قانون اور انصاف کی برتری

ظہیر اختر بیدری  پير 24 نومبر 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ماضی میں عدلیہ حکمران طبقات کے مفادات کا خیال رکھتی رہی۔ 2007ء کی وکلا تحریک کے بعد عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اب عدلیہ آزاد ہو گئی ہے اور یہ تاثر اس لیے غلط نہ تھا کہ 2007ء کے بعد عدلیہ نے بعض ایسی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا جن پر ماضی میں ہاتھ ڈالنا تو درکنار ہاتھ ڈالنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس حوالے سے آصف علی زرداری کا سوئس بینک کیس ایک ’’درخشاں‘‘ مثال بن گیا۔ جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سوئس کیس اٹھایا تو اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے۔

ایسی صورت حال میں عدلیہ کا اقدام بہت جرأت مندانہ تصور کیا جانے لگا، آئین کی رو سے آصف علی زرداری کو جو استثنیٰ حاصل تھا اس کے حوالے سے ایک لمبے عرصے تک بحث جاری رہی اور تان اس حکم پر ٹوٹی کہ وزیر اعظم اس کیس کے حوالے سے جانکاری کے لیے سوئس حکومت کو ایک خط لکھیں۔ حکومت مختلف حیلے بہانوں سے یہ خط لکھنے سے گریزاں رہی لیکن عدلیہ کا اس حوالے سے انتظامیہ پر دباؤ اتنا شدید تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو وزارت عظمیٰ سے الگ ہونا پڑا۔ گیلانی کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی عدلیہ کی آزادی کی ایک مثال بن گئی۔

گیلانی کی رخصتی کے بعد صدر زرداری  نے راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنوایا۔ راجہ جی بھی عدلیہ کے حکم پر عملدرآمد کو ٹالتے رہے لیکن آخرکار انھیں یہ تاریخی خط لکھنا ہی پڑا۔ یہ عدلیہ کی آزادی کا دوسرا ثبوت تھا۔ خط لکھا تو گیا لیکن خط راستے میں اس طرح گم کر دیا گیا کہ آج تک اس کا پتا نہ چل سکا کہ خط گیا کہاں۔

اگست 2014ء کے دوران دو بڑے واقعات پیش آئے ان میں ایک المیہ طاہر القادری کے کارکنوں پر پولیس کی طرف سے اندھا دھند گولیاں چلانا تھا جس میں 14 بے گناہ کارکن شہید اور 90 کے لگ بھگ کارکن پولیس کی اندھی گولیوں سے زخمی ہوگئے تھے۔ یہ ایک وحشیانہ کارروائی تھی اس بربریت کے خلاف طاہر القادری کی جماعت کی طرف سے ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن کئی مہینوں کی کوشش کے باوجود اس سانحے کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی کیونکہ اس ایف آئی آر میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے علاوہ کئی اعلیٰ قسم کے مسلم لیگیوں کے نام تھے۔

ڈی چوک پر دھرنے کے سخت دباؤ کے بعد آخرکار ایف آئی آر درج کی گئی لیکن طاہر القادری کے مطابق یہ ایف آئی آر نامکمل تھی اور اس میں سے اصل نامزد ملزمان کے نام نکال دیے گئے تھے۔ طاہر القادری کا سوال یہ ہے کہ 5 ماہ گزرنے کے باوجود اب تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

اس دوران میڈیا میں ایک اور واقعہ شہرت حاصل کر گیا وہ واقعہ تھا گلوبٹ کا۔ چینلوں پر گلوبٹ کو ماڈل ٹاؤن میں گاڑیوں کے شیشے توڑتے دکھایا گیا، یہ کلپ اس تواتر سے چلا کہ گلوبٹ ایک تاریخی کردار بن گیا۔ آخرکار گلوبٹ کو گرفتار کر لیا گیا اور عدالت نے گلوبٹ کو 11 سال قید کی سزا سنا دی اب گلوبٹ جیل میں ہے اور اس سے قیدیوں کے جھوٹے برتن صاف کرنے کا کام لیا جا رہا ہے۔

گلوبٹ کو 11 سال کی سزا انصاف کی برتری کی مثال کہی جانے لگی۔ لیکن طاہر القادری اور ان کی جماعت اب بھی یہ سوال کر رہی ہے کہ گلوبٹ کو گاڑیوں کے شیشے توڑنے پر 11 سال قید بامشقت دے کر عدلیہ اور انصاف کی برتری کا شاندار ثبوت تو پیش کردیا گیا لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہیدوں اور90 زخمیوں کا کیس ابھی تک انصاف کے لیے سوال کی صورت میں موجود ہے۔

سابق مرحوم وزیراعظم بھٹو کو نواب احمد خان کے قتل کیس میں ضیا الحق کے دور میں سزائے موت سنائی گئی اور اس پر عملدرآمد بھی کردیا گیا۔ اگرچہ بھٹو نے یہ قتل نہیں کیا تھا بلکہ انھیں سزائے موت اس قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں سنائی گئی تھی۔ طاہر القادری اور ان کی جماعت کا الزام ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی اصل ذمے داری بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر آتی ہے اور طاہر القادری کا موقف یہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کے حکم ہی پر گولیاں چلائی گئیں اور 14 کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ اگر طاہر القادری اور ان کی جماعت اس کیس کے ملزمان کی گرفتاری اور قانون کے مطابق سزا کا مطالبہ کر رہی ہے تو کیا ان کے مطالبے کو غلط اور قانون اور انصاف کے خلاف کہا جاسکتا ہے؟

دنیا میں امریکا قانون اور انصاف کی برتری کا سب سے بڑا علمبردار ہے، پسماندہ ملکوں کے خواص اس حوالے سے امریکا میں قانون اور انصاف کی برتری کے نظام کی مثال پیش کرتے ہیں۔ امریکا کا ایک شہری ریمنڈ ڈیوس دن کے اجالے میں لاہور کے شہریوں کے سامنے دو بے گناہ افراد کو قتل کردیتا ہے اور امریکا کی حکومت پاکستان کی حکومت پر دباؤ ڈالتی ہے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کو امریکا واپس آنے کی سہولت فراہم کرے۔

امریکا میں اس وقت ایک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے اور قانون اور انصاف کی برتری پر فخر کرنے والا صدر برسر اقتدار ہے ریمنڈ ڈیوس پر دو افراد کے قتل کا الزام ہے اور یہ قتل دن کے اجالے میں درجنوں افراد کے سامنے ہوا لیکن امریکی حکومت اس قاتل کو بچانا چاہتی ہے اور قانون اور انصاف کا خون کرکے دو بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو بچالیا گیا۔ دیت کے نام پر ایک ڈرامہ رچایا گیا اور اس ڈرامے کے ذریعے دو افراد کے قاتل کو بحفاظت امریکا لے جایا گیا۔

ایک پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی کو امریکی سپاہیوں پر مبینہ حملے کے جرم میں 86 سال کی سزا دی گئی اور یہ ضعیف العمر خاتون امریکا کی جیل میں قید 86 سال کی سزا بھگت رہی ہے۔ افغانستان کے علاقے میں امریکی سپاہیوں پر مبینہ طور پر حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں اس کے باوجود عافیہ کو 86 سال کی سزا سنائی گئی۔ کیا یہ سزا قانون اور انصاف کی برتری کے تصور کے مطابق ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں قانون اور انصاف کی برتری کی باتیں اور دعوے ایک بھدے اور بھونڈے ڈھونگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ اس نظام میں انتظامیہ عدلیہ پر حاوی ہوتی ہے اور عدلیہ کے فیصلے جن کا تعلق حکومتی مفادات سے ہوتا ہے حکمرانوں کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں جس کی بہترین مثال ریمنڈ ڈیوس کی آزادی اور عافیہ صدیقی کی سزا کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں اور پاکستان میں بھٹو کے قتل کی شکل میں عدلیہ پر انتظامیہ کی برتری کو دیکھا جاسکتا ہے۔

اگر طاہر القادری الزام لگا رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو بچانے کی کوشش اس لیے کی جا رہی ہے کہ اس سانحے کے کیس میں میاں برادران بھی نامزد ہیں تو کیا طاہر القادری کے اس الزام کو رد کیا جاسکتا ہے؟ گلوبٹ گاڑیوں کے شیشے توڑنے کے جرم میں 11 سال کی سزا بھگت رہا ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہیدوں کے ملزمان آزاد ہیں کیا یہ امتیاز قانون اور انصاف کی برتری کے تصور کے مطابق ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔