(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - گورے رنگ کا زمانہ

حاجرہ افتخار  منگل 18 نومبر 2014
مانا کہ اچھا لگنا ہر انسان کا حق ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم دوسروں کو احساس کمتری کا شکار کردیں۔ فوٹو فائل

مانا کہ اچھا لگنا ہر انسان کا حق ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم دوسروں کو احساس کمتری کا شکار کردیں۔ فوٹو فائل

خوبصورت کون ہے؟ کیا آپ خوبصورتی کی علامت جانتے ہیں یا پھر آپ بھی معاشرے کے باقی لوگوں کی طرح گورے رنگ کو ہی خوبصورتی سمجھتے ہیں ؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ اس معاشرے کی نظر میں نارمل ہیں، کیونکہ اگر ہم آج کل ٹی وی پر اشتہارات دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کا رنگ گورا نہیں ہے تو وہ بالکل بے مصرف ہے۔ نا تو اسے اچھی نوکری ملے گی اور نا ہی اس کی شادی کسی اچھی جگہ ہو سکتی ہے۔

رنگ روپ کے فرق کی اصل وجہ جغرافیائی خطہ ہے، ہمارے خطے میں بسنے والے بیشتر افراد کا رنگ یا تو گندمی ہے یا سانولا ہے، پھرنجانے کیوں یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی پراڈکٹس بیچنے کے لئے اس قسم کے اشتہارات بناتی ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے کم رنگ کی وجہ سے کوئی ان کے پاس نہیں آنا چاہتا، پھر اچانک ایک ’’گوری رنگت والا لڑکا یا لڑکی ‘‘ آتے ہیں اور انہیں اپنی کمپنی کی مہنگی پراڈکٹ خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں جس کو لگاتے ہی کامیابی ان کے قدم چومنے لگتی ہے ۔ ارے واہ کیا راز ہے کامیابی کا، اور تو اور لوگوں کی محبت اور خاص توجہ بھی صرف ایک کریم کی دوری پر ہے ۔

صرف ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی نہیں جناب اس فہرست میں تو ہمارے حکیم اور ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ پڑھ لکھ کر جدید سائنسی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی یہ لوگوں کو خوبصورت سے خوبصورت تر ہونے کے مشورے دیتے ہیں۔ کیبل پر ان کے چلنے والے اشتہارات میں پاکستانی رنگ و روپ کے مسائل کو غیر ملکی چہروں سے ایسے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والا ان کی بات سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔

حیرت اس بات کی ہے ڈاکڑ اور حکیم دونوں ہی یہ بات ایک عام انسان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ گورا رنگ ،اونچا قد یا کوئی اور جسمانی خوبصورتی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ پیدائش سے قبل ہمارا ڈی این اے تیار ہوتا ہے جس میں تمام تر معلومات لکھ دی جاتی ہیں اور پھر ہمارے ہاتھ میں کیا ہے یہ تو اس خالق کی مرضی ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو کس سانچے میں ڈھالتا ہے، لیکن افسوس یہ بات جاننے کے لئے ہمارے پاس وقت ہی کہاں ہے، ہمارے ذہنوں میں تو ’’گوری رنگت والی خوبصورتی‘‘ کا کیڑا گھسا ہوا ہے جو نا ہمیں چین سے جینے دے گا اور نا ہی مرنے۔

شاید قصور ان سب کا بھی نہیں ہے، لوگوں کی سوچ نے ہی انہیں موقع دیا ہے ورنہ انہیں کیا مصیبت پڑی ہے لوگوں کے ذہنوں سے کھلینے کی ۔ ہزاروں سالوں سے چلی آرہی اس سوچ کواب بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ نا تو خوبصورتی گورے رنگ میں ہے اور نا ہی بدقسمتی کالی رنگت والے کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ یہ تو انسان کی تفریق ہے ورنہ اصل خوبصورتی تو انسان کے کردار میں ہے اس کی سوچ میں ہے اس کی عادات میں ہے لیکن ان لوگوں کو کون سمجھائے جو محض دوسروں کو ان کی شکل و صورت کی وجہ سے کبھی کالا، کالی، کالن، کلن اور کالو جیسے نام دے دیتے ہیں۔ یہ نام نا صرف ان لوگوں میں احساس کمتری پیدا کرتے بلکہ دوسروں کے لئے ان کے دلوں میں نفرت کی چنگاری بھی جلا دیتے ہیں۔

 اکثر اوقات بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اچھی جگہ نوکری اور شادی کے لئے رشتوں سے صرف اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کا رنگ اتنا صاف نہیں ہوتا۔ زمانے کی باتوں سے بچنے کے لئے یہ لوگ مختلف کریموں اور ٹوٹکوں کا استعمال شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے جلد کی مختلف بیماریاں شروع ہو جاتی ہیں، ساتھ ساتھ اچھا خاصا چہرہ بھی بگڑ جاتا ہے۔

مانا کہ اچھا لگنا ہر انسان کا حق ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم دوسروں کو احساس کمتری کا شکار کردیں۔ اگر ہمارے کہے ایک لفظ سے بھی کسی کی دل آزاری ہوئی تو ہم خدا کی بارگاہ میں کیا جواب دیں گے کہ ہم نے اس کی تخلیق کو ذلیل کیا؟ جس کا رنگ کالا ہے وہ بھی انسان ہے اور اسے بھی زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔ ہمیں اب اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ اصل خوبصورتی آپ کے اندر چھپنے کردار و گفتار میں ہے۔ شرمندہ انہیں ہونا چاہیے جن کو اس تمیز کا علم نہیں نا کہ وہ جو کردار میں بہتر ہے مگر اس کا رنگ کالا ہے !

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

حاجرہ افتخار

حاجرہ افتخار

بی ایس ماس کمیونیکیشن کی طالبِ علم ہیں۔ لکھنا، پڑھنا اور ریسرچ کرنا ان کا شوق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔