ایوارڈ، کلیات اور کارزار زندگی

نسیم انجم  اتوار 23 نومبر 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پچھلے دنوں ملک کے ممتاز شاعر  عقیل احمد فضا اعظمی کی آڈیو سی ڈی کی تقریب اجرا کراچی جیم خانہ میں ہوئی، یہ سی ڈی بعنوان ’’کار زار زندگی‘‘ بے حد قابل احترام اور با صلاحیت فنکارہ شاہدہ احمد کی محنت، لگن اور شعر و ادب سے محبت کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے۔

شاہدہ احمد بہت اچھی افسانہ نگار بھی ہیں۔ محترمہ بی بی سی پر براڈ کاسٹنگ کے فرائض انجام دے چکی ہیں اور اب کافی عرصے سے شعر و ادب کی شخصیات اور ان کی تخلیقات سی ڈی کی تیاری میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ گزشتہ دنوں انھوں نے زہرہ نگاہ ، افتخار عارف اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کے کام پر مشتمل سی ڈی تیار کی۔

بقول جناب فضا اعظمی کے کہ وہ بے حد محنت کرتی ہیں۔ آواز کے اتار چڑھاؤ اور پھر کس انداز میں شعر کی ادائیگی اور کہاں دھیمہ لہجہ اختیار کرنا ہے اور کس جگہ جوش و جذبے کے ساتھ کلام کو بیان کرنا ہے وغیرہ یہ سب طریقے شاہدہ احمد صاحبہ نہ کہ سمجھاتی ہیں بلکہ خود بھی پڑھ کر بتاتی ہیں، ویسے تو یہ بات بھی سچ ہے کہ اس قدر قادر الکلام اور منجھے ہوئے شعراء کو سمجھانے کی زیادہ ضرورت پیش نہیں آتی ہوگی کہ ’’عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں‘‘ والا معاملہ ہے۔ بہرحال استاد پھر استاد ہوتا ہے اپنی خامی پر خود اپنے طور پر غور کرنا ذرا مشکل ہے۔

’’کار زار زندگی‘‘ کا دورانیہ ایک گھنٹے کا ہے جب کہ اس میں تین کتابیں زوال آدم، مرثیہ مرگ ضمیر، خاک میں صورتیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور نظمیں بھی شامل ہیں۔ یہ کام یقیناً  قابل تحسین ہے کہ کم سے کم وقت میں سامع زیادہ سے زیادہ شعر و سخن سماعت کرلیتا ہے جب کہ کتاب پڑھنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ وقت کی بچت کا یہ اچھا طریقہ ہے۔ ویسے بھی کتب بینی کا رجحان کم ہوتا جارہاہے۔ جن لوگوں نے مطالعہ کی عادت کو ترک کردیا ہے۔

ان کے لیے یہ بہترین طریقہ سامنے آگیا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے اور آرام کرتے وقت آپ سی ڈی سن سکتے ہیں۔ آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اس سہولت کے برعکس علم و ادب کے پروانوں کے لیے وقت کوئی معانی نہیں رکھتا ہے انھیں تو پڑھنے کا جنون ہے، ایک خبط سوار ہے، لہٰذا پڑھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، ہر شخص ہر سہولت حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ بہر حال یہ شاہدہ احمد کی چھٹی سی ڈی ہے وہ وقت نکالتی ہیں یا پھر یہ کہ وقت انھیں خود صدا لگاتا ہے کہ آؤ اور مجھے بہترین مصرف میں لاؤ۔

کار زار زندگی کی تقریب کی صدارت جناب پروفیسر سحر انصاری نے کی تھی انھوں نے فرمایا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ادب میں سیاسی موضوعات اور مسائل کا تذکرہ شامل ہوگیا ہے اور فضا اعظمی سیاسی شعور رکھنے والے شاعر ہیں، انھوں نے فضا اعظمی کی دو نظموں ’’نامہ پاکستان‘‘ اور عذاب ہمسائیگی کا خاص طور پر ذکر کیا، جناب صدر  نے شاہدہ احمد کے بارے میں کہاکہ وہ آدرش ویڈیو سیریز کے ذریعے اردو کی معیاری شاعری کو لوگوں تک پہنچارہی ہیں یہ ایک اہم کام ہے، لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ان کا کلام اور ریکارڈ کی ہوئی آوازیں زندہ رہتی ہیں۔ ممتاز تنقید نگار سید مظہر جمیل نے فضا اعظمی کے بارے میں کہاکہ ’’انھیں نہ صرف  زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل ہے بلکہ وہ موضوعاتی نظمیں لکھ کر حالی، اقبال اور جوش کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں‘‘

مبین مرزا اور مسلم شمیم نے بھی ان کے فن کو سراہا اس تقریب کی نظامت کا سہرا سبوحہ خان کے سر بندھتا ہے۔ ابھی ’’کارزار زندگی‘‘ کا شہرہ عروج پر ہی تھا کہ دوسری ایک اہم تقریب رونما ہوئی اور  فضا اعظمی کی ادبی خدمات کی بنا پر آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں محترمہ غزل انصاری نے انھیں لائف اچیومنٹ ایوارڈ (Life Achievement Award) سے نوازا۔ یہ اعزاز انھیں جدید اردو نظمیہ شاعری کے حوالے سے پیش کیا گیا ’’پارک شائر ادبی فورم‘‘ برطانیہ کی ایک فعال ادبی تنظیم ہے جو اردو زبان کے فروغ کے لیے سالہا سال سے کام کررہی ہے۔

معتبر اور مقبول شاعر اکبر حیدرآبادی اور معروف ادیب اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی مذکورہ ادارے کی برطانیہ میں سرپرستی کررہے ہیں، غزل انصاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود ایک اچھی شاعرہ ہیں اور وہ اس فورم کی چیئر پرسن ہیں ان کے تین شعری مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ ’’پارک شائر ادبی فورم‘‘ پچھلے تین سالوں سے آرٹس کونسل کراچی کے عالمی اردو کانفرنس میں تخلیق کاروں کی ادبی صلاحیتوں اور اعلیٰ تخلیقی شاہکاروں کے اعتراف میں اعزازات پیش کررہاہے۔ اس فورم کے ذریعے شیلڈ اور پچاس ہزار روپے نقد انعام پیش کیا جاتا ہے۔ 2012 میں حبیب جالب کے اہل خانہ کو ایک کار تحفے میں دی گئی تھی اور اس سال  فضا اعظمی اور  سحر انصاری کو ایوارڈ سے نوازا گیا، ساتھ میں پچاس ہزار روپے بھی ادا کیے گئے۔

بلاشبہ یہ ایک اچھی اور شاندار روایت ہے کہ زندگی میں ہی اہل قلم کی عزت افزائی کا سامان پیدا کردیا جاتا ہے، بے شک  سحر انصاری اور فضا اعظمی  ان ایوارڈز کے حق دار تھے،  فضا اعظمی کو یہ سہولت اور رعایت بھی حاصل ہے کہ انگریزی میں ترجمہ ان کی اہلیہ اور افسانہ نگار فرزانہ احمد کرتی ہیں۔

فضا اعظمی  کا سب سے بڑا کارنامہ مقصدی نظموں کی تخلیق ہے جو یقیناً  بڑی بات ہے کہ انھیں معاشرتی نا انصافیوں، محرومیوں کا بے دکھ ہے۔ ان کی شاعری اس قسم کے جذبات سے مزین ہے، دوسروں کی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے اور دردناک واقعات کو بروئے کار لاتے ہوئے شاعری کی ہے، جو قابل تحسین ہے اور نقادوں نے ان کے وہ احساسات جو شاعری میں شامل ہیں ان کی خلوص دل سے تعریف کی ہے۔

ڈاکٹر انور سدید نے فرمایا کہ فضا اعظمی نے نئے عالمی نظام کا منشور پیش کردیا ہے، جو کائنات کا تحفظ اور عالمی امن کا خاص سبب ہے اور اس میں بقائے باہمی کے تمام عناصر موجود ہیں یہ نظم مقصدی شاعری کی ایک نمائندہ نظم ہے ایسی پر اثر نظم اردو ادب میں پہلے نہیں لکھی گئی، پروفیسر فتح محمد ملک نے اس طرح خراج تحسین پیش کیا ’’ فضا اعظمی ایک ایسے وقت میں قومی و ملی شاعری کی روایت کو تازگی بخشنے میں مصروف ہیں جب قومی و ملی وابستگی ہمارے ہاں رجعت پسندی کی دلیل ٹھہری ہے‘‘

تھوڑا ہی عرصہ قبل رنگ ادب سے شائع ہونے والی کتاب ’’سخن کے پانچ رنگ‘‘ منظر عام پر آئی ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس مجموعے میں پانچ نشری مجموعے شامل ہیں اور یہ 816 صفحات پر مشتمل ہے، ابھی یہ کتاب قارئین و ناقدین کے مطالعے میں تھی یا پھر یہ کہ حافظے میں محفوظ تھی کہ فضا اعظمی  کی کلیات منظر عام پر آگئی ہے جسے تین جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بعنوان ’’کلیات فضا اعظمی‘‘ جلد اول، جلد دوم، جلد سوم، تینوں جلدوں میں 2050 صفحات شامل ہیں۔ کلیات کی تمام شاعری فضا اعظمی صاحب کا سرمایہ حیات اور کل اثاثہ ہے۔ جب کوئی قاری ان کی شاعری پڑھتا ہے تو اسے اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھوں نے بے حد درد مندی کے ساتھ ملی و قومی المیوں اور انسانی کرب کو خون جگر سے لکھا ہے۔

عقیل احمد فضا اعظمی کی اب تک 32 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ان میں انگریزی، قانون اور حالات حاضرہ کی بھی کتب شامل ہیں۔ ’’سخن کے پانچ رنگ‘‘ میں جو ترتیب ہے اس کے حساب سے فضا اعظمی  کا تخلیقی سفر 22 کتابوں کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ ان کتابوں میں ’’خوشی کی تلاش میں‘‘ اور ’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ بھی شامل ہیں۔ فضا اعظمی نے اپنی شاعری میں حکمرانوں اور سیاست دانوں کے کرداروں کی ایسی عکاسی کی ہے کہ ان کی اصلی تصویر نظر آجاتی ہے،  اس تصویر کی رونمائی سے قارئین کرام محروم نہیں رہتے ہیں۔ آج بھی وہ ہی حالات ہیں، وہی امرا و ساہو کاروں کا رویہ اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا وہ ہی برا حال اور نوحہ جس پر کوئی توجہ نہیں دینے کے لیے تیار نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔