امن کا نیا باب

تنویر قیصر شاہد  پير 24 نومبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اگلے ماہ کی پندرہ تاریخ کو شمالی وزیرستان میں بروئے کار آنے والے ضربِ عضب آپریشن کو چھ مہینے مکمل ہوجائیں گے۔ یہ آپریشن ہر لحاظ سے اپنے اہداف حاصل کرتا کامیابیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنے متعدد بیانات میں جس اسلوب میں کہا ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہے گا، اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس کی اختتامی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

متعلقہ عسکری ذمے داروں کا کہنا ہے کہ وہ اس آپریشن کے دوران سولہ سو سے زائد ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کو ان کے فطری انجام تک پہنچا چکے ہیں۔ لاریب ان ظالموں کو بیرونی امداد بھی مسلسل ملتی رہی اور بعض گروہ ضربِ عضب کے سامنے مزاحم بھی رہے لیکن یہ مزاحمت پائیدار تھی نہ اس میں جان باقی رہی تھی؛ چنانچہ ایک کے بعد دوسری مزاحمتی دیوار گرتی چلی گئی۔ یہ آپریشن آسان نہیں ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز کا بھی نقصان ہوا ہے۔

نوجوان فوجی افسر میجر واصف شہید کو چند روز پہلے پشاور کے مضافات میں جب پورے فوجی اعزاز کے ساتھ اللہ کے سپرد کیا جارہا تھا تو یہ منظر اس امر کا گواہ تھا کہ ملک دشمنوں کے مکمل خاتمے کی اس جنگ میں افواجِ پاکستان کے جوان اور افسر بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں لیکن یہ نقصان دشمن کے جانی نقصان سے تقریباً چھ گنا کم ہے۔ آئی ایس پی آر کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ گزشتہ 170 دنوں کے دوران ہماری سیکیورٹی فورسز کے تین سو افراد کی جانیں خدا کی رحمت میں جاچکی ہیں۔

اس عرصے کے دوران ہمارے عسکری اداروں نے شمالی وزیرستان سے بھاری تعداد اور مقدار میں دشمن سے جو جدید ترین اسلحہ پکڑا ہے، اسے پیشِ نگاہ رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ وطنِ عزیز کے دشمنوں نے تباہی کا لمبا ہی پلان بنا رکھا تھا لیکن خدا کی نصرت سے ہمارے عسکری اداروں نے ضربِ عضب آپریشن پوری طاقت سے بروئے کار لا کر تباہی کے سارے منصوبے ملیامیٹ کردیے ہیں۔ پکڑے جانے والے اس اسلحہ میں بھارتی ساختہ جدید ترین بندوقیں، راکٹ لانچرز، دستی بم اور دیگر جنگی سازوسامان بھی ہاتھ لگا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ بھارت ایک طرف تو پاکستان سے دوستی، تعاون اور امن کے تحت تجارت کی باتیں کرتا ہے اور دوسری جانب ہماری سرزمین پر شرانگیزی اور مرکز گریز عناصر کو مسلح کرنے کی سازشوں اور شرارتوں سے باز نہیں آرہا۔ واہگہ بارڈر پر جو خونریز سانحہ پیش آیا ہے، بعض باخبر اسے بھارتی سازشوں سے منسلک کرتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ضربِ عضب آپریشن کی کامیابیوں سے بہت سی قوتوں اور ممالک کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ بھارت ان میں سرِ فہرست کہا جاسکتا ہے؛ چنانچہ یہ خونی منظر سب پاکستانیوں سمیت غیر ممالک کی اقوام اور حکمرانوں نے بھی دیکھا ہے کہ جب سے ضربِ عضب آپریشن بتدریج کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے، بھارت مسلسل ورکنگ بائونڈری اور ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں کرتا آرہا ہے۔

مودی سرکار اور بنیے کی یقینا یہ نیت تھی کہ اس آپریشن کی کامیابیوں میں رکاوٹ اور کھنڈت ڈال کر پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی توجہ کے ارتکاز کو منتشر کیا جائے۔ بھارت کی طرف سے یہ عمل دراصل دہشت گردوں کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ اس دوران امریکا کی طرف سے جاری ہونے والی ایک بے بنیاد اور الزامی رپورٹ نے بھی ہمارا دل کھٹا کیا۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے خلاف اور بھارت کے حق میں امریکی رویہ نظر آتا ہے۔

پاکستان کی طرف سے اگرچہ اس کا فوری طور پر نوٹس لیا گیا اور اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر کو وزارتِ خارجہ میں بلا کر مشیر خارجہ نے سخت احتجاج بھی کیا لیکن جو نقصان دینا مقصود تھا، وہ تو اپنا نقش چھوڑ گیا۔ امریکا کی طرف سے پاکستان کے خلاف جاری کی جانے والی اس رپورٹ نے پاک امریکا تعلقات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ بات ایک بار پھر راسخ ہوگئی ہے کہ امریکا دو مونہا ہے۔

یقینا اس تہمتی رپورٹ سے بھارت کی باچھیں تو کھلی ہوں گی لیکن پاکستان میں اسے سخت ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا (سچی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا کوئی وزیرخارجہ نہ ہونا بار بار کھٹک رہا ہے)۔ چنانچہ جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں امریکا کا جو سات روزہ دورہ کیا ہے، اس کا غالباً ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان کا بذاتِ خود امریکی حکام اور ذمے دار عسکری اداروں کو بریف کرنا تھا کہ پاکستان نے ضربِ عضب آپریشن کس اخلاص سے کیا ہے اور یہ دہشت گردوں کی جڑیں اکھاڑنے اور دہشت گردی کی نرسریوں کے خاتمے میں کس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

جنرل راحیل شریف نے بجا طور امریکی عسکری حکام کے سامنے یہ شکوہ کیا ہے کہ ہماری سرحدوں پر بھارتی شرارتوں کی وجہ سے ضربِ عضب آپریشن پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جنرل صاحب نے اس دورے میں امریکیوں کو یہ یاد دلا کر بجاطور پر نادم کیا ہے کہ پاکستان نے یقین دہانیوں کے بعد اپنی مغربی سرحد پر ایک لاکھ چالیس ہزار فوج تعینات کی تھی اور ہمیں یہ بھی یقین دلایا گیا تھا کہ ہماری مشرقی سرحدیں محفوظ رہیں گی۔

اس استدلال کے بعد اب گیند امریکی حکام کی کورٹ میں ہے۔ امریکا بہادر کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان سے دوغلی پالیسی زیادہ دنوں چلنے والی نہیں۔ یہ پہلو بہرحال مسرت انگیز اور طمانیت کا باعث ہے کہ واشنگٹن میں ہمارے سپہ سالار کا کھلے بازوئوں سے استقبال کیا گیا۔ اب ’’را‘‘ کے ہوش بھی ٹھکانے آجانے چاہئیں اور نریندر مودی پر بھی واضح ہوجانا چاہیے کہ پاکستان کسی بھی شکل میں بھارت کا باجگزار ہے نہ اس کا ماتحت ملک۔ پاکستان پر آئے روز دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات لگا کر بھارت عالمی برادری کے سامنے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

ضربِ عضب آپریشن کی کامیابیوں سے افغانستان اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کو بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ اس دوران انھوں نے کئی بار بھارت کی بانھوں میں بانھیں ڈال کر پاکستان کے خلاف دل آزار بیانات دیے مگر پاکستان ان بیانات سے صرفِ نظر کرکے مسلسل صبر کا مظاہرہ کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس شخص سے اب گلو خلاصی ہوچکی ہے اور نئے منتخب افغان صدر جناب اشرف غنی نے جگہ سنبھال لی ہے۔ ماہرِ اقتصادیات اشرف غنی صاحب ایک متحمل اور بردبار آدمی ہیں اور محتاط زبان میں بیان دینے کے عادی۔

انھوں نے پاک افغان تعلقات کو نئے سرے سے دیکھا ہے اور وہ دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے پاکستان کی مدد کے خواہاں ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ یہ ایک سنجیدہ اور سوچا سمجھا ہوا وزٹ تھا۔ وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد ان کا راولپنڈی میں جی ایچ کیو جانا اور جنرل راحیل شریف سے ملنا پاک افغان تعلقات کی مضبوطی اور مغربی سرحدوں کے آر پار دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خاتمے کا عنوان ثابت ہوگا۔

حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرف سے معزز افغان صدر کو تعاون کی جو آفرز کی گئی ہیں، اس کے بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ چنانچہ ہم بحیثیتِ مجموعی یقین رکھ سکتے ہیں کہ افغان صدر اور افغان فوج کے تعاون سے ضربِ عضب آپریشن بھی کامل طور پر کامیاب ہوگا اور پاکستان کی سلامتی کے جن دشمنوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے، وہ بھی پاکستان کے حوالے کردیے جائیں گے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز بھی تو حقانی نیٹ ورک سے، دوسرے دہشت گردوں کی طرح، یکساں نمٹ رہی ہیں۔ اب پاک افغان رہنما گلے سے گلے ملے ہیں تو سارے گِلے بھی جاتے رہیں گے۔ وزیراعظم جناب نواز شریف بھی تو اس سلسلے میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔ وہ افغانستان کا دورہ کرکے اشرف غنی پر سبقت لے جاچکے ہیں۔

امید کی جاسکتی ہے کہ پاک افغان تعلقات میں امن کا ایک نیا باب رقم کیا جائیگا۔ اس کا سہرا ضربِ عضب آپریشن کے سر باندھا جائے گا اور ان شہداء کے سر  پر بھی جنھوں نے ہمارے کل کے تحفظ کی خاطر اپنی جانیں پاکستان پر قربان کردی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔