چند چشم کشا رسیدیں

تنویر قیصر شاہد  منگل 25 نومبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

چند روز قبل انھی صفحات پر ہمارا ایک کالم بعنوان ’’زرخرید ایجنٹ‘‘ شایع ہوا۔ یہ دراصل اسلام آباد میں مقیم ایک مولوی صاحب کے لکھے گئے مضمون کا جواب تھا جس میں آنجناب نے ترکی کے بابائے قوم غازی مصطفی کمال پاشا المعروف اتاترک کو انگریزوں کا ’’زرخرید ایجنٹ‘‘ لکھا تھا۔ ہم نے اپنے کالم میں یہ گزارش کرنے کی کوشش کی تھی کہ اتاترک مرحوم ایک آزاد ملک کے بانی اور بابائے قوم ہیں، اس لیے انھیں اس طرح کے دل آزار القابات سے لکھا اور پکارا نہ جائے۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک غیر ملک کے ’’فادر آف دی نیشن‘‘ کے بارے میں لکھے جانے والے اس کالم کا اتنا ردِعمل ہوگا۔ سب سے پہلے ایک سینئر عسکری افسر نے یہ پیغام بھیجا: ’’مَیں آپ کے خیالات سے متفق ہوں۔ چند سال پہلے مَیں ترکی کے دورے پر گیا تو بڑے شوق اور عقیدت بھرے جذبات سے اتاترک کے مقبرے پر حاضر ہوا۔ ان کے لیے دعائے مغفرت بھی کی اور اس عظیم لیڈر کو سیلوٹ بھی کیا۔‘‘

اس کالم پر جناب سلیم منصور خالد کا برقی خط بھی موصول ہوا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’جس مولوی صاحب نے اتاترک کو زرخرید ایجنٹ لکھا، وہ بھی اور آپ بھی، دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ وہ (مولوی صاحب) مصطفی کمال پاشا (اتاترک) کو DEVIL (شیطان) قرار دینا چاہتے ہیں اور آپ اتاترک کو ANGEL(فرشتہ) بنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح تو آپ دونوں ملّا ازم کے راستے پر گامزن ہیں۔ امید ہے کہ متوازن تحریر سچائی کی جانب لے جائی گی۔ یہ واضح کردوں کہ مَیں ملّا ہوں نہ مولوی لیکن یہ چاہتا ہوں کہ تنویر قیصر شاہد Intellectual بنے، نہ کہ Reactionary جیالا۔‘‘ پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب لاہور کے ایک کالج میں مدرّس ہیں۔

جماعت اسلامی کی ترجمانی بھی کرتے رہتے ہیں اور جماعتِ اسلامی پاکستان کے ترجمان جریدے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ان کی تحریریں بھی وقتاً فوقتاً شایع ہوتی رہتی ہیں ۔ پروفیسر سلیم منصور خالد کو گلہ ہے کہ اتاترک ایسے سیکولر لیڈر کی کسی بھی شکل میں ستائش کیوں؟ لیکن صدر جنرل یحییٰ خان ایسے کٹڑ سیکولر حکمران کی قیادت میں انھیں مشرقی پاکستان میں مسلح جماعتیں بنانے پر کبھی اعتراض نہ تھا اور نہ ہی بھٹو صاحب ایسے سیکولر حکمران جب بانی جماعت اسلامی سے ملنے ان کے دفتر چلے جاتے تھے، تب بھی ان کی سیکولر ازم سے نفرت ملاقات کرنے سے انکار کا سبب نہیں بنتی تھی۔ حیرت ہے کہ جماعت اسلامی کے ایک رہنما ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب چند دنوں کے لیے ترکی جاتے ہیں اور آتے ہی 190صفحات پر مشتمل کتاب ’’سفر نامۂ ترکی‘‘ لکھ مارتے ہیں جس میں موجودہ ترک حکمرانوں کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے تو ملائے جاتے ہیں لیکن اتاترک کے فیصلوں اور شخصیت سے کد پھر بھی قائم رہتی ہے۔ سبحان اللہ۔

سابق سینئر سفارت کار اور صاحبِ اسلوب لکھاری جناب نذر عباس کا بھی ردِعمل آیا ہے۔ عباس صاحب کی شایع شدہ نہایت قیمتی یادداشتوں کے چند دل کشا اقتباسات ہم نے متذکرہ کالم میں بھی شایع کیے تھے۔ انھوں نے ای میل میں لکھا ہے: ’’جس صاحب نے ترکی کے بابائے قوم کو ’’زرخرید ایجنٹ‘‘ کے نام سے یاد کیا، مجھے اس پر گہرا دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ یہ سنگین الزام عائد کرنے والے جانتے نہیں ہیں کہ اتاترک سے ترک عوام  محبت کرتے ہیں۔‘‘ جناب نذر عباس نے اس سلسلے میں ایک حیرت انگیز واقعہ بھی لکھ بھیجا ہے: ’’مَیں ترکی میں بطور سفارتکار فرائض انجام دے رہا تھا کہ یہ واقعہ رونما ہوا۔ ایک جرمن سیاح انقرہ کے ایک فٹ پاتھ پر بیٹھا سستا رہا تھا۔

وہ سیگریٹ بھی نوش کر رہا تھا اور اس کے ایک ہاتھ میں ترکی کا ایک کرنسی نوٹ بھی تھا جس پر اتاترک کی فوٹو چھپی تھی۔ شاید اس نے بے دیہانی سے سیگریٹ کی راکھ کرنسی نوٹ پر اس جگہ گرادی جس مقام پر مصطفی کمال پاشا اتاترک کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے اہلکار نے یہ منظر دیکھتے ہی جرمن سیاح کو گرفتار کرلیا کہ اس نے بابائے قوم اتاترک کی توہین کی ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ترک اپنی عزت کروانا خوب جانتے ہیں۔

یہ ایک عظیم قوم ہے اور پاکستان کی دوست بھی۔ جو لوگ اتاترک کو ’’زرخرید ایجنٹ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، انھیں اس کا احساس کرنا چاہیے۔‘‘ نذر عباس صاحب درست کہتے ہیں لیکن ہم تو ایسی قوم ہیں جس کے کئی رہنما ابھی تک بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کی ذاتِ گرامی میں نقص نکالتے ہیں، ان کے بارے میں دل آزار کتابیں لکھی جاتی ہیں اور ہمارے ہاں تو ایک ایسی سیاسی و دینی جماعت بھی ہے جو کئی برسوں سے اقتدار میں ہے لیکن اس کے سربراہ نے آج تک قائداعظم کے مزار پر جانے کا تکلّف گوارا نہیں کیا ہے۔

ایک قاری جناب عرفان خالد نے کسی جناتی زبان میں ہمیں اسی حوالے سے طویل ای میل ارسال فرمائی ہے۔ بڑا زور لگا کر اسے پڑھا ہے اور جو بات میری سمجھ میں آسکی ہے، وہ یہ ہے کہ انھیں اتاترک مرحوم کے بارے میں ہمارے تو صیفی کلمات پسند نہیں آئے۔ وجہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ اتاترک سیکولر حکمران تھے۔ ہمارے لیے عرفان خالد صاحب کے مزید مذمتی الفاظ یہاں درج نہیں کیے جاسکتے۔ اس کے باوجود ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ بھلا علامہ اقبال، اتاترک کو کیسے پسند کرسکتے تھے؟ ان کی خدمت میں فرزندِ اقبال جسٹس (ر) جاوید اقبال کے چند جملے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

وہ اپنی سوانح حیات ’’اپنا گریبان چاک‘‘ (صفحہ 199) میں لکھتے ہیں: ’’مَیں نے ترکی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں دیے گئے لیکچرز میں ترک عوام کو بتایا کہ علامہ اقبال کمال اتاترک کی اصلاحات سے متاثر تھے اور یہ کہ ترکی کے ’’سیکولرازم‘‘ سے اسلامی تشخص نہیں بدلا۔ مَیں نے اپنے ترک سامعین کو یہ بھی بتایا کہ علامہ اقبال کی وفات سے چند ہفتے پہلے جنوبی افریقہ سے مسلمانوں نے اطلاع دی کہ ان کی صحت یابی اور درازیٔ عمر کے لیے ڈربن کی تمام مساجد میں دعا کی گئی ہے۔

علامہ اقبال نے جواب دیا کہ مَیں تو اپنا کام ختم کرچکا ہوں، اگر درازیٔ عمر کی دعا کرنی ہے تو کمال اتاترک اور جناح کے لیے کرو۔‘‘ جناب جاوید اقبال نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اتاترک نے جب ترک خلیفہ سلطان عبدالحمید کو برطرف کردیا تو اس موقع پر انھوں نے جو فیصلے کیے، سید جمال الدین افغانی علیہ رحمہ نے بھی مصطفی کمال کے ان فیصلوں سے اتفاق کیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔