سلامتی کیلیے خطرہ نہ بننے والے شدت پسند کو کیوں نشانہ بنائیں سرتاج عزیز

آپریشن ضرب عضب سے قبل جوبھاگ گئے،وہ بھاگ گئے، حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کاحصہ ہے، افغانستان ان سے خود مذاکرات کرے


ویب ڈیسک November 18, 2014
پاکستان نے امریکا کیخلاف حملے کرنے والوں کی صلاحیت اور انفرااسٹرکچر ختم کیا، افغان طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے، بی بی سی سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم کے مشیربرائے قومی سلامتی اورخارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان ان شدت پسندوں کو کیوںنشانہ بنائے جوپاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ جو امریکاکے دشمن ہیں وہ خوامخواہ ہمارے دشمن ہو گئے؟ جب امریکانے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ تمام لوگ جن کو ہم نے مل کرمسلح کیا اورتربیت دی تھی، انھیں ہماری طرف دھکیل دیا گیا۔ ان میں سے کچھ ہمارے لیے خطرہ ہیں اورکچھ نہیں ہیں۔ توہم سب کوکیوں دشمن بنائیں؟۔ انہوں نے کہا کہ امریکااور پاکستان کے درمیان تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن ضرب عضب کسی گروہ کے درمیان تفریق نہیں کر رہا تاہم امریکااس سلسلے میں پاکستان کے عزم پر سوالیہ نشان اٹھاتا رہا ہے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستانی سرزمین سے امریکاکے خلاف حملے کرنے والے شدت پسند گروہوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے پاکستان نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور ان کی صلاحیت اور انفرااسٹرکچر کو ختم کردیا ہے۔ جہاں تک ان تنظیموں اور گروہوں کی قیادت کی بات ہے تو آپریشن سے قبل جو بھاگ گئے، وہ بھاگ گئے جو رہ گئے ان سب کے خلاف کارروائی کی ہے جبکہ افغان طالبان افغانستان کا مسئلہ ہیں اور حقانی نیٹ ورک انھی کا حصہ ہی، افغان حکومت کا کام ہے کہ وہ ان سے مذاکرات کر، ہم اپنی طرف سے افغان طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن جو نوے کی دہائی کے تعلقات تھے وہ اب نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی کمی نہیں ہے، گزشتہ سال امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری پاکستان آئے پھر وزیرِاعظم نواز شریف نے صدر اوباما سے امریکا میں ملاقات کی اور پھر جنوری میں اسٹریٹجک ڈائیلاگ کو بحال کیا جو 2010سے تعطل کا شکار تھا۔

مشیر برائے امور خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کے پہلے دورے کے موقع پر اصولی فیصلہ ہوگیا ہے کہ دہشت گردی کے لیے پاکستان اپنی سرزمین استعمال ہونے دے گا نہ افغانستان۔ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی موجودگی کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی تاہم اس میں کتنا وقت لگتا ہے اور وہ کتنے کامیاب ہوتے ہیں، یہ دیکھا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں