بے چارے عوام

ایس نئیر  اتوار 23 نومبر 2014
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

چار افراد آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ ایک صاحب نے انکشاف کیا کہ ’’دودھ سفید رنگ کا ہوتا ہے‘‘ دوسرے صاحب بولے ’’آپ دُرست فرما تے ہیں‘‘ تیسرے صاحب نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’دودھ تو سیاہ رنگ کا ہوتا ہے‘‘ دوسرے صاحب پھر بولے ’’آپ بھی دُرست فرماتے ہیں‘‘ چوتھے صاحب سے رہا نہ گیا۔ انھوں نے دوسرے صاحب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ’’دودھ یا تو سفید ہوتا ہے یا پھر سیاہ آپ ان دونوں حضرات کو بیک وقت دُرست کیسے قرار دے سکتے ہیں؟‘‘ دوسرے صاحب نے اطمینان سے عرض کی ’’آپ بھی دُرست فرما رہے ہیں‘‘ کچھ ایسا ہی حال امیر جماعت کا ہے۔

وہ عمران خان سے ملاقات کریں یا حکمرانوں سے، اُن کے بیانات سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کی طرف ’’نہیں‘‘ ہیں۔ خاں صاحب نے تو تنگ آ کر کہہ بھی دیا کہ ’’جناب وکٹ کے دونوں جانب نہ کھیلیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔ سراج الحق کے بیان پر جتنی بھی مغز ماری کی جائے، مطلب سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ ان کا بیان اتنا ’’ڈپلومیٹک‘‘ ہوتا ہے کہ ہر فریق اپنے اپنے مطلب کے معنیٰ نکال سکتا ہے۔ باقی رہے عوام، تو عوام کا کیا ہے؟ اس ملک میں سب سے زیادہ بے توقیر اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہی عوام ہیں۔ اُنہیں خوش کرنے کے لیے ڈپلومیٹک بیان دینے والوں کی کمی ہے کیا؟ عوام جب تک ایک بیان کے اصل معنوں تک پہنچتے ہیں۔

اُن کی مصروفیت کے لیے کسی اور صاحب کا دوسرا بیان اِسی طرح سے آ جاتا ہے جیسے کسی مقبول ڈراما سیریل کی تازہ قسط۔ آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ڈپلومیٹک بیان سے میری آخر مراد کیا ہے؟ اس کی وضاحت کے لیے یہ لطیفہ سن لیجیے: ’’ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ جن کا تعلق وزارت خارجہ سے رہا تھا۔ اُن کی سربراہی میں کرکٹ اور ہاکی کی دو ٹیمیں بیک وقت ایک ہی ملک میں بھیجی گئیں۔ موصوف دونوں ٹیموں کے منیجر تھے۔ وطن واپس لوٹے تو ائیرپورٹ پر میڈیا کا جم غفیر موجود تھا۔ اُن سے پوچھا گیا: ’’دورہ کیسا رہا؟‘‘ فرمایا: ’’بس برابر ہی کی پوزیشن رہی کرکٹ وہ جیت گئے اور ہاکی ہم ہار گئے۔‘‘ اُمید ہے کہ اب ڈپلومیٹک بیان آپ کی سمجھ میں آ گیا ہو گا۔ دُنیا کے ہر مہذب اور جمہوری ملک میں سب سے زیادہ اہمیت و اوّلیت اُس ملک کے عوام کو دی جاتی ہے۔

جہاں پارلیمنٹ میں قانون سازی، معاشرے میں نظم و ضبط پیدا کرنے اور عوام کی زندگی آسان بنانے کے لیے کی جاتی ہے اور یہاں ہمارے ایم این اے اور ایم پی ایز صرف اپنے چیلے چماٹوں کو سرکاری نوکری دلوانے، اُن کے محلوں کی گلیاں پختہ کروانے اور اُن کے گھروں میں پانی کے نلکے لگوانے میں اپنے سارے اختیارات استعمال کر جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب کاموں کے باوجود وہ اپنا ترقیاتی فنڈ اتنا بچا لیتے ہیں کہ ان کی ذاتی ترقی کی رفتار ملکی ترقی سے کہیں زیادہ تیز ہوتی ہے۔ یہ ترقیاتی فنڈ کی گھنٹی اسمبلی ممبران کے گلے میں جنرل ضیاء الحق نے باندھی تھی، جو آج بھی ٹنا ٹن بج رہی ہے اور اس کی سریلی آواز پر ہمارے ممبران پارلیمنٹ مسلسل سر دُھن رہے ہیں۔ موصوف کا دوسرا شوق یہ ہوتا ہے کہ جب ان کی سرکاری گاڑی چلے تو گاڑی کے آگے پیچھے پولیس موبائل کی زیادہ سے زیادہ تعداد موجود ہو اور سرکاری گاڑی کے ہوٹر کی آواز، صورِ اسرافیل کی طرح سنائی دے رہی ہو، دوسرے معنوں میں اِسے اقتدار اور پروٹوکول کو ’’انجوائے‘‘ کرنا بھی کہا جاتا ہے۔

یہ ایم این اے یا ایم پی اے اگر خدانخواستہ کسی وزارت کو ہتھیانے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر اُن کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں وزیر صرف ایک ہی کام کرتے ہیں اور وہ ایسا کام ہے، جو کسی بھی سرکاری محکمے کا کوئی جونیئر کلرک با آسانی کر سکتا ہے یعنی کسی سرکاری افسر کو بذریعہ سرکاری لیٹر کھڈے لائن لگانا یا پھر کسی سرکاری افسر کو اس کی نئی پوسٹنگ کا سرکاری پروانہ ہاتھ میں پکڑا کر اپنی من پسند کرسی پر بیٹھانا۔ الیکشن کے بعد جو چیز سب سے پہلے فراموش کی جاتی ہے وہ یہی بد نصیب عوام ہیں۔

وہی عوام جن کی فلاح و بہبود کے لیے مہذب حکومتیں دن رات ’’کولہو کے بیل‘‘ کی طرح جتی رہتی ہیں۔ دراصل ہماری بے باک اور بے لوث قیادت جو نہ تو جھکنے والی ہوتی ہے اور نہ ہی بکنے والی، اِسے اپنے عوام پر پورا یقین ہوتا ہے کہ اگلے الیکشن میں وہ اپنے ’’بینرز‘‘ پر لکھ لکھ کر عوام کو یہ باور کرا دے گی کہ اُن کے ووٹ کے صحیح حق دار صرف وہ ہی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ عوام اُن کے انتخابی نشان پر ٹھپے لگا کر ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے قیمتی ووٹ کے صحیح حق دار یہی بے باک اور بے لوث نمائندے تھے۔ مزید لطف کی بات یہ ہے کہ عوام اگر ان کے انتخابی نشان پر ٹھپے نہ لگائیں تو آسمان سے فرشتے اُترتے ہیں اور ٹھپے لگانے کا کام خوش اسلوبی سے انجام دے کر خاموشی سے آسمان کی جانب پرواز کر جاتے ہیں۔

ٹھپے عوام لگائیں یا فرشتے یہ بے لوث اور بے باک قیادت ہر صورت میں الیکشن جیت جاتی ہے اور عوام پانی، بجلی اور گیس کے کنکشن لگوانے کے لیے اگلے الیکشن تک انھیں دھونڈتے پھرتے ہیں۔ فرشتوں کے ذریعے ٹھپے لگوانے کا عمل گزشتہ60 برسوں سے ہوتا آیا ہے۔ میاں صاحب حیران و پریشان ہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں آخر کون سی ایسی نئی بات ہو گئی کہ عمران خان نے شور مچا مچا کر پورا پنجاب سر پر اُٹھا لیا ہے اور اب پوری رفتار سے وہ سندھ کی طرف دوڑ لگا چکے ہیں۔ اسی طرح 1972ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن حیران تھے کہ مخالف پارٹی کے صدر دفتر میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں سے آگہی کے لیے اگر انھوں نے الیکڑونک آلات لگوا دیے تھے تو یہ ایسا کون سا نیا کام تھا جس کی سزا انھیں استعفیٰ کی صورت میں بھگتنی پڑی۔ انھوں نے میڈیا اور خاص طور پر وہ دو صحافی جنھوں نے اس واٹر گیٹ اسکینڈل کا انکشاف کیا تھا، کے سامنے بھی یہ سوال رکھا۔

انھوں نے رچڑڈ نکسن کے اس سوال کا کہ: ’’کیا ماضی میں ایسا نہیں ہوتا رہا ہے؟‘‘ بڑا مختصر اور جامع جواب دیا۔ انھوں نے کہا : ’’مسٹر نکسن آپ دُرست فرماتے ہیں ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے لیکن آپ بدقسمتی سے ’’پکڑے‘‘ گئے ہیں‘‘۔ اب آپ ہی بتائیں کہ میاں صاحب عمران خان کے بتائے ہوئے چار حلقے کیوں اور کیسے کھول دیں؟ فرق صرف اتنا ہی ہے کہ میاں صاحب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اور پچھلے الیکشن میں زرداری صاحب اور اس سے پہلے پرویز مشرف صاحب پکڑے نہیں گئے تھے، بہرحال اب خاں صاحب کی سونامی کا رُ خ لاڑکانہ کی طرف تھا اور 20 نومبر کا لاڑکانہ کا یہ ’’چھوٹا سا‘‘ جلسہ ہی پاکستان کی سیاست کا رُخ متعین کرے گا۔

اگر عمران خان نے آگے جا کر سندھ میں بھٹو کا ووٹ توڑ لیا تو یہ پاکستان کی 44 سالہ انتخابی تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو گا اور یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ پاکستان سے بھٹو اور اینٹی بھٹو ووٹ بینک کا خاتمہ ہو گیا ہے یا نہیں؟ بات کہاں سے شروع ہو کر کہاں نکل گئی؟ سراج الحق سے گزارش ہے کہ وہ جو مینار پاکستان پر 21 نومبر سے تین روزہ اجتماع کر چکے ہیں خدارا دو ٹوک الفاظ میں اپنا مدّعا بیان کریں۔ عمران خان کی طرح بدزبانی بے شک نہ کریں، لیکن اپنی بات واضح اور دو ٹوک انداز میں ضرور کریں اور زرداری نے لندن میں پریس کانفرنس کے دوران جو شکوہ کیا ہے کہ وہ عمران خان جیسی زبان استعمال نہیں کر سکتے۔

اُن کی خد مت میں عرض ہے کہ1970ء کے الیکشن میں بھٹو صاحب ائیر مارشل اصغر خان کو ’’آلو‘‘، خان عبدالقیوم خان مرحوم کو ’’ڈبل بیرل خان‘‘ اور ممتاز دولتانہ مرحوم کو ’’چوہا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ کس لیڈر کو زیادہ بد تمیز کہا جائے؟ رہے میاں صاحب تو معلوم نہیں یہ لیڈر ہیں بھی یا نہیں؟ بہر حال حکومت مخالف تحریک عوام ہی کے بل بوتے پر چلائی جا رہی ہے۔ جلوسوں کی رونق اور دھرنوں کی رنگینی بھی عوام کی موجودگی سے ہے۔ اگر عوام نہ ہوں تو سیاستدان واقعی مکھیاں مارنے پر مجبور ہو جائیں ۔ ہائے بے چارے عوام۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔