(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت

شبیر رخشانی  ہفتہ 15 نومبر 2014
انسانیت والا معاملہ  ہمارے اندر سے گمنامی کی فضاؤں میں اڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ گو کہ ہم انسان ہیں لیکن بہت کم لوگ اس دنیا میں جو انسانیت کا مظاہرہ کر تے ہیں کہ  اگر وہ کسی کو تکلیف میں دیکھیں تو اسے اپنی ہی تکلیف سمجھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

انسانیت والا معاملہ ہمارے اندر سے گمنامی کی فضاؤں میں اڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ گو کہ ہم انسان ہیں لیکن بہت کم لوگ اس دنیا میں جو انسانیت کا مظاہرہ کر تے ہیں کہ اگر وہ کسی کو تکلیف میں دیکھیں تو اسے اپنی ہی تکلیف سمجھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

میں نے جتنا بھی سیکھا اس دنیا میں مشاہدات کی روشنی میں سیکھا۔ ورنہ ہماری کتابیں ہمیں وہ حقیقت نہیں دکھاتیں جو ہمارے روز مرہ سے مماثلت رکھتے ہوں۔ ہمارامعاشرہ اور یہاں کے بسنے والے آدم زادوں کے رویوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔

بس اسکے لئے آپکو خالی پیٹ اور دنیا کی ٹھوکریں کھانی پڑیں تو تب اس حقیقت کا مزہ ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔ آپ رشتوں کو پرکھنا سیکھیں گے۔ آپ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آتا ہوا دیکھ سکیں گے۔ وہی مخلوق جو آپکی حیثیت اور معیار کو پرکھ کر آپکی شخصیت اور آپکے اخلاقی قدروں کی تعریف کرتے ہوئے نہیں رہ سکتے تھے آج وہی دور آیا کہ لوگ آپ کو دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے ۔ کیوں؟  آخر کیوں؟ تو اسکا جواب آپکو آسانی سے مل ہی جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ   مادہ پرست معاشرہ بن چکا ہے جو آپکو آپکے اندر کے انسان سے زیادہ باہر کے انسان سے جانتا اور پہچانتا  ہے۔ چاہے آپ کتنا ہی اندر سے خوددار اور حساس انسان ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن دنیا والے آپکو آپکی ظاہری صورت میں دیکھ کر آپ کی حیثیت کا اندازہ لگا لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر ایسے قیمتی اور نایاب انسانوں کو کھو دیتے ہیں جو حقیقت میں درد دل رکھتے ہیں اور ان میں انسانیت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ انکے پاس وسائل نہیں ہوتے تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔

میرے ذاتی خیال میں تو ان تمام خرابیوں کی جڑ معاشرہ ہی ہے جس نے ہماری نسل کو ایک ایسا رخ بخشا ہے کہ ہم صرف مادہ پرستی کے پجاری بن چکے ہیں۔ دنیا میں ہمارے رہنے کا مقصد اب  صرف پیسہ کمانا اور اپنی حیثیت  کو بڑھانا رہ گیا ہے۔ ہم نے ڈگریاں اسلئے حاصل نہیں  کی کہ ہم اس دنیا میں ایک اچھا کام کر سکیں بلکہ اسلئے کہ مال و دولت اور شہرت کما سکیں۔ آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے ارد گرد ڈگریوں  والے تو بہت ملیں گے مگر انکا رویہ دیکھ کر آپکو قطعاً نہیں لگتا کہ موصوف نے علم کے وہ اصول سیکھے ہیں جن سے اسکے اخلاقی اقدار بلند ہو۔ اس میں انسانیت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔

میں کسی محفل میں بیٹھا تھا تو باتوں باتوں میں یہی موضوع زیر بحث آگیا تو کسی نے درست فرمایا کہ جو تعلیم ہم حاصل کرتے ہیں اس سے ہمیں انفرادی حوالے سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے لیکن آپکے اندر اجتماعیت کا رجحان کم پایا جاتا ہے۔ اگر اجتماعیت کا رجحان آپکے اندر پیدا ہوگیا تو سمجھ لینا کہ یہ چیز آپکی فکر و سوچ ہے جو آپکو اجتماعیت پر مجبور کر دیتی ہے۔

میں نے خوداِس بات کا  مشاہدہ کیا ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ جو ہمارے معاشرے میں باشعور طبقہ کہلاتا ہےوہ انسانی قدروں اور انسانیت کے شعبے سے بیگانگیت کا مظاہرہ کرجاتے ہیں۔ انکے پاس دولت کا بے تحاشہ سرمایہ ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اس سرمایہ کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی انسانیت کے خدمت کے لئے وقف کرنا نہیں چاہتے۔ اگر آپ ہسپتالوں کا جائزہ لیں تواچھے  ڈاکٹروں کی کمی نہیں لیکن جو فیس وہ غریب مریضوں سے حاصل کر لیتے ہیں اگر اُس کو غریبوں پر ظلم کےمترادف کہا جائے تو ہر گزغلط نہیں ہوگا ۔ کیونکہ جب غریب بھاری فیس کی ادائیگی کے بعد دوائیوں کا پرچہ حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتا ہے اور جب دوائیوں کے پیسے اسکے پاس نہیں ہوتے تو  وہ وہاں سے مایوس اور نامراد واپس لوٹ جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ایک ڈاکٹر روزانہ کی بنیاد پر اپنے فیس میں سے پانچ غریب مریضوں کا مفت علاج کرے تو یقیناًوہ اپنے زندگی میں بہت ہی زیادہ فرق محسوس کرے گا۔

ہم نہ جانے اپنی آسائشوں کو پورا کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ ہم سوچتے ہیں کہ کس طرح ہماری آسائشیں پوری ہوں ہم ان آسائشوں کو پورا کرنے کے لئے جرم کا راستہ تک اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم اپنے آپکو عالیشان سوچ رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ ہم بڑے بڑے گھروںمیں رہتے اور ہائی لیول کی گاڑیاں اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔ اور اِس شہانہ زندگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم کس قدر رئیس ہیں ۔ ہم اپنی انہی خواہشات کی تکمیل میں اپنے زمہ داریوں سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔

انسانیت والا معاملہ  ہمارے اندر سے گمنامی کی فضاؤں میں اڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ گو کہ ہم انسان ہیں لیکن بہت کم لوگ اس دنیا میں جو انسانیت کا مظاہرہ کر تے ہیں کہ  اگر وہ کسی کو تکلیف میں دیکھیں تو اسے اپنی ہی تکلیف سمجھتے ہیں۔

لیکن پریشانی کی بات اب بھی نہیں کہ مایوسی کو اُمید میں بدل  سکے ہیں۔ اور یقین کریں کہ اِس میں نہ ہی بہت محنت اور نہ بہت وقت درکار ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے کام کرکے اپنے معاشرے میں خوشیوں کے ڈھیر لگاسکتے ہیں۔ ہم بھی کسی نابینہ اور معذور کو سڑک پار کرنے میں اسکی مدد کرسکتے ہیں۔ ہسپتالوں میں موجود مریضوں کی مالی امداد کرسکتے ہیں۔ کسی محنتی طالبعلم کی اسکول فیس یا کتاب، کاپی ، قلم کی مد میں مدد کرکے۔  اِس طرح کے اقدامات سے معاشرے میں بڑھتی طبقاتی تقسیم کو بھی روکا جاسکتا ہے اور غریبوں کی مدد بھی ہوسکتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔