- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
(خیالی پلاؤ) - جب ساون برسنے لگا
یہ دوپہر کا ٹائم اور اسی دوپہر سے لیکر شام کا وقت اور ہو بہت گرمی کا موسم تو اسکا بیت جانا ہی بہت کھٹن ہوتا ہے۔ اس میں نہ صبح کے خوشگوار لمحات کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی شام جیسی رنگینی کا۔ خیر وقت تو وقت ہوتا ہے۔
بس شام کا وقت ہوتے ہی میں حسب معمول کھیتوں کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔ شام کو دیہاتی علاقے کی کسی خوبصورت وادی میں گزارا جائے تو شام کے وہ لمحے انتہائی پُرسکون لمحات سمجھے جاتے ہیں۔ بس اِسی پُرسکون لمحات سے لطف اندوز ہونے اوررنگین بنانے کے لئے میں روزانہ کھیتوں میں چلا جاتا ہوں جہاں ایک چھوٹی سی پہاڑی واقع ہے جہاں دوست احباب سے گپ شپ اوردیگر حوالوں سے اظہار خیال کا موقع مل جاتا ہے۔ گاؤں اور کھیتوں کے درمیان ایک چھوٹی سی ندی پڑتی ہے جو بسا اوقات طغیانی کی زد میں آکر کھیتوں اور آبادی کے درمیان فاصلے کا سبب بھی بن جاتی ہے لیکن یہ فاصلے وقتی ثابت ہو جاتے ہیں لیکن آج اسی ندی کے پتھریلی زمین سورج کی تپش سے شعلے برسا رہی تھی اور کسی بھی طغیانی کے لئے بیتاب تھی۔
اِس علاقے میں ٹیوب ویل کا تصور نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے زمیندار بارانی پانی سے اپنے کھیتوں کو سیراب کر لیتے ہیں۔ آج بھی انہی کھیتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے فصلوں پر نظر پڑی جنکے پتے سوکھے سوکھے دکھائی دے رہے تھے۔ پتوں کے سر جھکے ہوئے تھے جبکہ انکے خوشے بالکل مرجھائے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے پروردگار کے سامنے بدست دعا تھے کہ کب بارش کی بوندیں ان پر پڑیں اور وہ اپنے آپ کو تندرست و توانا محسوس کر سکیں اور انکی یہ تشنگی ختم ہو جائے۔ کہیں درختوں پر بیٹھے پرندے پیاس کی شدت سے چہچہانا ہی بھول چکے تھے اور انکی زبان سے عاجزی کے الفاظ سنائی دے رہے تھے اور تپتی ہوئی دھوپ انکی پریشانی میں مزید اضافہ کر رہی تھی تو کہیں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے درختوں کی شاخیں سجدیہ ریز ہوں اوراپنے رب کائنات سے رحمتیں برسنے کے آرزو مند ہوں جبکہ قریب ہی تھکا ہارا بیل بھی کسان کی دن بھر کرائی گئی محنت کے بعدتھک ہار کر زمین پر پڑا ہوا تھا ۔
میرا ذہن بھی آج عجیب و غریب تذبذب کا شکار تھا کہ نہ جانے رب کائنات کو ان بے زبانوں پر کب رحم آجائے اور اپنے رحمت کی بارش ان بے زبانوں پر برسا دے ۔ بس اِسی سوچ میں چلتے چلتے اپنی مجلس گاہ پہنچ چکا تھا۔ تو پہلے سے وہاں موجود دوستوں کی گرما گرم بحث چل رہی تھی ساتھ میں کیتلی میں دودھ پتی چائے تیار ی کے آخری مرحلے میں تھی۔
اِس دوران میں نے سوچا کہ جو کیفیت میں نے اپنے آنکھوں سے بے زبانوں کی حالت دیکھ لی تھی وہ حالات اپنے دوستوں سے بیان کروں لیکن خاموش رہا کہ کہیں مجلس میں بیٹھےمیرے دوست شاید میری اس منظر کشی کو میرا پاگل پن قرار نہ دیدیں ۔ چائے تیار ہو کر ہمارے سامنے پیش کی جا چکی تھی تو مجھے ہلکے پلکے بادل آسمان پر نمودار ہوتے دکھائی دیے بس چند ہی لمحوں میں گردبھری ہوا پہاڑیوں کی اوٹ سے نکل کر ہماری طرف اپنا رخ کر چکی تھی اور ہوا کا رخ دیکھتے ہی دیکھتے تمام دوست بھانپ گئے کہ ہوا کے پیچھے کوئی راز ہے جوں جوں ہوا نزدیک آتی جا رہی تھی ویسے ویسے بادل بھی آسمان کو اوڑھنے کا سامان مہیا کر رہے تھے اور بادل آسمان اور سورج کو ڈھانپ چکے تھے بس چند ہی لمحے گزرے تھے کہ ساون نے برسنا شروع کر دیا اور بارش اور ہوا کے درمیان زبردست کشمکش جاری تھی کہ ہوا بادلوں کو کہیں اور لے جانا چاہ رہی تھی لیکن بادل تھے کہ برسات انہی بے زبانوں پر برسانے کو اپنا مقصود سمجھ رہے تھے اور ساون ایسے جی بھر کر برسا جیسا ایک محبوب اپنے محبوبہ کی جدائی میں نڈھال ہو کر رو پڑا ہو۔ بس اِدھر بارش کا برسنا تھا اور پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا تھا جیسے صدیوں پہلے کے پیاسے کواپنی پیاس مٹانے کا موقع ملا ہواور درختوں پر جمی بارش کی بوندیں اب آہستہ آہستہ زمین پر پڑتی دکھائی دے رہیں تھی جبکہ زمین انکے گرتے ہی انہیں اپنی جھولی میں بھر لیتا اور اپنی پیاس کو موتی جیسے پانی سے بجھا دیتا۔ اِسی دوران فصلیں خوشی سے جھوم اور ناچ رہی تھیں جیسے وہ اپنے خدا کا شکر ادا کر رہی ہوں ۔
بس اِن مناظر کو دیکھنے کے بعد میں ایک چیز سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کائنات کے مالک نے کس جوش و ولولہ کے ساتھ اِن بے زبانوں کی دعاؤں کو پورا کیا اور جو کچھ مانگا گیا وہ فوری طور پر عطا کردیا گیا مگر دوسری طرف نہ جانے کتنے سالوں سے ہاتھ اٹھائے انسانوں کی دعائیں قبول نہیں ہو پارہی۔شاید اِس کی وجہ دعا کے پورا ہونے کے حوالے سےوہ یقین ہے جو اپنے رب پر کیا جاتا ہے کہ جو بھی مانگا جارہا ہے دینے والا اُس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔