(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ڈیوٹی کا ٹائم

عدیل خان طاہر خیلی  پير 24 نومبر 2014
کھیلنے کودنے کی عمر سے لے کر جذبات سے بھر پور جوانی تک سب کچھ میں نے یہاں لٹا دیا ہے۔  فوٹو رائٹرز

کھیلنے کودنے کی عمر سے لے کر جذبات سے بھر پور جوانی تک سب کچھ میں نے یہاں لٹا دیا ہے۔ فوٹو رائٹرز

آگ اور دھویں سے سیاہ ہو چکے چولہے پر رکھی چھوٹی سی پتیلی میں چائے کو ابھار آ چکا تھا، جیسے ہی پتیلی کو اُس نے اُٹھا یا بوسیدہ ہو چکے چولہے کے پیچھے سے لال بیگوں کا ایک خاندان تیزی سے کسی اور اوٹ کی تلاش میں بھاگا۔ پتیلی سے ڈھکن اتارتے ہی بھاپ کا ایک مرغولہ اُس کے چہرے کی جانب اُٹھا جس سے اُس کی سفید داڑھی اور گہری ہوتی جھریوں میں بزرگی کے تاثر میں مزید رنگ بھر گیا۔

آپ کب ادھر آئے تھے؟ میں نے پشتو زبان میں برجستہ ایک سوال داغ دیا ، وہ مسکرا دیا، وہ ایک دکھی مسکراہٹ ہزاروں مجروع جذبات اور خواہشات کی ترجمان تھی۔

یہ جان کر کیا کرو گے؟ ادھ دھلے ہوئے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے خالص قبائلی پشتو میں اُس نے پلٹ کر سوال کیا؟ میں خاموش ہو گیا۔ چائے کپ میں ڈالنے کے بعد وہ سیدھا ہو کر کھڑا ہو گا، اُس کے ہاتھوں کی سختی اُس کے زندگی کا خلاصہ کر رہی تھی۔

مختصر خاموشی کے بعد وہ خود کلامی کے انداز میں بول اُٹھا ابھی تو میر ی داڑھی بھی نہیں آئی تھی ، بے ساختہ اُس کا ہاتھ اپنی داڑھی کی طرف اٹھا جس میں اب کوئی بھی کالا بال نہیں بچا تھا، اُس کی نظریں ایک نقطے پر مرکوز ہو گئیں تھیں، اور وہ اچانک سوچ میں ڈوب گیا تھا، جیسے اُس سے کسی نے اُ س کا کوئی بہت قیمتی سرمایا چھین لیا ہو، اور اب اس نقصان پر وہ دفاع کرنے، پریشانی ، ا فسوس اور بے بسی کی حدو دسے آگے خود سپردگی پر قائل ہو چکا تھا۔

کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ زندگی کے سال کہاں چلے گئے، جوانی کے بہاریں میں نے تپتے ہوئے صحراؤں میں گزاری ہیں، چڑھتی جوانی میں جب باقی ہم عمر اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی آبیاری کر رہے ہوتے ہیں ، میں یہاں عملی زندگی کی سختیوں سے کھیل رہا تھا۔ کب شادی ہوئی، کب بچے جوان ہوئے، کب اُن کے شادی ہوئی اور اُن کے بچے ہو ئے، کچھ سمجھ نہیں آیا، پہلے بہن بھائیوں کے لئے کمایا، پھر گھر بار بیوی بچوں کے لئے کمایا، اس دوران میں کہاں گم ہو گیا، میں کہاں رہ گیا کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔

بس زندگی ایک مشین کی طرح گزر گئی، یہاں گھر کے خیال ستاتے تھے، اور جب چھٹی پر گھر جاتے تو واپس آنے کی فکر لگی رہتی تھی،
کھیلنے کودنے کی عمر سے لے کر جذبات سے بھر پور جوانی تک سب کچھ میں نے یہاں لٹا دیا، اب میری جھولی میں کچھ بھی نہیں سوائے اس بڑھاپے کے، جب بچے چھوٹے تھے اور بیوی جوان تھی اور اُن کو میری اور مجھے اُن کی ضرورت تھی تو میں یہاں تھا، اب جب بچے جوان ہو گئے، بیوی بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئے تو اُن کو میری ضرورت بھی نہیں رہی، ساری زندگی میں پیسے کمانے کی ایک مشین بنا رہا۔ گاؤں جاتا ہوں تو کوئی یہ نہیں پوچھتا کتنے دن سال او رمہینے تم نے اپنوں سے دور گزارے؟ تم کس کس تکلیف سے گزرے، تمہارے کون کون سے ارمان تھے؟ تم نے اپنی کس کس ضرورت کی گردن پر پائوں رکھ کر وقت گزرا؟

سب صرف ایک بات ہی پوچھتے ہیں کہ تم نے کتنا کمایا؟

سر کو ایک ہلکی سی جنبش دے کر وہ خاموش ہو گیا ، جیسے ماضی کے دکھوں کا بوجھ اُس کے لئے ناقابل ِ برداشت ہو رہا تھا، بے دھیانی میں وہ چائے کی پتیلی دھونے لگا، اور ایک نظر باہر دھوپ میں ٹنگے اپنے کپڑے کو بھی دیکھنے لگا اور بڑا بڑیا” شاید سوکھ گئے ہیں ِ، باقی کپڑے بھی دھو لیتا ہوں ” ۔ چائے کا کپ ہاتھ میں اُٹھا کر بغیر کچھ کہے وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چل دیا، شاید اُسکی ڈیوٹی کا ٹائم ہونے ولا تھا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔