ہمارے موسیقار

رئیس فاطمہ  اتوار 23 نومبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں لکھے گئے ایک کالم ’’پیار نہیں ہے سر سے جس کو‘‘ کے حوالے سے بہت سی ای میل آئیں، لیکن اپنی ناسازی طبع کی وجہ سے صرف دو کو پڑھ پائی۔ ان میں سے ایک کو میں نے قارئین کے لیے بھی منتخب کیا ہے۔ یہ ای میل محمد شہزاد قمر نے ملتان سے بھیجی تھی اور اس میں پسندیدگی کے ساتھ ساتھ ایک گلہ بھی کیا گیا ہے اور میری توجہ اس جانب مبذول بھی کروائی گئی ہے۔

اس تفصیلی مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگر موسیقار ان گلوکاروں کے لیے دھنیں تخلیق نہ کرتے تو ان کی آوازوں کو کون پہچانتا۔ ای میل کے مندرجات بتاتے ہیں کہ شہزاد  کا موسیقی کا ذوق اور معلومات نہایت اعلیٰ ہیں۔ انھیں کلاسیکی موسیقی کی خاصی معلومات ہیں کیونکہ انھوں نے جن موسیقاروں کا ذکر کیا ہے اور جن گیتوں کی نشان دہی کی ہے ان کی بندش کلاسیکی راگوں میں کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر رونا لیلیٰ کو نثار بزمی، نور جہاں کو فیروز نظامی اور لتا کو نوشاد علی جیسے موسیقار نہ ملتے تو یہ گلوکار لافانی گیت نہ گا پاتے۔

بات تو سو فیصد درست ہے۔ گلوکار صرف اپنی آواز دیتا ہے۔ لیکن شاعر اور موسیقار اس آواز کی قدر و قیمت کا اندازہ کرکے تعین کرتے ہیں کہ کس کے لیے کون سا گیت اور تان بہتر رہے گی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلمی دنیا میں گیت کے بول سے زیادہ وہ دھن اہمیت رکھتی ہے جس پر گیت کمپوز کیا جاتا ہے۔ پہلے موسیقار دھنیں ترتیب دیتا ہے بعد میں شاعر اسی دھن پر گیت لکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات معمولی گیت محض بندش کی بدولت بے حد مقبول ہوئے جب کہ شاعری محض بھرتی کی تھی۔ ذرا حافظے پہ زور دیجیے تو بہت سے ایسے گیت یاد آجائیں گے جنھوں نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، لیکن ان گیتوں کے بول سنجیدہ اور شائستہ ذہنوں پر گراں گزرتے تھے۔

لیکن بھارت اور پاکستان دونوں کی فلم انڈسٹری میں 70 کی دہائی تک شاعری اور موسیقی دونوں معیاری ہیں۔ البتہ 1965 کے بعد جب انڈین فلمیں یہاں آنا بند ہوگئیں تو پاکستانی فلموں کا بیڑہ غرق ہوگیا کیونکہ اب معیاری کام کے لیے مقابلے کی فضا ختم ہوگئی تھی۔ پاکستانی فلم ساز کابل جاکر مصالحہ لاتے اور انڈین فلموں کی کاربن کاپی بنا ڈالتے۔ پھر وی سی آر آیا، گھر گھر فلمیں دیکھی جانے لگیں۔ اس طرح نقل کا بھانڈا پھوٹ گیا۔

لیکن موسیقاروں اور فلمی موسیقی کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ بعض لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں۔ قدرت خود ان کے لیے ماحول تشکیل دے دیتی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا کہ ریشماں کو ’’لال میری پت رکھیو بھلا‘‘ گاتے ہوئے اچانک سلیم گیلانی نے سن لیا۔ یا جوتھیکا رائے جو بچی تھی اس کی آواز بنگالی موسیقار نے یوں ہی کہیں کلکتے میں سن لی تھی۔ یوں تو ہزاروں لوگوں نے ریشماں اور جوتھیکا رائے کو ہزاروں بار گاتے سنا ہوگا، لیکن قسمت اس وقت مہربان ہوئی جب ان آوازوں کے پارکھ اور قدردان ان تک پہنچے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ سمجھنا بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔

ایک پراسرار دنیا ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ نہ سمجھنے والوں کے لیے کچھ بھی نہیں۔ یہ غوث، ولی، قطب اور ابدال کون ہیں؟ اور کس نے انھیں تعینات کیا ہے؟ کوئی طاقت تو تھی جس نے سلیم گیلانی کے دل میں خیال ڈالا کہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر جاؤ۔ کوئی غیبی مدد تو ضرور تھی جس نے دس سال کی لڑکی کو وہاں بھیجا جہاں ایک سنگیت کار بیٹھا تھا۔ یہ قسمتوں کے کھیل بڑے عجیب ہیں۔ پل بھر میں فقیر بادشاہ بن جاتا ہے اور بادشاہ بے وقعت ہوکر گمنامی کی موت مر جاتا ہے۔

مہدی حسن  نہایت باکمال گلوکار اور میوزک کمپوزر تھے۔ ان کے بڑے بھائی بھی دریائے موسیقی کے شناور تھے۔ میں نے مہدی حسن  کو ریڈیو اسٹیشن پہ کئی بار دیکھا تھا۔ 1965 میں وہ اپنے سازندوں کے ساتھ ہمارے کالج آئے تھے اور کراچی کالج میں انھوں نے 65 کی جنگ کے حوالے سے کئی ملی نغمے بھی ریکارڈ کروائے تھے۔ سیدھے سادے سے انسان سفید کرتا پاجامہ پہنے ہوئے۔

کوئی رعونت نہیں، لیکن ان کی قدرو منزلت سے ہمارے لوگ اس وقت واقف ہوئے جب لتا جی نے کہا کہ وہ مہدی حسن کی بہت بڑی فین ہیں اور ان کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔ پھر تو شہرت کی دیوی ان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ شاید یہ جملہ خود قدرت نے لتا جی سے کہلوایا تھا۔ فیض احمد فیض کی غزل ’’گلوں  میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘‘ کو ناقابل فراموش بنانے میں مہدی حسن صاحب کی تخلیق کی ہوئی دھن اور آواز دونوں کا برابر کا حصہ ہے۔ اسی طرح اطہر نفیس کی غزل ’’وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا‘‘کو اگر فریدہ خانم کی آواز اور موسیقار کی دھن نہ ملتی تو بہت سے لوگ اس پرتاثر غزل سے ناواقف ہوتے۔

یوں تو موسیقاروں کی ایک بہت طویل فہرست ہے جنھوں نے بڑی اچھی آوازوں کو روشناس کروایا۔ لیکن بعض موسیقار ایسے ہیں جن کے ذکر کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جیسے کھیم چند پرکاش جنھوں نے لتا کو فلم محل کے ذریعے روشناس کروایا۔ انل بسواس، مدن موہن، نوشاد علی، نثار بزمی، رشید عطرے، خواجہ خورشید انور، خلیل احمد، ایس ڈی برمن، فیروز نظامی وغیرہ۔ میرے والد جب ہمیں فلم دکھانے لے جاتے تھے تو یہ ضرور دیکھتے تھے کہ فلم کا میوزک کس نے دیا ہے۔ بطور خاص پاکستانی فلموں میں وہ صرف رشید عطرے، خلیل احمد، نثار بزمی اور خورشید انور کا نام دیکھتے ہی آخری شو کے لیے بکنگ کروا لیتے تھے۔

رشید عطرے نے یوں تو بے شمار فلموں میں میوزک دیا، لیکن جو کمال کی موسیقی انھوں نے فلم ’’موسیقار‘‘ میں ترتیب دی ہے وہ لاجواب ہے۔ کلاسیکی راگوں میں ترتیب دیے گئے ان کے گیت ناقابل فراموش ہیں۔ انھوں نے صبیحہ خانم پہ پکچرائز کیے گئے گیتوں کے لیے نور جہاں کی آواز منتخب کی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہی صحیح حق ادا کرسکتی ہیں۔ فلم ’’باجی‘‘ کے لیے خلیل احمد نے بھی نورجہاں کی آواز ہی منتخب کی تھی۔ کیسی دل آویز موسیقی، متاثرکن بندشیں اور نورجہاں کی سریلی آواز۔ نثار بزمی ان عظیم اور بڑے موسیقاروں میں شامل ہیں جن میں تکبر نام کو نہیں تھا۔ ان کے گھر نارتھ ناظم آباد جانے کا کئی بار اتفاق ہوا۔

وہ موسیقی کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ بہت بڑے موسیقار تھے۔ خاص طور سے رونا لیلیٰ کو پبلک میں روشناس کروانے والے وہی تھے۔ جب کہ اس وقت اور بھی کئی بڑی اچھی گلوکارائیں تھیں، لیکن فلم ’’امراؤ جان ادا‘‘ کے لیے انھوں نے کچھ سوچ کر ہی رونا کی آواز لی ہوگی۔ رونا لیلیٰ ان کا احسان بھی مانتی تھیں۔ 1996 میں گورنمنٹ کالج فار ویمن ناظم آباد میں ہفتہ طالبات کے سلسلے میں میرے ذمے ’’گیت اور غزل‘‘ کا بین الکلیاتی مقابلہ کروانے کا کام سونپا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے بطور منصفین میں نے اپنی استاد بیگم عزیز کے علاوہ اپنی ایک بہت عزیز دوست ذہین طاہرہ کو بھی راضی کرلیا کہ وہ صرف ایک سینئر ڈراما آرٹسٹ ہی نہیں بہت اچھی گلوکارہ بھی ہیں۔ کراچی ریڈیو سے بزم طلبہ کے سلسلے میں ہونے والے ہفتہ طلبہ میں ذہین طاہرہ نے کراچی کالج کی نمائندگی کرتے ہوئے کئی انعام بھی حاصل کیے تھے۔

خاص کر حضرت امیر خسرو کا یہ گیت ’’سکل بن پھول رہی سرسوں‘‘ نے پہلا انعام جیتا تھا۔ بیگم عزیز کی آواز میں بہت اچھی غزلیں کراچی اسٹیشن سے بار بار نشر ہوتی تھیں اور لوگ انھیں آج بھی بہت پسند کرتے ہیں۔ ان دونوں خواتین کی منظوری کے بعد میں سیدھی نثار بزمی  کے گھر پہنچی اور ان سے صدارت کی درخواست کی۔ انھوں نے بغیر کوئی سوال کیے صرف اتنا پوچھا ’’کب ہے یہ فنکشن؟‘‘ میں نے ادب سے کہا کہ آپ کوئی تاریخ دے دیجیے۔

ہم ایڈجسٹ کرلیں گے۔ اس پر وہ مسکرائے اپنا چشمہ اتارا اور شفقت سے کہنے لگے ’’بچیوں کا کالج ہے، اگر آپ کی تقریب صبح میں ہے تو کوئی بھی دن رکھ لیں۔ بس مجھے شام چار بجے سے پہلے فارغ کردیں۔‘‘ یقین کیجیے کہ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ہماری پرنسپل ڈاکٹر عقیلہ اسلام کو بھی یقین نہ آیا کہ یہ سب اتنی آسانی سے ہوگیا ہے۔ پھر فنکشن ہوا نثار بزمی  تین بجے تک بیٹھے رہے کہ طالبات کی شرکت اس دن سب سے زیادہ تھی اور پنڈال پورا پروگرام ختم ہونے تک بھرا رہا۔ نثار بزمی  کی صرف یادیں اور تصاویر ہیں جو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ بڑے لوگ کیسے ہوتے ہیں؟ اور انھیں کن خوبیوں کی بنا پر یاد رکھا جاتا ہے۔

اب نہ ایسے موسیقار رہے نہ گلوکار۔ سب کام کمپیوٹر پہ ہو رہا ہے۔ میوزک ڈائریکٹر اپنی مرضی کی دھنیں نکال لیتے ہیں۔ گانا الگ ریکارڈ کرتے ہیں اور بعد میں ان کا تال میل کرکے پیش کردیتے ہیں۔ وہ وائلن نواز، ستار نواز، ہارمونیم، طبلہ، گٹار، جلترنگ، شہنائی، مردنگ سب ختم ہوگئے۔ اسی لیے لتا جیسی گلوکارہ کو بھی گیت گانے میں مزہ نہیں آتا۔ کیونکہ اصل کبھی نقل کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے پرانے کلاسیکی موسیقار ہی ہمارا اصل سرمایہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔