- ملک بھر میں خواتین ججز کی تعداد 572 ہے، لاء اینڈ جسٹس کمیشن
- 2 سر اور ایک دھڑ والی بہنوں کی امریکی فوجی سے شادی
- وزیراعظم نے سرکاری تقریبات میں پروٹوکول کیلیے سرخ قالین پر پابندی لگادی
- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا پولیس کیلیے 7.6 ارب سے گاڑیاں و جدید آلات خریدنے کی منظوری
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خزانہ کی جگہ وزیر خارجہ شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - وہ صف شکن بنیں گے پیتے رہے جو چائے!
سچ تو یہ ہے کہ آزمودہ سائنسی کلیے، ٹھوس اور جامع معلومات، حقائق، جدید طبی آلات اور علمی و تحقیقی میدان میں بے پناہ ترقی کے باوجود دودھ اور چائے کی افادیت اور نقصانات کی گتھی آج بھی نہیں سلجھی ہے۔ طبی ماہرین دودھ اور چائے سے متعلق تحقیق کے لئے اب تک ان میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔
چائے میرا پسندیدہ مشروب ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ میرے ذہن اور قلم کو تحریک دیتا ہے، لیکن بڑوں سے یہ سنا اور پھر پڑھا بھی کہ چائے بھوک ختم کر دیتی ہے اور جسمانی کارکردگی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ نے بھی یہی سنا اور پڑھا ہو گا۔ چائے کے نقصانات پر تحقیقی رپورٹس اور مضامین پڑھنے کے علاوہ اس ’بَلانوشی‘ پر روک ٹوک سے تنگ آکر میں نے متعدد بار ’’ترکِ چائے‘‘ کی کوشش کی، لیکن ’چُھٹی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔‘ چند دن پہلے بھی میں نے خود کو چائے سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی، مگر پھر ایک عجیب بات ہوئی!
گذشتہ ہفتے ایک پرانے دوست سے برسوں بعد ملاقات پر میں اُسے ’’مشہورِ علاقہ‘‘ ہوٹل لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک کپ چائے کا آرڈر دیا تو وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔ دراصل وہ میرے چائے پینے کے شوق سے واقف تھا۔
’’ یار، چائے کی وجہ سے صحّت متأثر ہورہی ہے لہذا اب میں کم پیتا ہوں۔‘‘ میں نے اس کی حیرت دور کرنے کے لیے کہا۔ اس پر میرے دوست نے مسکراتے ہوئے اپنے موبائل سیٹ کی اسکرین پر نظریں جما دیں۔ چند منٹ بعد میرے سامنے ایک ویب پیج پر موجود تازہ ریسرچ مجھے چائے سے متعلق اپنے برسوں پرانے خیالات سے ’’تائب‘‘ ہونے پر مجبور کر رہی تھی۔ یہ طبی جریدے ’’اوسٹیوپروسس انٹرنشنل جرنل‘‘ کی رپورٹ تھی، جس کے مطابق روزانہ دو سے تین کپ چائے ہڈیوں کے بھربھرے پن سے محفوظ رکھتی ہے اور چائے میں موجود اجزا ہڈیوں کی تشکیل کا عمل تیز بناتے ہیں۔ یہ بھی لکھا تھاکہ چائے سے صحت کے لیے نقصان دہ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی دودھ کے بارے میں بھی تازہ انکشاف کیا گیا تھا، ’’برٹش میڈیکل جرنل‘‘ کی تحقیق کا خلاصہ یہ تھا کہ زیادہ دودھ پینے سے نوجوانی میں موت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ دودھ سے ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ بھی کم نہیں کرتا بلکہ تین گلاس سے زیادہ دودھ پینا خصوصاً خواتین کی ہڈیوں کو 60 فیصد کم زور کر سکتا ہے۔
’’خان صاحب! ایک کپ اور۔‘‘ میں نے موبائل سیٹ دوست کی طرف بڑھاتے ہوئے آواز لگائی تو وہ ہنس دیا۔ اُس وقت مجھے یہ شعر یاد آیا؛
ہر مرض کی دوا ہے، ہر درد سے بچائے!
وہ صف شکن بنیں گے پیتے رہے جو چائے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔