فیض صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا

نصرت جاوید  جمعـء 21 نومبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

20 سال گزر گئے مگر نومبر جب بھی آتا ہے مجھے فیض احمد فیض کے ساتھ ان کے انتقال سے چند دن پہلے اسلام آباد میں ہوئی ملاقاتیں یاد آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ میں ان کا گرویدہ اور ذہنی حوالے سے بس ایک چمچہ تھا مگر قربت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ 1970ء کی دہائی سے ان کی بے تکلف محفلوں میں انتہائی ادب کے ساتھ ایک کونے میں دبک کر بیٹھے رہنے کا اعزاز البتہ بہت ملتا رہا۔

ان کی سب سے بڑی خوبی وہ فقیرانہ بے اعتنائی تھی جس کی بدولت وہ اپنے بدترین دشمنوں کو بھی نظرانداز کر دیا کرتے تھے۔ بولنے سے کہیں زیادہ انھیں مسکراتے چہرے کے ساتھ دوسروں کی باتیں بہت غور سے سننے کی عادت تھی۔ بحث مباحثہ ان کی موجودگی میں جھگڑے کی صورت اختیار کر ہی نہیں سکتا تھا اور میں نے انھیں کبھی کسی معاملے کے بارے میں رعونت کے ساتھ کوئی قطعی رائے دے کر اس پر ڈٹ جاتے ہوئے لوگوں کو بحث کے لیے للکارتے نہیں دیکھا تھا۔وہ اس دُنیا سے رخصت ہو گئے تو ان کے ساتھ اسلام آباد میں ان کے آخری قیام والے دنوں کی یادیں میرے ذہن میں فلیش بیک کی صورت گھومنا شروع ہو گئیں۔

ان ملاقاتوں کے ایک ایک لمحہ کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد اچانک احساس ہونا شروع ہو گیا کہ فیض صاحب کی روایتی بے اعتنائی اور زندگی کے بارے میں عمومی اطمینان کا رویہ ان کے آخری ایام میں بہت کمزور ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اپنی وفات سے چند روز قبل اسلام آباد پہنچ کر وہ پروفیسر مسعود مرحوم کے ساتھ مشاہد حسین سید کو ملنے اس اخبار کے دفتر آئے جہاں میں سیاسی اور ثقافتی امور پر لکھا کرتا تھا۔ مشاہد حسین ان دنوں ایران اور شام کے اشتراک سے بنے اس اتحاد کے شدید حامی تھے جو مصر سے زیادہ یاسر عرفات کو فلسطینیوں کا ’’غدار‘‘ ٹھہرانے میں مصروف رہتا تھا۔

فیض صاحب نے مجھے مشاہد صاحب کے مقابلے میں حافظ الاسد کی شدید انداز میں مذمت کرتے ہوئے حیران کر دیا۔ مجھ لاعلم کی زیادہ بدقسمتی یہ بھی تھی کہ میں خود ان دنوں حافظ الاسد کو امریکا اور اسرائیل کا ’’اصل دشمن‘‘ سمجھا کرتا تھا۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ’’روس نواز‘‘ سمجھے جانے والے فیض احمد فیض جنھیں لینن امن ایوارڈ بھی مل چکا تھا حافظ الاسد کے اتنے مخالف ہو چکے ہیں۔

ان کے انتقال کے کئی برس بعد 2005ء میں لبنان اور شام میں 5 ہفتے گزارنے کے بعد مجھے اپنے سوالات کے جوابات مل گئے۔ قصہ دراصل یوں ہے کہ حافظ الاسد خود کو ’’بلادِشام‘‘ کا یک و تنہاء مالک ثابت کرنے پر بضد تھا۔ لبنان اور فلسطین کو وہ ’’بلادِشام‘‘ کا اٹوٹ انگ شمار کیا کرتا تھا۔ وہ اس بات سے ہرگز خوش نہیں تھا کہ یاسر عرفات اور PLO کی بدولت فلسطینی اپنی ایک خود مختار ریاست قائم کرنے کے ہدف کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

چونکہ ان دنوں یاسر اور ان کی تنظیم بیروت میں پناہ گزین تھی اس لیے حافظ الاسد نے عیسائی انتہاء پسندوں کی سرپرستی کی جنہوں نے اسرائیل کی پشت پناہی میں صابرہ اور شطیلہ کے مہاجر کیمپوں میں وحشیانہ قتل و غارت کے ذریعے ایسے حالات بنائے کہ یاسر عرفات کو اپنی تنظیم سمیت اسرائیل کی سرحدوں سے کہیں دور تیونس میں جا کر پناہ لینا پڑی۔ فلسطینی حقوق کے اپنے تئیں جارح چیمپئین بنے حافظ الاسد جیسے لوگوں نے بالآخر اسرائیل کے بجائے فلسطینیوں ہی کو کمزور کیا۔

فیض احمد فیض یہ سب ہوتا وقت سے بہت پہلے دیکھ رہے تھے اور اس کے بارے میں شاید پرزور انداز میں کڑھنا اس لیے شروع ہو چکے تھے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اب ان کی عمر مستقبل کے خطرات کو روکنے کے قابل نہیں رہی۔ ایک اور محفل میں انھوں نے مجھے یہ فقرہ کہہ کر بھی حیران و ششدر کر دیا کہ ایران اور امریکا کے اختلافات بالآخر ختم ہو جائیں گے ’’تاریخی، تہذیبی اور ٹھوس معاشی وجوہات کی بناء پر ایران عجم کا رہ نما رہے گا اور امریکا جب ایک دن عربوں سے تنگ آ جائے گا تو اسے مشرق وسطیٰ میں تہران سے ہی رجوع کرنا پڑے گا‘‘۔

ان کا ادا کردہ یہ فقرہ ان دنوں مجھے بہت یاد آتا ہے جب اوباما کا امریکا ایران کے ساتھ بہت سنجیدگی اور ثابت قدمی کے ساتھ ’’ایٹمی قضیے‘‘ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہ رہا ہے اور پوری عرب دنیا میں ایران-امریکا صلح کے امکانات کے بارے میں بہت تشویش پائی جا رہی ہے۔

عالمی صورتحال سے قطع نظر فیض صاحب مجھے اپنے انتقال کے قریبی دنوں میں پاکستان کے معاملات کے ضمن میں بھی اپنی روایتی رجائیت سے محروم ہوتے نظر آئے۔ ان دنوں افغانستان سے روسی افواج واپس جانا شروع ہو چکی تھیں۔ ضیاء الحق پوری قوت کے ساتھ ہمارے سر پر مسلط تھے۔ مگر فیض صاحب کو تشویش یہ لاحق تھی کہ افغانستان اور پاکستان کے معاشروں میں ’’گھر گھر جنگیں‘‘ اب اس مسئلے پر ہوا کریں گی کہ ’’نماز ہاتھ کھول کر پڑھی جائے یا نہیں اور اگر ہاتھ باندھنا ہیں تو کہاں۔ پیٹ پر یا سینے پر‘‘۔

ہمارے میڈیا اور دانشوروں میں اس طرح کی تشویش ان دنوں کہیں دور دور تک موجود نہ تھی۔ مگر فیض احمد فیض کو مسلکی بنیادوں پر ہوتی وقت سے کہیں پہلے تفریق بڑی واضح نظر آ رہی تھی۔ وہ اس کے بارے میں ویسے ہی متفکر تھے جیسے ہم میں سے اکثر حساس لوگ اس حوالے سے سوچتے ہوئے آج کل اپنے گھروں میں بیٹھے متوحش ہو جاتے ہیں۔

باتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو اس کالم میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ایک بات مگر یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ ہے فیض احمد فیض کی شاعر مشرق کے ساتھ بے پناہ محبت اور عقیدت۔ مشہور شاعر سرمد صہبائی کے ساتھ ہم ماہر تعمیرات نعیم پاشا کے گھر فیض صاحب کے روبرو موجود تھے۔ سامنے پاکستان ٹیلی وژن بغیر آواز کے چل رہا تھا۔ انگریزی خبرنامے سے پہلے PTV والوں نے علامہ اقبال کی تصویر کے ساتھ ان کا ایک شعر چلایا تو فیض صاحب تلملا اٹھے۔ ’’یہ ٹی وی والے علامہ صاحب کا سب سے کم تر شعر بڑی محنت سے ڈھونڈ کر لاتے اور اپنی اسکرین پر دکھاتے ہیں۔

PTV کی بدولت بالآخر ہمارے لوگوں کی اکثریت یہ طے کر لے گی کہ علامہ صرف موچی دروازے کے جلسوں کے لیے شعر لکھا کرتے تھے‘‘۔ میں نے اور سرمد صاحب نے انھیں چڑانے کے لیے صرف یہ کہہ دیا کہ شاعر مشرق کی زیادہ تر شاعری موچی دروازے کے جلسوں کے لیے ہی تھی۔ فیض صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ادب کے کسی بہت بڑے پروفیسر کی طرح انھوں نے انتہائی درشتی سے ہمیں سمجھانا چاہا کہ اقبال نے کس طرح جدید اور گنجلک خیالات کو انتہائی تخلیقی مگر شاعرانہ زبان کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ’’علامہ نہ ہوتے تو ہمارے جیسے شاعر کچھ لکھنے کی جرأت ہی نہ کر پاتے‘‘۔

یہ کہنے کے بعد وہ ہم سے جیسے ناراض ہو کر خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد انھیں ایک کھانے پر جانا تھا۔ ایک گاڑی آئی اور انھیں لے گئی اور ان کے جانے کے چند دن بعد میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں ان کے جنازے کے پاس کھڑا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔