چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے؟

رئیس فاطمہ  ہفتہ 15 نومبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

اسلام میں بت پرستی حرام ہے۔ بظاہر تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا لیکن کیا ہم اپنے اندر کے ان بتوں کو توڑ پائے جن کی پوجا ہم ذاتی مقاصد، عہدوں اور تمغے حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں؟ سچ پوچھئے تو یہ کاروبار بڑا منافع بخش ہے۔ اپنے اپنے تراشیدہ بتوں کی پوجا کیجیے اور کسی نہ کسی ادارے میں کوئی عہدہ حاصل کر لیجیے۔ غلط کو غلط صرف وہی کہہ سکتے ہیں جنھیں کسی عہدے، ایوارڈ یا جاگیر کی لالچ نہ ہو۔

ایسا نہیں ہے کہ اپنے اپنے دلوں میں خواہشات کے انبار کی زنبیل لیے در در ماتھا ٹیکنے والے، جن بتوں کی پرستش کر رہے ہیں جنھیں ’’جمہوریت‘‘ کا رکھوالا اور ’’ان داتا‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ وہ ان کریہہ المنظر مٹی کے دیوتاؤں کے اصل وجود سے واقف نہیں ہیں۔ بالکل واقف ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصل اہمیت ان کے اندر چھپے ہیرے، جواہرات، مال و متاع کی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے محمود غزنوی کو نہ اسلام پھیلانے میں کوئی دلچسپی تھی، نہ ہی کسی اور فلاحی کام یا فلاحی ریاست کی تکمیل سے۔

وہ تو بس ہندوستان کو سونے کی چڑیا کی طرح اپنے جال میں پکڑنے کے لیے صرف بتوں کو توڑ کر ان کے وجود میں چھپا زر و جواہر لوٹنے آتے تھے اور واپس اپنے وطن چلے جاتے تھے۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ خاص کر الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز اور دیگر تجزیاتی پروگرام اسی ایجنڈے پہ کام کر رہے ہیں کہ ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘۔

کوئی صاحب ادراک دیوانہ ہی ہو گا جو ہتھیلی پہ سچ کا چراغ لے کے ہوا کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ اکثریت تو ان کی ہے جو ہزار پنکچر لگانے کے بعد بھی بتوں کی پوجا کر کے گنگا نہا آئے۔اب سارا کھیل کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ اس سے بہت پہلے بڑے بڑے ’’برگزیدہ‘‘ ہستیوں کے نام خود ان کے ان ناخداؤں نے آشکارا کر دیے تھے تا کہ قوم کو ان کی اصلیت پتہ چل جائے۔

اسی لیے لوگ اب ٹیلی ویژن اسکرین پہ ٹاک شوز کے برگزیدہ اینکرز حضرات و خواتین کا لپا پتا آرائشی چہرہ ان کا لب و لہجہ اور غصے سے لبریز آنکھیں دیکھ کر ہی سمجھ جاتے ہیں کہ اب جو فقرہ ان کی زبان مبارک سے نکلے گا اس کا لب لباب یہی ہو گا کہ اگر زرداری اور نواز شریف ہیں تو جمہوریت زندہ رہے گی۔ بصورت دیگر نہیں۔ آنکھوں میں دھول جھونکنے والے بھی کیا کریں؟ بے روزگاری کا عفریت سامنے منہ پھاڑے کھڑا نظر آتا ہے۔ ذرا بھی اسکرپٹ سے ہٹے تو؟ جان بوجھ کر شیطان پہ کنکریاں برسانے والوں سے شیطان ہی نے تو کہا تھا:

تم تو اپنے آدمی تھے‘ تم کو آخر کیا ہوا؟
اور اگر کوئی صاحب کردار باہوش تجزیہ کار، کالم نویس یا کوئی جرأت مند شخصیت رات کو رات کہنے کی ہمت کرے۔ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے کرپشن کو سامنے لانے کی جرأت کرے۔ اقربا پروری اور ایک مخصوص گروپ کو نوازنے اور فرزند ارجمند کی عیاشیوں کو برملا کہنے کا حوصلہ کرے تو نجی ٹی وی کے باہمت اور نڈر نیوز پروڈیوسر کی شامت آ جاتی ہے کہ اس نے کسی سچ کہہ دینے والے دیوانے کو LIVE آن لائن کیوں لیا؟ اور پھر نیوز اینکر اور پروڈیوسر کو ایسے سر پھروں کی فہرست تھما دی جاتی ہے جو کسی بھی قیمت پہ جھوٹے خداؤں کی تعریف کرنے پہ آمادہ نہ ہوں۔

بعض اوقات یوں بھی ہوا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں پہ تنقید کرنے پر ٹاک شو کے میزبان فوراً وقفہ لے لیتے ہیں۔ وقفے کے دوران بااثر شخصیت کے کہنے پر جو عموماً خود میزبان ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے سر پہ چونکہ سومنات کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ تمام گفتگو Delete کروا دیتا ہے جو سومنات کی حقیقت جانتے ہیں۔ بصورت دیگر اس جرأت مند بولنے والے کو آئندہ کسی پروگرام میں نہ بلانے کا عندیہ دے دیا جاتا ہے۔ (اس کی گواہی ایک سینئر کالم نگار اور تجزیہ کار بھی دے سکتے ہیں)

اس ملک کی تباہی اسی بت پرستی نے کی ہے۔ کبھی شرفا اور نجیب الطرفین خاندانی لوگ یہ سوچ کر لرز جاتے تھے کہ کہیں ان پر جانب داری یا رشوت کا الزام نہ لگ جائے۔ لیکن اب وہ سب سے بڑا احمق ہے جو رشوت نہیں لیتا، کرپشن میں حصے دار نہیں بنتا، ٹھیکیدار سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ ان کی نظریں صرف بجری زیادہ اور سیمنٹ برائے نام ملا کر اونچی اونچی عمارتیں کھڑی کر کے مال بنا کر رفو چکر ہو جانا ہے۔ لیکن ناقص عمارتیں سومنات کے پسندیدہ ٹھیکیداروں کی مدد کے بغیر نہیں بن سکتیں۔ ان ٹھیکیداروں کے ٹینڈر بھی سومنات کے قدموں میں بیٹھنے والوں ہی کے ہوتے ہیں۔

افسوس تو یہ ہے کہ اب یہ بت پرستی اتنی عام ہو گئی ہے کہ ادبی اور ثقافتی ادارے بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں ہیں۔ کبھی بھی سرکاری ادارے کو یا ان کو جنھیں سرکاری گرانٹ ملتی ہے۔ اوپر سے نیچے تک دیکھ لیں۔ حکومت بدلتے ہی ذاتی ملازموں کی طرح وزیر، مشیر، چیئرمین، ڈائریکٹر اور دیگر اہل کار بھرتی کیے جاتے ہیں۔ پھر یہ زرخرید غلام اپنی شرائط اور پسند کے مطابق سامان تعیش بھی خرید لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس کی عنایتوں سے انھیں کسی ادارے کی سربراہی ملی ہے۔ ہر حال میں اس سومنات کو خوش رکھنا ضروری ہے۔ سو وہ محفلیں سجاتے ہیں، دنیائے ادب و ثقافت کا بے تاج بادشاہ یا ملکہ قرار دیتے ہیں اور اپنا عہدہ پکا کر لیتے ہیں۔ انھیں بس اتنا یاد رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ:

یہاں تو ہر چیز بکتی ہے
بولو جی تم کیا کیا خریدو گے

وطن سے محبت کرنے والوں اور پاکستان کو کرپٹ اور لٹیرے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پاک کرنے کے خواہشمند اب جاگ بھی گئے ہیں اور جان بھی گئے ہیں کہ ان کا اصل دشمن کون ہے؟ اور ان سے نجات کے لیے انھیں کس طرح متحد ہو کر آگے آنا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کی بدولت اتنا تو ہوا کہ اقتدار کے نشے میں مست سومناتوں اور ان کے پالتو غلاموں میں کھلبلی مچ گئی۔ اقتدار جاتا دکھائی دے تو بیٹا باپ کو ثمن برج میں قید کروا دیتا ہے۔

باپ بیٹے کی آنکھوں میں سلائی پھروا دیتا ہے۔ تو پھر غلاموں کی اوقات کیا ہے؟ خواہ عمران خان کو اقتدار ملے یا نہ ملے، طاہر القادری واپس کینیڈا بھی چلے جائیں تو کوئی بات نہیں۔ انھوں نے گھاٹے کا سودا جان بوجھ کر کیا تھا۔ ان دونوں کا یہی احسان کیا کم ہے کہ پوری قوم کرپٹ حکمرانوں کے خلاف متحد ہو گئی ہے۔

انھوں نے ڈرے سہمے محلات میں بند بچہ جمورا اور اس کے نچانے والوں کے ساتھ ساتھ ڈکٹیٹر سے ڈیل کر کے محلات شاہی میں پرتعیش زندگی گزارنے، اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں اور پاکستان کو اپنی خاندانی کمپنی بنانے والوں کے خلاف پرچم بلند کیا ہے۔ لیکن مسلکی عقائد کی بنا پر ایک عرب ملک ان کے پیچھے کھڑا ہو کر امریکا کو خبردار کر رہا ہے کہ اگر وہ گئے تو ہم تمہیں تیل دینا بند کر دینگے لیکن کب تک؟

میں نے کہا نا کہ اقتدار، طاقت، عہدے، جاگیریں، مدت ملازمت میں توسیع، پلی بارگیننگ اور B.M.W جیسی پرکشش مراعات کے مقابلے میں بھلا وطن کی مٹی کی کیا قیمت ہے۔ پیسہ ہو تو وطن کہیں بھی بن سکتا ہے سومنات کب تک اپنے اندر چھپا کر رکھے گئے زر و مال کی بدولت ہر طاقت ور شخص کو خریدتا رہے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔