غلامی کی زندگی بسر کرنے والے افراد میں بھارت پہلے اورپاکستان تیسرے نمبر پرہے سروے

دنیا بھر میں ساڑھے 3 کروڑ سے زائد افراد غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں،سروے


ویب ڈیسک November 17, 2014
پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں،سروے رپورٹ فوٹو فائل

زمانہ ماضی میں مجبور انسانوں کو غلام بنائے جانے کی رسم نے اس جدید دور میں بھی اپنے قدم جما رکھے ہیں اور حال ہی میں کئے گئے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ساڑھے 3 کروڑ سے زائد افراد غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھارت پہلے، چین دوسرے اور پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔

آسٹریلیا میں قائم تنظیم واک فری فاؤنڈیشن نے غلامی کی جدید اقسام میں موجودگی کے حوالے سے 162 ممالک کی درجہ بندی کے بارے میں اپنی پہلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 3 کروڑ 60 لاکھ افراد آج کے اس جدید دور میں بھی غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، گروپ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کےانڈیکس کے مطابق بھارت میں سب سے زیادہ افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جو عام انسانوں کو حاصل ہونے والے حقوق اور وسائل سے محروم ہیں اور اپنے آقاؤں کے رحم وکرم پر زندگی کی سانسیں پوری کر رہے ہیں۔ بھارت میں ایک کروڑ 42 لاکھ 85 ہزار700 افراد غلام ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا 1.1 فیصد بنتا ہے جب کہ غلاموں جیسی زندگی بسرکرنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے بھارت کا پانچواں نمبر ہے۔

پاکستان بھی کسی طرح بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک سے پیچھے نہیں اور اپنی آبادی کے لحاظ سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہےجبکہ دنیا کی کل آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر چھٹا ہے ۔ سروے کے مطابق پاکستان میں اکثرلوگ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے انڈسٹریز میں غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں یہاں ان کی نسلیں مل مالکان کی غلامی میں اپنی زندگی گزار دیتی ہیں۔ صوبہ پنجاب اور سندھ میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، زراعت اور قالین سازی کے کاروبار سے وابستہ اکثرمزدور غلامانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق صرف انیٹوں کئے کے بھٹوں پر 45 لاکھ سے زیادہ افراد غلامی کی طرز پر مزدوری کرتے ہیں اور اینٹوں کی یہ بھٹیاں پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرتی ہیں جب کہ صرف پنجاب میں 10 ہزار 500بھٹےایسے بھی ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں۔ پاکستان انسانی حقوق کےادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ اور پنجاب میں مزدورں اور ان کے خاندان کے اکثر افرادکو گن پوائنٹ پر قید رکھا جاتا ہے، یہ مزدور کم تنخواہوں کے باعث اپنے مالکان سے قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں اور معذوری یا موت کی صورت میں اپنے بچوں کو مزدوری پر لگادیتے ہیں تاکہ وہ یہ قرض اتاریں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں 38 لاکھ بچوں کی عمریں 5 سال سے 14 سال کے درمیان ہے، زیادہ تر بچے، اینٹوں کے بھٹوں، کھیٹی باڑی، گھریلو ملازم، آٹو ورکشاپس، قالین سازی اور جنسی کاروبار جیسے گھناؤنے جرم کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ گزشتہ 3 سالوں کے دوران گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کے 41 کیسز سامنے آئے جن میں 34 لڑکیوں کے خلاف تھے جب کہ تشدد کے ان واقعات میں 19 بچیاں زندگی کی بازی ہار گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2 کروڑ 10 لاکھ افراد جبری مشقت پر مجبور کئے جاتے ہیں، گروپ کا کہنا ہے کہ افریقا جبری مشقت اور غلامانہ طرز زندگی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والا براعظم ہے۔ اسی لیے ماریطانیہ غلاموں کی آبادی میں فیصد کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ کانگو، سوڈان اور جمہوریہ وسطی افریقی ممالک بھی پہلے دس نمبروں میں شامل ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں