ہمیں بھی تحقیق کی مشقت سے گزرنا چاہیے

نصرت جاوید  جمعـء 21 نومبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اخباری کالم بنیادی طور پر ’’انشائیہ‘‘کی ایک صورت ہے۔ اس صنف کو برطانیہ اور فرانس کے ان لکھنے والوں نے متعارف کروایا تھا جو اپنے خیالات کو شعر، افسانہ یا ڈرامے کی صورت پیش کرنے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتے تھے یا انھیں ان اصناف سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔

ان کی تحریروں کا اصل مقصد روزمرہّ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے پڑھنے والوں کو سماجی امور کے بارے میں کوئی ٹھوس رائے اپنانے کے لیے تیار کرنا ہوتا تھا۔ سادگی مگر پرکاری انشائیے کا اصل حسن ہے۔ اخباروں کے لیے کالم لکھنے والے یہی انداز اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُردو صحافت کے آغاز کے دنوں میں کالم اگرچہ طنز و مزاح تک مخصوص رہے۔ منٹو کا اہم تخلیقی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی حساس قوتِ مشاہدہ کی بدولت افسانہ نگاری کے ہنر کو اخبارات کے لیے سیاہ حاشیے لکھنے کے لیے استعمال کیا۔ ’’گنجے فرشتے‘‘ کے ذریعے ہوئی خاکہ نگاری کالم، مضمون اور کہانی کے لیے برتی تکنیک کا ایک اور لازوال امتزاج ہے۔

ہمارے ہاں سیاست چونکہ ضرورت سے زیادہ سماجی گفتگو کا موضوع رہتی ہے اس لیے اخباری کالم نگاروں کی اکثریت بھی اس موضوع پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہے۔ عباس اطہر صاحب کے حکم پر مجھے بھی کالم لکھنے کی جرأت ہوئی تو صرف اس وجہ سے کہ میں نے اپنی صحافتی عمر کا بیشتر حصہ سیاسی رپورٹنگ میں صرف کیا تھا۔ گزشتہ چند دنوں سے اگرچہ میں اپنی سیاست سے اُکتا چکا ہوں اور اکثر اِدھر اُدھر منہ مار کر گزارہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

سیاست کے علاوہ دوسرے موضوعات پر لکھتے ہوئے بھی مگر اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ میں ایک اخبار کے لیے لکھ رہا ہوں کسی علمی یا ادبی جریدے کے لیے تحقیقی مضمون نہیں۔ اور اخباری کالم میں کسی بھی موضوع کا بس سرسری انداز میں ذکر ہی کیا جا سکتا ہے۔ کسی کالم نگار کی ان مجبوریوں کو مگر آج کل کے انٹرنیٹ کی بدولت ’’دانشور‘‘ ہوئے لوگ سمجھ نہیں پاتے۔ ’’داعش‘‘ کے پاکستان میں ابھرنے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے میں نے جو کالم لکھا اس نے ایسے دانشوروں کو بلکہ قائل کر دیا کہ میں ایک جاہل مطلق شخص ہوں۔ مجھے خبر ہی نہیں کہ ایک سی آئی اے ہوتی ہے جس نے مسلم دُنیا کو شیعہ اور سنی کیمپوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ ان دانشوروں کے ذریعے مجھے پتہ یہ بھی چلا کہ ایک ملک ہوتا ہے ایران اور دوسرا سعودی عرب۔ ان دونوں کے درمیان مسلکی بنیادوں پر مسلم دُنیا اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک چپقلش جاری ہے اور یہ سی آئی اے کو اپنا مقصد حاصل کرنے میں کافی مدد فراہم کر رہی ہے۔ مجھے یہ سارا ’’علم‘‘ بخشے ہوئے انٹرنیٹ کی بدولت خود کو دانشور بنائے افراد کو جانے کیوں یاد ہی نہ رہا کہ مسلم دنیا میں شیعہ اور سنی والی تقسیم ان دنوں ہو چکی تھی جب ابھی امریکا دریافت ہی نہیں ہوا تھا۔ سی آئی اے تو اس سے بہت صدیوں کے بعد نمودار ہوئی تھی۔

انٹرنیٹ کی بدولت دانشور ہوئے لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہمارے کافی پڑھے لکھے اور اخباروں کے لیے جناتی زبان میں عالمی امور پر سنجیدہ کالم لکھنے والوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کی معلومات کا تمام تر انحصار مغربی دنیا کے اخبارات اور جرائد میں چھپے مضامین اور تجزیوں پر ہوتا ہے۔ مجھے آج تک کسی ایسے پاکستانی محقق سے ملنے کا شرف حاصل نہیں ہوا جس نے مثال کے طور پر صرف ایرانی امور کو پوری طرح سمجھنے کی خاطر پہلے فارسی زبان سیکھی ہو اور بعدازاں ایران کے متواتر دوروں کے بعد اپنی کوئی رائے بنائی ہو۔ ترکی اور سعودی عرب کے ضمن میں بھی ایسا خانہ بالکل خالی نظر آتا ہے۔ ہم غیروں کی محنت سے دریافت ہوئے خیالات کی محض غیر تخلیقی جگالی میں مصروف رہتے ہیں۔ ’’داعش‘‘ کے بارے میں ہماری لاعلمی اسی جگالی کا ایک اور مظہر ہے۔

’’مسلم اُمہّ‘‘ کے ٹوکرے میں اکٹھا کیے ممالک کے اپنے مقامی مسائل اور ہمسایوں سے تعلقات اور وہاں ابھرنے والے سماجی رویوں کے بارے میں اپنی لاعلمی کا شرمناک احساس مجھے 1994ء میں پہلی بار آذربائیجان میں دو راتیں اور تین دن گزارنے کے بعد ہوا۔ وہاں پہنچا تو دریافت ہوا کہ ہمارے لاہور میں کئی دہائیوں سے موجود قزلباش خاندان کا تعلق اس ملک سے تھا۔ تیل کی صنعتی بنیادوں پر مشرقِ وسطیٰ میں تلاش اور استعمال کا آغاز اسی ملک کے دارالحکومت باکو سے ہوا۔

’’آذری‘‘ بذاتِ خود اپنا ایک نسلی اور ثقافتی تشخص رکھتے ہیں مگر ایران اور ترکی آذربائیجان کو اپنا مطیع بنانے کے لیے کئی صدیوں تک باہمی کش مکش میں مبتلا رہے۔ برطانیہ اور روس نے بھی عالمی سامراج بن جانے کے بعد آذربائیجان کے بارے میں یہی رویہ اختیار کیا اور بالآخر روس جیت گیا۔

’’آذری‘‘ لوگوں کی بے پناہ اکثریت خود کو شیعہ مسلک سے وابستہ قرار دیتی ہے مگر وہاں کے عوام ایران کے بجائے خود کو ترکی سے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ایک جنگ کے بعد والی شدید تناؤ کی کیفیت موجود تھی۔ ایران اس جنگ میں آرمینیا کے عیسائیوں کا حلیف مانا جاتا تھا اور ترکی آذربائیجان کا دوست۔ ’’مسلم اُمہّ‘‘ کا اس تقسیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔

وجہ وہ تاریخی کش مکش تھی جو ایران کے صفوی اور ترکی کے عثمانی حکمرانوں کے درمیان آذربائیجان کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے لیے کئی صدیوں تک جاری رہی۔ آرمینیا کے عیسائی آج تک نہیں بھولے کہ استنبول کبھی قسطنطنیہ ہوا کرتا تھا اور یہ ان کے دین کا ایک بہت بڑا مرکز بھی تھا۔ ان کا یہ الزام بھی ہے کہ 1915ء میں ترکی نے بڑی وحشت سے اپنے ملک کو وہاں موجود آرمینیائی نسل کے لوگوں سے ’’پاک‘‘ کرنے کے فیصلے پر عمل کیا۔

مغربی میڈیا کے ذریعے ہمیں بتائی مسلم دُنیا میں سنی اور شیعہ کی نام نہاد تفریق لہذا مجھے آذر بائیجان کے تناظر میں قطعی باطل اور احمقانہ نظر آئی۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ یہ باور کیے بیٹھے ہیں کہ ایران شام کے اسد خاندان کا بھرپور طریقے سے ساتھ اس لیے دیتا ہے کہ وہ لوگ اس کے ’’ہم مسلک‘‘ ہیں۔ ہمیں اکثر یاد نہیں رہتا کہ حافظ الاسد کا تعلق ’’علوی‘‘ فرقے سے تھا اور یہ اپنے تئیں ایک قطعی الگ مسلک ہے۔ ایران اور عراق کے مابین یورپی لکھاریوں کی متعارف کردہ ’’شیعہ کریسنٹ‘‘ کے بھی بہت تذکرے ہوتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی صحافی اور ٹیلی وژن پر بقراط دِکھنے والا تبصرہ نگار یہ جانتا ہو کہ ’’اخباری‘‘ اور ’’اصولی‘‘ دو جدا مکتبہ ہائے فکر ہیں۔

ان دونوں کے درمیان جو تقسیم ہے وہ ’’قم‘‘ اور ’’نجف اشرف‘‘ کے مدرسوں میں پڑھائی تعلیمات میں بہت واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مغربی میڈیا عالم اسلام اور مشرقِ وسطیٰ کو یقینا ایک مخصوص نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہمیں اس سے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہر شخص چیزوں کو اپنی ہی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کی دریافت کردہ ’’حقیقتوں‘‘ کی غیر تخلیقی جگالی کے بجائے ہم خود کو اپنے طور پر تحقیق کی مشقت سے گزار کر ’’داعش‘‘ جیسے موضوعات پر نئے جوابات ڈھونڈنے کے لیے تیار کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔