خریداری… ہماری بیماری!!!!!

شیریں حیدر  اتوار 23 نومبر 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

2002ء  کے اوائل کی بات ہے…  امریکا جاتے ہوئے راستے میں لندن میں ایک دو روز کا قیام تھا، ظاہر ہے کہ ہم جہاں بھی جائیں خریداری کا مرض لاحق ہو جاتا ہے،  ائیر پورٹ سے ہی ایک مشہور برانڈ کی دکان سے ایک سیاہ سویٹر خریدا اور اسے اس کے بعد خوب پہنا… بلا شبہ یہ ایک آرام دہ اور خوب صورت سویٹر تھا، میں تین سال کے بعد… 2005 ء کے اواخر میں کینیڈا جاتے ہوئے پھر ایک بار لندن رکی،  ایک دوست نے باقی سب  دوستوں کو اپنے گھر پر بلا لیا تھا کہ سب سے میری ایک جگہ ملاقات ہو جائے،  سب سے ملاقات ہوئی اور میری ایک بہت پیاری دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ میں اتنا خراب سویٹر کیوں پہنے ہوئے تھی… مجھے یہ بہت زیادہ پسند ہے پیاری۔

’’ مگر یہ تو خراب ہو چکا ہے، پاکستان میں کیا اتنی گھٹیا کوالٹی کے سویٹر ملتے ہیں یا تمہاری پسند اتنی خراب ہو گئی ہے… ‘‘  بات تو ا س نے مذاق میں کہی مگر میرے تو تلوؤں سے لگی اور سر تک پہنچی۔

’’  سوئے اتفاق یہ گھٹیا نظر آنے والا سویٹر میں نے پاکستان سے نہیں بلکہ لندن سے ہی چند سال قبل لیا تھا، مجھے اچھا گرم لگتا ہے اس لیے اس کی جان نہیں چھوڑتی!!‘‘

’’ سچ کہہ رہی ہو؟ ‘‘  اس نے حیرت کی زیادتی سے آنکھیں پٹپٹائیں۔

’’ اس میں جھوٹ بولنے کی کیا بات ہے؟ ‘‘ میں نے غصہ دبا کر کہا۔

’’ اگر یہ یہاں سے خریدا گیا سویٹر ہے اور تم اس کی ہئیت ، معیار یا افادیت سے خوش نہیں ہو، اس پر اتنی صوف  (lint)  ہو گئی ہے تو تم نے اس کی شکایت کیوں نہیں کی؟ ‘‘

’’ اس سویٹر کو خریدے… پہنتے ہوئے مجھے چار برس ہونے کو ہیں، اب میں اس کی شکایت کہا ں اور کس سے کروں؟ ‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔

’’ اسی دکان سے جہاں سے تم نے اسے خریدا تھا… ‘‘

’’ مگر میں نے تو اسے ائیر پورٹ سے خریدا تھا!!‘‘

’’ تو اسی برانڈ کی دکانیں یہاں چپے چپے پر ہیں… کہیں بھی شکایت کی جا سکتی ہے… ‘‘

’’ میرے پاس تو اس کی رسید تک نہیں ہے!!‘‘  میرا احتجاج کمزور تو نہ تھا مگر اس نے مجھے اپنا ایک سویٹر پہننے کو دیا،  پارٹی ختم ہو چکی تھی،  اس نے مجھے ساتھ لیا اور Hendon  کے علاقے میں اسی برانڈ کے اسٹور پر لے گئی، کسٹمر سروس کاؤنٹر پر جا کر اس نے میرا سویٹر کاؤنٹر پر رکھا اور انتظار کرنے لگی- ایک نسوانی آواز نے شائستگی سے پوچھا کہ وہ ہماری کیا مدد کر سکتی تھی۔

’’ آپ کی کمپنی نے کیا اس معیار کے سویٹر بنانا شروع کر دیے ہیں جو فقط تین چار سال میں…‘‘ اس نے کھول کر سویٹر کے وہ حصے سامنے کیے جہاں lint  نمایاں تھی۔

’’ یہ تو غالباً آپ ہندوستانی عورتیں سویٹر کے اوپر جانے کیا کیا کچھ پہنتی ہیں اس کی وجہ سے…‘‘ وہ وضاحت دینے لگی۔

’’ Please dont call me an Indian  ‘‘ اس کی وضاحت کو بیچ میں سے ہی اچک کر میری دوست نے کہا، ’’کیاتمہارے ملک میں ساری چیزیں فقط تمہارے ہی ملک کے لوگوں کے استعمال کے لیے بنتی ہیں؟  کیا اس سویٹر پر کہیں لکھا ہے کہ اس کے اوپر کچھ نہیں پہنا جا سکتا یا ہم پاکستانی اور ہندوستانی عورتیں اپنے دوپٹے اور چادریں اتار دیں تا کہ ہم سویٹر پہن سکیں؟؟‘‘  میری دوست کا لہجہ سخت نہ تھا مگر الفاظ سخت تھے-’’ معذرت چاہتی ہوں کہ میں نے جانے بغیر آپ کو ہندوستانی کہا! ‘‘  اس نے معذرت کی، ’’  آپ بتائیں کہ کیا چاہتی ہیں؟ ‘‘

’’ آپ میری شکایت کا ازالہ کریں، آپ کے برانڈ کے کپڑے ہمارے ہاں شوق سے پہنے جاتے ہیں  اور اگر آپ کا معیار یوں گر رہا ہے تو افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس کے بعد ہمیں آپ کے اسٹورپر آنے کا کوئی شوق نہیں ہو گا… ‘‘

گفتگو چل رہی تھی کہ ان کا کوئی سینئر منیجر داخل ہوا اور اس نے اس خاتون سے جو کہ ہمارے ساتھ بات کر رہی تھی، کہا کہ وہ اس ڈیزائن کے ہر رنگ اور سائز کے سویٹر ڈسپلے کاؤنٹر سے اٹھوا دے، گاہک کو حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز سے مطمئن نہیں ہے اس کی شکایت کرے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم گاہک کو مکمل طور پر مطمئن کریں!! آپ انتظا ر کریں میڈم، مجھے فقط چند منٹ دیں، آپ کو اگر کچھ اور شاپنگ کرنا ہے تو آپ کرلیں ورنہ ہماری دکان کی ایک طرف کافی شاپ ہے، وہاں پر آپ ہماری طرف سے کافی پئیں !‘‘ ہم اس کی کافی کی پیش کش کو ٹھکرا نہ سکے اور کافی پینے لگے-  کافی کا کپ ختم ہوا تو وہ لوٹ آیا، ’’ یہ اس سویٹر کی قیمت ہے میڈم… ( ایک سفید لفافے میں اس سویٹر کی قیمت کے برابر نقد رقم تھی)  اس سویٹر کی قیمت کے علاوہ اسی کی قیمت کے برابر کا ہماری دکان کا  مفت خریداری کا واؤچر ہے۔

گزشتہ اتوار کو میں نے ایک ’’ مشہور‘‘ برانڈ کی قمیض خریدی، گھر آ کر اسے پہن کر دیکھا تو اس سے مطمئن نہ ہوئی،  بل نکال کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا کہ میں اسے ایک ہفتے کے اندر اندر تبدیل کر سکتی تھی، تین چار دن گزر گئے اور میں نہ جا سکی مگر بصد کوشش میں پانچویں دن اس دکان پر تھی، کاؤنٹر پر بتایا کہ مجھے وہ قمیض تبدیل کرنا تھی ( واپس کرنے کی پالیسی تو ہمارے ہاں کہیں ہے ہی نہیں)  ’’ جی کر لیں میڈم!!‘‘ میں نے اسی دکان سے ایک اور قمیض پسند کی جو کہ اس کے برابر کی قیمت کی تھی، ’’ میڈم… چھ سو روپے دے دیں پلیز!!‘‘  اس نے بل بنا کر کہا۔

’’ مگر اس پر تو وہی قیمت درج ہے جس قیمت کی قمیض میں نے آپ کو واپس کی ہے!!‘‘

’’ مگر وہ قمیض اب پندرہ فیصد سیل پر ہے اور آپ نے جو قمیض اب پسند کی ہے وہ سیل پر نہیں… ‘‘  اس کی وضاحت پر میں حیران رہ گئی۔

’’ اس بل پر چار نکات لکھے ہیں محسن پیارے… اس میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ جب میں اس شرٹ کو تبدیل کرنے آؤں گی تواس بل کے نہیں بلکہ آپ کی مرضی کے مطابق اس قمیض کی قیمت لگائی جائے گی!!!‘‘ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

’’ اس بل پر تو یہ بھی نہیں لکھا ہو گا کہ میں صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کام کرتا ہوں !‘‘ یہ ایک مشہور برانڈ کے ایریا منیجر کا مجھے جواب مل رہا ہے…

’’ آپ کے کام کرنے کے اوقات کا اس بل پر درج شدہ رقم سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا، نہ ہی اس بل پر یہ لکھا ہے کہ آپ کو گاہک سے تمیزسے بات کرنا چاہیے مگرمیں آپ کو بتا دیتی ہوں، جس طرح آپ نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کے کام کرنے کے اوقات کیا ہیں …  آپ ایک برانڈ کے ایریا منیجر ہو کر اس قدر غیر منطقی دلیل دے رہے ہیں!!‘‘ میں نے فون اپنے تخیل میں اس کے منہ پر مارا،  ان کا بھتہ دے کر قمیض لے کر واپس روانہ ہوئی اور سوچ رہی تھی کہ ہم کب مہذب ہوں گے، ہم کب سیکھیں گے کہ دوسروں کے کیا حقوق ہیں، یقینا کسی برانڈ کا آدھے ملک کا انچارج ایک پڑھا لکھا ( کتابوں کی حد تک) آدمی ہوگا جسے ملازمت بھی ا س کی ان ھی خوبیوں کی بنا پر دی گئی ہو گی۔

مگر ہم عملی دنیا میں قدم رکھتے ہی  وہ سارا علم سمیٹ کر ایک طرف کیوں رکھ دیتے ہیں جسے ہم نے لاکھوں خرچ روپے یونیورسٹی کی فیس کی مد میں خرچ کر کے حاصل کیا ہوتا ہے… ہم اپنی ابتدائی تربیت کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں… باقی رہی بات گاہکوں کے حقوق کی تو چھوڑیں اس ملک میں ساری جنگ ہی حقوق و فرائض کی ہے، نہ کسی کو آج تک اپنے حقوق ملے ہیں نہ کسی نے اپنے فرائض پورے کیے ہیں، ملک چل رہا ہے، چلنے دیں اسے!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔