’’زرخرید ایجنٹ‘‘

تنویر قیصر شاہد  منگل 18 نومبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جناب نذر عباس وطنِ عزیز کے معروف سفارت کار رہے ہیں۔ 70ء کے عشرے کے آغاز میں، انھیں ترکی میں پاکستانی سفارتخانے کا ایک اہم رکن بنا کر بھیجا گیا۔ یہ ان کی پہلی غیر ملکی پوسٹنگ تھی۔ حال ہی میں ان کی انگریزی میں تحریر کردہ یادداشتیں شایع ہوئی ہیں جو انتہائی دلچسپ بھی ہیں اور جن کے مطالعہ سے نوجوان سفارتکار بہت سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔

جمہوریہ ترکی اور ترکوں کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے نذر عباس لکھتے ہیں: ’’ایک روز مَیں نے اپنے چند قریبی اور معتمد ترک دوستوں کے سامنے ایک سوال رکھا: ہم اور آپ ہمسایہ بھی نہیں ہیں۔ ہم مذہب کے حد سے زیادہ عاشق جب کہ آپ مذہب کو بس مناسب سا ہی مقام دیتے ہیں۔ ہماری سرحدیں بھی مشترکہ نہیں۔ ہم دونوں اقوام ایک دوسرے کی زبانیں بھی نہیں جانتے۔ اس کے باوجود ترک ہمیں اتنی محبت و اکرام سے کیوں نوازتے ہیں؟ میرا سوال سن کر وہ زور سے ہنسے اور کہا کہ شکر کرو ہم تمہارے ہمسایہ نہیں ہیں وگر نہ سرحدی تنازعے شروع ہوجاتے۔

پھر وہ سنجیدگی سے کہنے لگے: ترکی کی جنگِ آزادی کے سخت اور صبر آزما دنوں میں (یعنی 47ء سے قبل) متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی بہت سی مالی مشکلات کے باوجود چندے کی شکل میں بہت سی رقوم ہمیں بھیجیں تاکہ ہم جنگ کے اخراجات پورے کرسکیں۔ اسلامیانِ ہند کی مسلمان خواتین نے اپنے قیمتی زیورات فروخت کرکے ہمارے لیے چندہ اکٹھا کیا۔ یہ ایسا عظیم احسان تھا کہ آج تک سارا ترکی اس کے نیچے دبا ہوا ہے۔ ہر ترک باشندہ اس احسان سے آگاہ اور آشنا ہے، احسان شناسی کا یہ جذبہ ہمیں نسل در نسل منتقل ہوا ہے جسے ہم فراموش نہیں کرسکتے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کو انھی اسلامیانِ ہند کی آل اولاد سمجھ کر ان کا دل سے احترام و اکرام کرتے ہیں۔‘‘ نذر عباس صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ترکی کا ایک معروف سرکاری بینک اسی خطیر چندے کی رقم سے بنایا گیا تھا جو تشکیلِ پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے ترکی کی خدمت میں بھیجا تھا۔

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ترکی کے بابائے قوم مصطفیٰ کمال پا شاعرف اتاترک سے تو ہمارے قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ بہت پیار کرتے تھے۔ جناح صاحب اپنے نئے ملک اور آزاد قوم کی تربیت انھی خطوط پر کرنا چاہتے تھے جن خطوط پر اتاترک نے اپنی آزاد منش قوم کو استوار کیا تھا لیکن بیماری نے قائداعظم کو وقت ہی نہ دیا۔ شاید اسی لیے ہم آج تک منزل کی طرف بڑھنے کے لیے ٹامک ٹوٹیاں مار رہے ہیں۔ اگر پاکستانیوں کے دلوں میں غازی مصطفی کمال پاشا کی بے پناہ عزت ہے تو ترک باشندے بھی ہمارے قائداعظم کا بے حد احترام کرتے ہیں۔

نذر عباس صاحب اس سلسلے میں اپنا ایک ذاتی مشاہدہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’ہمیں ایک بار پاکستانی سفارتخانے کے تمام افسروں کو چند ترک افسر سمندر کے سیر کرانے لے گئے۔ سیر کے دوران مَیں کپتان کے کمرے میں چلا گیا۔ یہ دیکھ کر خوشگوار اور دلکشا حیرت ہوئی کہ وہاں ایک نمایاں دیوار پر اتاترک اور قائداعظم دونوں عظیم رہنمائوں کی ایک سائز کی شاندار پورٹریٹ آویزاں کی گئی ہیں۔ مجھے جہاز کے کپتان نے بتا کر مزید حیران کردیا کہ قائداعظم کی یہ فوٹو صرف آج آپ لوگوں کے لیے خصوصی طور پر نہیں سجائی گئی بلکہ یہ ہمارے ہر جہاز کی زینت ہے۔‘‘

جناح کی طرح علامہ اقبال بھی مصطفی کمال اتاترک سے بے حد متاثر تھے۔ ایران اور افغانستان نے ایک دور میں اتاترک کے دیے گئے نظام حکومت کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اتاترک کی عظمت، عزیمت اور ان کے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں پر اثرات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کے لیے ایم نعیم قریشی صاحب نے حال ہی میں اپنی ایک کتاب بعنوان Ottoman  Turkey,  Attaturk  and  Muslim  South  Asia شایع کی ہے۔

ابھی میں نذر عباس صاحب کی تحریر کردہ یادوں اور یادداشتوں کے سحر میں تھا کہ میری نظروں سے ایک اردو معاصر میں شایع ہونے والا ایک مضمون گزرا ہے جسے اسلام آباد میں مقیم ایک مولوی صاحب نے تحریر کیا ہے۔ آنجناب نے لکھا ہے: ’’پھر ترک خلافت کے خاتمے کے لیے ایک زرخرید ایجنٹ مصطفی کمال پاشا کو (مغربی ممالک کی طرف سے) استعمال کیا گیا۔‘‘ یہ الفاظ پڑھ کر دل دکھ گیا۔ ہم کن ہوائوں میں ہیں؟ کیا ترک باشندے یہ بات قبول کریں گے کہ ان کے بابائے قوم کو پاکستان کے ایک اخبار میں ’’زرخرید ایجنٹ‘‘ کے نام سے یاد کیا جائے؟ کیا ہم یہ برداشت کریں گے کہ ترکی کا کوئی اخبار اور مضمون نگار ہمارے قائداعظم محمد علی جناح کو ’’زرخرید ایجنٹ‘‘ لکھے اور کہے؟ ہمارا سفارتخانہ ضرور اس پر احتجاج کرے گا اور اسے کرنا بھی چاہیے۔

حیرت ہے کہ مذکورہ مولوی صاحب کو ترک خلافت کے خاتمے میں مصطفی کمال پاشا پر الزامات اور تہمتیں لگانا تو یاد رہ گئیں لیکن انھیں وہ عرب یاد نہیں رہے جنہوں نے ترک خلافت اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرکے اپنی بادشاہتیں اور امارتیں قائم کرلیں، جنہوں نے برطانیہ کے دو عیسائی جاسوسوں (لارنس آف عریبیا اور جان فلبی) کی زیرِ قیادت ترک سلطنت کے خلاف مسلح بغاوت کی، عثمانی خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور پھر عراق اور اردن سے لے کر حجاز کے صحراؤں تک اپنی اپنی خاندانی بادشاہتوں کا اعلان کردیا۔

غازی مصطفی کمال پاشا اتاترک تو ایسے رہنما تھے جنہوں نے کئی مغربی مسیحی ممالک کی متحدہ دشمنی اور یلغار کا اکیلے ہی مقابلہ کیا اور تنِ تنہا میدانِ جنگ میں اتحادی فوجوں کو شرمناک شکست سے دوچار کرکے نہ صرف اپنا ملک بچایا اور اپنے عوام کو ہمیشہ کے لیے مسیحیوں کی غلامی سے محفوظ کردیا بلکہ فاتح کی حیثیت سے ایک آزاد اور غیرت مند جمہوری ملک کی بنیادیں بھی رکھیں۔ یہ ملک آج اپنے وجود کے تحفظ کے لیے امریکی اور برطانوی فوجوں کا محتاج نہیں ہے۔ جسے ’’زرخرید ایجنٹ‘‘ کہا گیا ہے، اس نے تو اپنے خون سے اپنے ملک کو مضبوط کیا اور ایک نااہل خلیفہ کی گرفت سے بھی نجات حاصل کرلی۔

آج اس کا ملک دنیا کے بہترین ممالک میں سے ایک ہے اور اس کی فوج کو امریکا بھی دھمکانے کی کوشش نہیں کرتا۔ بیسویں صدی عیسوی کے جس ترک خلیفہ صاحب کی محبت میں اتاترک کو ’’زرخرید ایجنٹ‘‘ کہا گیا ہے، اس کے خلیفہ صاحب کے لاتعداد ’’کمزور لمحوں‘‘ کا احوال جاننا ہوتو ان مولوی صاحب کو چند ہفتے قبل ہی شایع ہونے والی معرکہ آرا کتاب ’’اتاترک: قوم اور جمہوریہ کا ظہور‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگر انھیں یہ کتاب اسلام آباد سے نہ ملے تو وہ ’’جمہوری پبلی کیشنز، 2۔ ایوانِ تجارت، لاہور‘‘ کو خط لکھ کر منگوا سکتے ہیں۔

اتاترک مرحوم و مغفور، جو دنیا بھر میں صحیح تر معنوں میں غازی کہلائے جانے کے مستحق ہیں، کے بارے میں پھیلائی گئی غلط داستانوں کا خاتمہ کرنے اور مصطفی کمال کے زرخرید مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے ہی تو اس کتاب کے پبلشر (جناب فرخ سہیل گویندی) نے عرق ریزی، محنت اور ترکوں سے اپنی محبت کا کشٹ کاٹا ہے۔ مصطفی کمال پاشا دینِ اسلام سے محبت کرنے والے عظیم مسلمان تھے۔ اس حوالے سے ’’ اتاترک: قوم اور جمہوریہ کا ظہور‘‘ میں (صفحہ 932پر) ایک نہایت ایمان افروز واقعہ لکھا گیا ہے۔

اتاترک نے آخری ترک خلیفہ کو سوئٹزر لینڈ روانہ کرنے کے بعد آنے والے جمعۃ المبارک میں آیا صوفیہ میں ہزاروں مسلمانوں سے  خطاب کرتے ہوئے اللہ پاک سے یوں دعا مانگی: ’’اے اللہ، ہماری جمہوری حکومت اور مسلمان قوم کی مدد فرما۔ باری تعالیٰ، مسلمانوں کی شان و شوکت میں اضافہ فرمائیے اور اسلام کے پرچم کو تمام پرچموں میں بلند تر کردیجیے جو جمہوریہ ترکیہ پر سایہ فگن ہے اور ان مسلمانوں کو (اللہ کے آخری) نبیؐ کی زندہ مثال پر اپنی زندگیاں بسر کرنے کی توفیق فرما دیجیے۔‘‘ غازی مصطفی کمال پاشا عرف اتاترک کی یہ دلکشا دعا ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتے ہوئے کہتے رہتے ہیں کہ اتاترک دین بے زار تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔