بات بنائے نہ بنے

جاوید قاضی  جمعـء 21 نومبر 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ٹھیک ہے ہمیں خان صاحب سے کتنے ہی شکوے شکایتیں ہوں مگر انھوں نے کھلبلی تو مچا دی ہے کہ ایک دن مسلم لیگ ن کی قیادت کو خیال آیا کہ کیوں نہ اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈر خورشید شاہ کو ایک خط رسید کر دیں کہ اب کوئی جامع پالیسی تعلیم و صحت پر بنائی جائے۔ پتا تو حکمرانوں کو بھی خوب ہے کہ وہ جو حکمت عملی جوڑیں گے ان تلوں میں سے کتنا تیل نکلے گا۔

وہ تو خدا بھلا کرے تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں گر گئیں جس طرح ہٹلر کو شکست کا روس میں سامنا اس لیے کرنا پڑ گیا کہ اسے یہ علم نہ تھا کہ اتنی سردی وہاں پر ہوگی کہ کسی روسی جرنیل نے اپنے ہیڈ کوارٹر میں کہا کہ ہمیں اس لیے شکست نہیں ہوگی کہ ہمارے دو اور جرنیل بھی ہیں وہ ہیں جرنیل دسمبر اور دوسرا ہے جرنیل جنوری ۔ بالکل اس طرح سے مسلم لیگی قیادت کے جرنیل پٹرول نے، ان کی توانائی کے بحران میں مدد دی اور پھر لوگ خطے میں اس لیے بھی اتنے نہیں کیوں کہ گرمی نہیں تو لوڈشیڈنگ کا غم بھی نہیں ہاں اب آرہی ہے گیس کی لوڈشیڈنگ ۔ ساتھ ساتھ تیس نومبر کو اسلام آباد میں اچھی خاصی سردی ہوتی ہے۔ خیر جوہر جوشاندہ و مرغ یخنی تو بہت بکے گی، مگر قادری بابا شاید اب کی بار ان کے ساتھ نہیں ہوں گے۔

بہرکیف جو یہ جان بیٹھے ہیں کہ کوئی سسٹم جا رہا ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی آشیرباد کے بغیر سسٹم کہیں نہیں جا رہا ۔ اور ان کے چلانے والے آقا امریکا ہیں اور امریکا میں بھی ایک کیری لوگر بل ہوتا ہے۔ ان کو اب نئے چیلنجز داعش کے روپ میں مل رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں جب ان عرب ممالک میں آمریتیں ہوں گی تو اس طرح کی بیماریاں لازم ہیں ۔ اور ہمارے یہاں بھی آمریتوں نے اپنے غیر آئینی اقتدار کو قانونی کرنے کے لیے وہی کام کیا جو عرب دنیا کے بادشاہوں نے کیا۔

بہرحال خان صاحب کی نیت پر اگر شک نہ کیا جائے (البتہ شک کی گنجائش نکلتی تو ہے) تو سب ٹھیک ہے ناں، گلیوں میں آنا، احتجاج کرنا، دھرنا لگانا، نافرمانی کرنا، قانون توڑنا، جیل جانا، لاٹھیاں کھانا، سر پھڑوانا، یہ سب کچھ اس طرح ہے جس طرح ’’محبت میں نہیں ہے فرق مرنے اور جینے کا۔‘‘خان صاحب جنون رکھتے ہیں، تو پھر عشق بھی رکھتے ہوں گے، وہ غلط ہوسکتے ہیں مگر سیاست میں یہ سب کرنا سب ٹھیک ہے اگر 1977 سے ملتا جلتا پلان نہ ہو ۔

میرے کالم چھپنے تک وہ جلسہ لاڑکانہ میں کرچکے ہوں گے قائم علی شاہ مٹھی میں کابینہ کا اجلاس بھی، کچھ دو چار سندھ کے وڈیرے خان صاحب کے ساتھ شامل بھی ہوئے ہوں گے، کچھ بدنظمی تو کچھ انتظامیہ کا عدم تعاون وغیرہ کے بیانات کچھ بھبھکیاں شیخ رشید صاحب کی، کچھ للکاریں عمران خان کی۔ مگر لاڑکانہ کے اس جلسے نے سندھیوں کو حیران یا ششدر یا چونکا نہیں دیا ہوگا۔ اس سے بڑا جلسہ لاڑکانہ میں اس بار پیپلز پارٹی 27 دسمبر کو کرے گی ۔ تو ایک مہینے میں خان صاحب کے جلسے کا اثر ختم ہوجائے گا ۔ لیکن سب ٹھیک ہی تو ہے۔

خان صاحب لاڑکانہ میں نصیب آزمانے آئے ہیں ۔ بہت جرأت کی انھوں نے ۔ یہ وہ لاڑکانہ ہے جہاں کسی زمانے میں ممتاز بھٹو جب ’’ولزجیب والے‘‘ وڈیرے تھے ایوب کھوڑو سے چھپتے پھرتے تھے تو خود بھی بھٹو صاحب کے والد سر شاہنواز بھٹو کو ایوب کھوڑ نظرانداز کرتے تھے ، وہ سب ریکارڈ کا حصہ ہیں اور پھر ایوب کھوڑو ایک کل کے چھوکرے تھے یعنی بھٹو سے 1970 کے انتخابات میں بری طرح ہار گئے۔ اس دن ایک سورج غروب ہوا تھا تو ایک روشنی کی کرن اب تک فروزاں ۔ اس کے باوجود بھی کہ لاڑکانہ سے غربت نہیں گئی ۔ اتنے اونچے تاج محل سے باتیں کرتے ہوئے گڑھی خدابخش کے مزارات اور اتنے چھوٹے ایک منزلہ کچے پکے مکانات، گدھا گاڑیاں، بچوں کے برہنہ بدن، مٹی ان کے بالوں میں تو پاؤں بغیر چپل ۔ افتادگان خاک ! ہاں مگر لاڑکانہ کے وڈیرے وڈیرے ترین ہوگئے۔

نہ گئی تو وہاں سے غربت کی حالمیت اور سرداری نہیں گئی ۔ یہ کیسے لوگ ہیں ، پھر بھی بھٹوؤں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں؟ اس پر کسی حد تک تو میں نے اپنے پچھلے مضمون میں روشنی ڈالی تھی، لیکن سچ یہ بھی ہے کہ بھٹوؤں نے بھلا کون سی ان سندھیوں سے غداری کی ہے۔ خود تاریک راہوں میں مارا گیا۔ بیوی ہوش گنوا بیٹھی ، فقط دو بیٹے تھے مارے گئے اور ایک بیٹی تھی وہ بھی نذر اجل کردی گئی ۔ صرف بری حکمرانی کو بنیاد بنا کر بھٹوؤں پر کیچڑ نہیں اچھالا جاسکتا ۔ کیونکہ کون سی آمریتوں نے گل کھلائے ہیں تو کون سی مسلم لیگ کی قیادت نے ۔اور کون سے عمران خان نے خیبر پختونخوا میں ۔

ان ساری باتوں میں پھر بھی ایک بات عمدہ ہے وہ ہے خان صاحب کی ان سوئنگ اور آؤٹ سوئنگ بولنگ۔ ان کی للکاریں، گالم گلوچ، ان کی دھمالیں، ان کا غصہ اور ان کی مسکان، لاٹری جو کھلی وہ تو شیخ رشید کی کھلی جن کو مسلم لیگ والے گھر چھوڑ آئے تھے تو خان صاحب ان کو گھر سے باہر لے آئے ۔ بات کرنے کا ان کو آرٹ آتا ہے وہ ٹاک شوز میں اپنا دو ٹوک سنسی خیز تجزیہ پیش کرتے ، اور پیشگوئیاں کرتے ہیں۔

مجھے بھی دو یا تین انٹرویو کرنے کا شرف انھوں نے دیا ہے، مگر خان صاحب سیاست کے داؤ پیچ میں بہت ہی جذباتی انداز میں کھیلنے کی روایت رکھتے ہیں، جوکہ نئی ہے اور اس کا تجربہ کم ازکم اس ملک میں نیا ہے ۔ ہندوستان میں ایسی باتیں کچھ اسی انداز میں مودی نے کیں مگر انھوں نے گجرات کو ماڈل ریاست بھی بنا کے دکھایا۔ جب کہ خان صاحب کا خیبرپختونخوا سب کے سامنے ہے۔

تحریکوں کا کیا ہے، کیا ہوا قومی اتحاد کا، یا IJI کا، تحریکیں اگر چلانی ہیں تو پھر ایم آرڈی جیسی تحریکیں ہونی چاہئیں، بحالی جمہوریت کی خاطر ۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر ۔ ہم سب کو پتا ہے کہ یہ تحریک کہیں اور نہیں بلکہ اپنے دیہی سندھ کے علاقوں میں چلی تھی ۔ سندھ کی اور بھی تحریکیں ہیں جو اثاثہ ہیں، ایک حر تحریک جو انگریز سامراج کے خلاف چلی تھی یہ وہ زمانہ ہے جب سیکڑوں حر پھانسی کے پھندے کو چوم بیٹھے ۔یہ وہ تحریک ہے جس پر اصغر خان بطور ایئرفورس کے پائلٹ کے بمباری کرنے سے انکار کر بیٹھے تو کورٹ مارشل ہوا تھا۔ ایک ہماری ہاری تحریک بھی 1957 کے زمانے میں چلی تھی جب دہقانوں میں جدوجہد عروج پر تھی۔

جب پورے سندھ میں دہقانوں نے جیلیں بھری تھیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ سر کٹوانے میں بھی سندھ کا اپنا ایک مقام ہے یہ وہ پہلی تھی جو مخدوم بلاول سے شروع ہوئی تھی لگ بھگ چودھویں صدی کا یہ واقعہ ہے۔ جس کو توہین مذہب کے الزام میں ارغون حملہ آوروں نے چکی میں پیس کے مارا تھا۔ دہلی سے بغاوت کا یہ عالم تھا کہ خود دہلی کے تخت کے حقیقی وارث سترہویں صدی میں (1660) کے لگ بھگ سیہون میں پناہ لیتے ہیں جہاں سے اورنگزیب کے وفادار فوجیوں نے انھیں گرفتار کیا تھا۔ اور پھر 1718 میں ٹھٹھہ کے قریب برصغیر یا شاید دنیا کا پہلا دہقان انقلاب لائے تھے، دہلی کو ٹیکس دینے سے انکار کر بیٹھے، حیدرآباد دکن کے باغی بھی شاہ عنایت کے ساتھ دہلی کی فوجوں کے خلاف لڑے اور شہید ہوئے۔ دہلی کی معاونت کلہوڑو خاندان نے کی تھی اس کے بدلے میں سندھ کے وہ گورنر بنے، جب نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا اسے کمزور کیا تو کلہوڑو سندھ کے بادشاہ بن کے بیٹھ گئے۔

سترہویں صدی تک سندھ کی اکثریت مقامی ہندوؤں کی تھی۔ میروں کے زمانے تک آدھے تھے اور پھر اقلیت میں تبدیل ہوئے۔ سندھ میں اب بھی برہمنوں والی عزت بدل کر سیدوں کی دی جاتی ہے جو پوری دنیا میں سیدوں کو نہیں دی جاتی اور بہت سی ایسی رسمیں ہیں جو ریسرچ بتاتی ہے جس سے یہ تاثر جڑتا ہے کہ سندھ کے لوگ قدیمی مسلمان نہیں بلکہ ان تین سو سالوں یا پانچ سو سالوں میں بنے ہیں ۔ یہاں کی دو بڑی ذاتیں شیخ اور میمن تو بالکل ایک سو سال پہلے کے مسلمان ہیں جو ہندو مذہب ترک کرکے مسلمان بنے ہیں ۔

اس لیے مختلف مذہب کے لوگوں کو اس میں یکجا کر کے یہاں صوفی ازم نے زور پکڑا اور ساری تحریکیں جو یہاں چلیں جو ساری شہادتیں یہاں ہوئی اس میں اگر دارا شکوہ کو بھی ڈالا جائے تو وہ ساری سیکولر ہندوستان، سندھ یا پاکستان کے تسلسل میں تھیں ۔ پاکستان بننے کے بعد ایم آر ڈی تحریک یا ہاری تحریک سیکولر تحریکیں تھیں ۔

سندھ کا پاپولر ووٹ 1970 سے پنجاب کے پاپولر ووٹ سے جڑا رہا ۔ ورنہ سندھ کے صوفی تحریک کے وارث لوگ شیخ مجیب یا عوامی لیگ کے ساتھ تھے۔ شیخ مجیب سندھ کے شاگردان سیاست میں بھٹو سے بھی زیادہ سندھ میں مقبول رہے ہیں ۔ شاید ویسٹ پاکستان میں اتنا کہیں بھی نہیں رہے ہوں ۔

اس سارے تناظر میں ہمیں دیکھنا ہوگا اس سیاسی جوڑ توڑ کو جس کی داغ بیل صحیح معنوں میں کل منعقد ہوئے عمران خان کے جلسے نے سندھ میں ڈالی ہے ۔ بلاشبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی بری حکمرانی ہے تو عمران خان کے پاس بھی کچھ دینے کو نہیں ۔ اور بیچ میں سندھ کے کنفیوژ لوگ ، پیر پرست ، نیم غلام ، پسے ہوئے سندھ کے دہقان ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔