اردو کے اہم ادبی رسائل وجرائد کی مختصر تاریخ

خرم سہیل  منگل 18 نومبر 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت شایع ہونے والی کتاب ’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘ کے مصنف ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں۔ ’’اردو کے قدیم ادبی رسائل کے آثار اب دستیاب نہیں۔ 1857 سے ما قبل ادبی جریدہ نگاری کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں اس کی کوئی واضح جہت نظر نہیں آتی۔ ابتدا میں ہفتہ وار اخبارات ہی کو ادبی مضامین اور شعری تخلیقات کی اشاعت کے لیے استعمال کرلیا جاتا تھا۔ انیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں فروغ ادب کی ایک موثر صورت ’’گل دستہ‘‘ کی اشاعت اور ترویج تھی۔ اس قسم کا پہلا ’’گل دستہ‘‘ جاری کرنے کا سہرا مولوی کریم الدین پانی پتی کے سر ہے، جنھوں نے ’’گل رعنا‘‘ نکالا۔‘‘

1857 کی جنگ آزادی کے بعد اہم اخبارات اوررسائل وجرائد، جنھوں نے ادبی خدمات انجام دیں، ان میں اودھ اخبار، اودھ پنچ، تہذیب الاخلاق، انجمن، حسن، افسر اور کئی ادبی گلدستے سرفہرست تھے۔ انیسویں صدی میں تقریباً 50 ادبی وعلمی جرائد ایسے تھے، جن کا مطالعہ کرکے ہمیں اس صدی کی ادبی روایات سے واقفیت ہوتی ہے۔

بیسویں صدی میں تقسیم سے قبل جن ادبی جریدوں کے ناموں کی بہت گونج سنائی دیتی تھی، ان میں مخزن، زمانہ، اردوئے معلیٰ، زبان، عصمت، ہمدرد، الناظر، الہلال، علی گڑھ میگزین، ہمایوں، اردو، نگار، ادبی دنیا، نیرنگ خیال، عالمگیر، ساقی، شاعر، ادب لطیف، شاہکار، سب رس، آج کل، کتاب، افکار، نیا دور نمایاں تھے۔ اس دور میں ادبی رسائل وجرائد کی مجموعی تعداد تقریباً 70 تھی۔ ان میں سے کئی رسالے تقسیم کے بعد بھی جاری رہے۔ آزادی کے برس یعنی 1947 میں بھی چند نئے ادبی جرائد کا اجرا ہوا، جن کے نام سحر، فانوس، کائنات، چراغ راہ اور سویرا ایسے رسائل تھے جنھوں نے نئے ملک کی تخلیق کے ساتھ ہی اپنا تخلیقی سفر بھی شروع کیا اور ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کی۔

دوحہ اور دہلی سے شایع ہونے والے ’’مجلہ دستاویز‘‘ کی خصوصی اشاعت ’’اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد نمبر‘‘ کے مطابق ’’بیسویں صدی کے اختتام تک بھارت کے چند اہم ادبی جریدوں میں شاہراہ، تحریک، نیادور، سوغات اور شب خون شامل تھے اور اب عہد حاضر میں دہلی سے تقریباً 25، ریاست مہاراشٹر سے 18، ریاست بہار سے 16، اترپردیش سے 12، آندھراپردیش سے 10، مغربی بنگال سے 5، مدھیہ پردیش سے 5، راجستھان سے 2، جھارکھنڈ سے2، اڑیسہ سے 3، تامل ناڈو سے 1، کشمیر سے 6، کرناٹک اور کیرالہ سے 5، ریاست گجرات سے 2، پنجاب سے 2، ریاست ہریانہ سے 2، ہماچل پردیش سے 1، چھتیس گڑھ سے 1 اور دیگر ریاستوں سے متفرق تعداد میں رسائل وجرائد شایع ہوتے ہیں۔‘‘

تقسیم کے بعد 1948 سے 1999 تک پاکستان میں شایع ہونے والے رسائل وجرائد کی بھی ایک طویل فہرست ہے، سب کا اندراج ممکن نہیں، البتہ چند اہم نوعیت کے جریدے، جنھوں نے ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا، ان میں چٹان، نقوش، قومی زبان، سنگ میل، اردو ادب، ماہ نو، نئی قدریں، انشاء، مہر نیم و روز، قند، لیل و نہار، صحیفہ، داستاں، شعور، نصرت، سات رنگ، قلم کار، اسلوب، فنون، سیپ، اوراق، تخلیق، الفاظ، پاکستانی ادب، غالب، احساس، معاصر، ادبیات، حروف، قرطاس، تلاش، آج، بادبان، مکالمہ، چہارسو، نقاط، اردونامہ، الحمرا، الاقربا، دنیائے ادب، ارتقا اور دیگر شامل ہیں۔

ڈاکٹر انور سدید کی کتاب ’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘ اس موضوع کو تفصیل سے پڑھنے کے لیے بہترین انتخاب ہوسکتی ہے۔ اسی تناظر میں دوحہ اور دہلی سے شایع ہونے والا ’’مجلہ دستاویز‘‘ کا ’’اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد نمبر‘‘ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ ڈاکٹر انور سدید کی تحقیق کا دائرہ 80 کی دہائی تک ہے۔ مجلہ دستاویز کی تحقیق 2011 تک محدود ہے، پھر اس مجلے میں پاکستان کے بہت سے اہم جرائد کا ذکر بھی نہیں ہے، البتہ مجموعی حیثیت میں یہ نمبر اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’’تاریخ ادب اردو‘‘ اور ڈاکٹر سلیم اختر کی ’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘ میں بھی ادبی رسائل وجرائد کا برائے نام ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح مختلف اوقات میں چھپنے والے مضامین میں کبھی کبھار ادبی جرائد کا مختصراً ذکر پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ یہ عنوان ایک سنجیدہ اور تفصیلی تحقیق کا متقاضی ہے، جس کا کم ازکم یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔ ادب کے سنجیدہ طالب علموں کو اس موضوع پر طبع آزمائی کرنی چاہیے، یہ انتہائی دلچسپ تحقیق ثابت ہوگی۔

اکیسویں صدی سے پاکستان میں ادبی جرائد کے تناظر میں ایک نیا عہد شروع ہوتا ہے۔ 2000 سے لے کر 2014 تک متعدد نئے ادبی رسالے شایع ہوئے اور کئی اشاعت کے کچھ عرصے بعد چھپنا بند بھی ہوگئے۔ اس عرصے میں پاکستان کے مختلف شہروں سے شایع ہونے والے چند نمایاں رسائل وجرائد میں کراچی سے دنیازاد، روشنائی، جوش شناسی، زرنگار، اجرا، اسالیب، کولاژ، اجمال، رنگ ادب، لاہور سے نمود حرف، لوح، گجرات سے تناظر، فیصل آباد سے نقاط، ملتان سے پیلھوں، پشاور سے احساس، کوئٹہ سے سنگت، قلم قبیلہ وہ ادبی رسالے ہیں، جو باقاعدگی سے شایع ہو رہے ہیں اور انھیں ادبی دنیا میں مقبولیت حاصل ہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ادبی رسائل وجرائد کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، یہ الگ بات ہے کہ سوائے چند اخبارات کے سب نے ادبی صفحات کو فراموش کردیا۔ اس تمام صورت حال کے باوجود ادبی رسائل و جرائد کا شایع ہونا غنیمت ہے۔

2000 سے پہلے جن ادبی رسالوں کی اشاعت ہوئی، ان میں کئی تو ایسے ہیں جن کی اشاعتی عمر کا عرصہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے، مگر یہ بھی اب تک باقاعدگی سے شایع ہو رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے جن رسائل کی اشاعت جاری تھی اور بعد میں چھپتے رہے، ان میں اردو، ہمایوں، نگار، عالمگیر، نیرنگ خیال، ساقی، ادب لطیف، شاہکار، کتاب، نظام، افکار، سویرا، نیا دور اور عصمت جیسے رسائل شامل ہیں۔

ان کے علاوہ مختلف ادوار میں جن رسالوں نے ادبی خدمات کی ابتدا کی اور وہ ابھی تک کامیابی سے اشاعت پذیر ہی نہیں بلکہ مقبول بھی ہیں، ان میں فنون، قومی زبان، سیپ، ادبیات، قرطاس، آج، چہار سو اور دنیائے ادب شامل ہیں۔ کچھ ایسے بھی ادبی رسالے ہیں، جنھوں نے ادب کے اس تخلیقی سفر میں اپنا حصہ ڈالا، مگر وہ ایک عرصے کے بعد اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکے، ان میں سرفہرست نقوش ہے، جس کے پرانے شمارے آج بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ادبی رسائل میں قند، آرٹس انٹرنیشنل، کلاسک سندھ اور سخن زار جیسے رسالے شامل ہیں، جنھوں نے آغاز بہت اچھا کیا تھا، مگر اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکے۔

خالص ادبی رسائل وجرائد کے علاوہ مختلف جامعات کے رسالوں نے بھی ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا، مختلف ادوار میں ایسے رسالوں کی اشاعت جاری رہی، جن میں تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ دیا گیا، ان میں گورنمنٹ کالج لاہور سے راوی، اردو کالج کراچی سے برگ گل، مرے کالج سیالکوٹ سے مشعل راہ، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے مہک، بہاؤالدین یونیورسٹی سے یونیورسٹی میگزین، گورنمنٹ انٹرکالج بہاولپور سے مطلع نو، گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے بیکن، گورنمنٹ کالج سرگودھا سے نوید صبح، جامعہ سندھ حیدرآباد سے صریر نامہ، جامعہ پشاور سے یونیورسٹی جرنل، اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں سے شایع ہونے والے علمی مجلے شامل ہیں۔

ہر دور میں شایع ہونے والے ادبی رسائل وجرائد نے صرف قارئین کے ادبی ذوق ہی کی تسکین نہیں کی، بلکہ تحقیق کے طالب علموں کے لیے راستہ ہموار کیا اور تنقید کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ تنقید نگار ادیب اور تخلیق دونوں کے قدوقامت کا جائزہ لیتے تھے، تخلیقی محاکمے کے ذریعے قارئین کو یہ بتایا کرتے تھے کہ کس تخلیق کی گہرائی کیا ہے اور اگر کسی کام پر تنقید کرنی ہے، تو اس کی نوعیت کیا ہونی چاہیے اور دوسرے معنوں میں اخلاقیات کیا ہونی چاہئیں۔

عہد حاضر میں تو کسی کتاب یا ادیب پر تنقیدی پہلو سے کچھ لکھ دیا جائے تو وہ اسے اپنی ذات پر حملہ سمجھ بیٹھتا ہے، کم ازکم ادبی جرائد نے تربیت کی ایک ایسی فضا قائم کی تھی، جس میں صاحب کتاب اور قارئین دونوں کو اپنی حدود اور دوسرے کے حقوق کے متعلق معلومات تھیں، آج کے دور میں یہ کمی موجودہ ادبی رسائل پوری نہیں کر پا رہے، اگر کسی جریدے نے ہمت کرکے تنقیدی پہلوئوں کو نمایاں کیا تو لوگوں نے اسے مقدمہ بازی میں الجھادیا۔ یہ افسوسناک رویہ ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر معاشرہ جس طرح سفاکی کا شکار ہورہا ہے، ہمیں سچے ادب اور ادیبوں کی بے حد ضرورت ہے، جن کی تحریریں نہ صرف معاشرے کی عکاس ہوں، بلکہ قلوب میں شعور کی روشنی کو بھی بڑھا سکیں۔ عہدحاضر میں جو بھی حضرات رسائل وجرائد کی اشاعت کو ممکن بنائے ہوئے ہیں، ان کے حوصلے کی داد دینی چاہیے۔ سیپ کے مدیر نسیم درانی نے ایکسپریس کے لیے اقبال خورشید کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’یہ گھر پھونک تماشا دیکھ والا معاملہ ہے۔‘‘ اس کے باوجود ادبی رسائل وجرائد کے تمام مدیران جنھوں نے اس اعلیٰ ادبی روایت کی وراثت کو قائم رکھا ہوا ہے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔