قرآن خوانی کروا کر تبرّک تقسیم کر دیا گیا،یہی چندہ اُس بد نصیب کی زندگی میں جمع کیا جاتا اوریہی تبرّک اُسے دے دیا جاتا تو وہ بے چارہ زندہ ہوتابھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرتا۔

ہمارے معاشرے میں ماں باپ کے گزرنے کے بعد اولاد کو اُن کی قدر آتی ہے،پیسہ اُڑانے کے بعد اُس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے،جب پانی سَر سے گزر جائے تب ہوش آتا ہے،کوئی دانشور فوت ہو جائے تو اُس کے نام کی سڑک بنا دی جاتی ہے، تمغۂ امتیاز سے نواز دیا جاتا ہے ،ہر سال یومِ وفات منا کر،تقریبات میں لفّاظی کر کے ایک ہیڈ لائن بنا دی جاتی ہے اور کہانی ختم، ’’نشستند گفتند برخاستند‘‘ ، کیونکہ زندہ انسان کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی،جو مقام اُسے اُس کی زندگی میں مِلنا چاہیئے وہ اُسے مرنے کے بعد دیا جاتا ہے گویا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے کام کو سراہا جائے تو اُس کیلئے ’مرنا‘ پہلی شرط ہے ،یہ مثال ہمارے نظام اور حکومتوں پر صادق آتی ہے۔

ارفع کریم رندھاوا، پاکستان کی ایک بیٹی جِس نے نَو سال کی عُمر میں دُنیا کی کم عُمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈپر و فیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کر کے قوم کا سَر فخر سے بُلند کیا ،اُس نے مایوسی کی فضاء میں ایک اُمید کی کِرن کا کام دیا ،ہر کِسی نے آگے بڑھ کر اُس بچی کو سراہا مگر حکومت نے اُسے صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی دے کر ’فارغ‘کر دیا اورایسا فارغ کیا کہ جب ارفع اپنی بیماری کی وجہ سے اِس دنیا سے رخصت ہو گئیں تب حکومتی کارندوں کو ہوش آیا اور اُنہوں نے فوراً لاہور میں موجود ایک ٹیکنالوجی پارک کو ارفع کے نام سے منسوب کر کے ارفع سافٹ ویئرٹیکنالوجی پارک کا نام دے دیا اور اپنا ’فرض‘پورا کر دیاکیونکہ وہ بچی حکمرانوں کی اپنی بچی نہیں تھی ورنہ ہنگامی بنیادوں پر اُس کا علاج امریکہ، برطانیہ یا یورپ میں ہوتا۔

دراصل ہمارے حکمران بھی اوپر بیان کی گئی مثال میں موجود محلّے والوں کی طرح عقلمند ہیں کیونکہ اگر وہ اُسے کھانا دے دیتے تو بعد میں اُنہیں تبرّک کیسے مِلتا بالکل اِسی طرح اگر ارفع صحت یاب ہو جاتی تو ارفع کے نام سے پارک منسوب کر نے پر جو لاگت آئی ہوگی اُس میں سے ’’تبرّک‘‘کیسے وصول کیا جاتا؟

ہماری حکومتوں کو کام بھی تو بہت ہیں نا، اپنی ذاتی محنت اور بغیر کسی حکومتی سپورٹ کے ملک کا نام روشن کرنے والے ارفع کریم اورعلی معین نوازش جیسے کئی سپوتوں کی کیا اہمیت ہے؟اصل کام تو حکومتیں کر رہی ہیں، آخر حکومت کیا کیا کرے؟حکومتی عہدیداران ملک و قوم کی’ ترقی‘ کیلئے بیرونی دورے کر رہے ہیں، ملک سے باہر بینک بیلنس بنا رہے ہیں، فلیٹس خرید رہے ہیں، پلازے بنا رہے ہیں، بی ایم ڈبلیوز خرید رہے ہیں،جمہوریت بچا رہے ہیں،عدل و انصاف گھر گھر جا کر فراہم کر رہے ہیں، پاکستان میں آج کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا، کوئی سڑک پر نہیں سوتا، کوئی بیروز گار نہیں، ملکی قرضو ں کا خاتمہ ہو چکا ہے، شہریوں کی عزت، جان ومال آج محفوظ ہے، اقلیتوں کو وزیرِ اعظم سے زیادہ سیکیورٹی دی جا رہی ہے،سرکاری ہسپتالوں میں کوئی بچہ نہیں مر رہا،ملک میں شرح خواندگی صد فی صد ہو چکی ہے اور آپ ارفع کریم کا رونا رو رہے ہیں؟ آپ انور جہانگیر کی بات کر رہے ہیں جس نے عالمی اقتصادی فورم کے سب سے کم عمر مندوب ہونے کا اعزازحاصل کیا، آپ رائے حارث منظور کی بات کر رہے ہیں جس نے صرف نَو سال کی عمر میں او لیول کے امتحان میں 90ممالک کے 20لاکھ بچوں میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا، آپ ہارون طارق کی بات کر رہے ہیں جس نے کیمبرج یونیورسٹی کے او/اے لیول امتحانات میں سب سے زیادہ Aگریڈزلینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا، آپ ماہِ نور کی بات کر رہے ہیں  جس نے چند دنوں پہلے آسٹریلیا میں منعقدہ ریاضی کے عالمی مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے پاکستان کا نام روشن کیا۔

ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئیں اور ایسے بچے جو کہ پاکستان کا اصل مستقبل ہیں ان کی تعلیم و ترقی کا ایک باقاعدہ نظام متعارف کروانا چاہیئے تاکہ ان کی صلاحیتیں مزید پروان چڑھ سکیں اور پاکستان کا اقبال اس دنیا میں بلند ہو ،اللہ پاکستان کے اِن سپوتوں کو سلامت رکھے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

محمد حسان

محمد حسان

بلاگر گزشتہ 12 سال سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر اور فیس بُک پر BlackZeroPK سے سرچ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔