امن کے پودے

راؤ منظر حیات  منگل 25 نومبر 2014
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

جب سیاست دان روایت اور پیسے کی ہوس کا شکار ہوجائیں توقدرت عام آدمیوں کووہ جرات اورطاقت عطا کر دیتی ہے کہ وہ نظام کوتبدیل کردیتے ہیں۔عام آدمی ہی وہ موثر قوت ہے جو ہرملک کااصل خزانہ ہے!جس دن وہ معاملات کوسمجھ گیا،حالات خودبخودبہتر ہوجائینگے۔ کوئی بھی انھیں روک نہیں سکتا۔

ماتھائی اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ایک چھوٹے سے گاؤں”احیتی” (Ihithe)میں پیداہوئی۔ 1940 کا کینیا کیا ہوگا۔آپ چشم تصورسے اندازہ لگائیے توجہالت،غربت اورتشددکی آماجگاہ!وہ”کیکوبو”قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی۔اس کے گاؤں میں کسی قسم کاکوئی کام نہیں تھا۔اس کے والدنے گاؤں سے ہجرت کرنے کے بعد ایک انگریزکے زرعی فارم پرنوکری کرلی۔نوکری سے یہ خاندان اس قابل ہوگیاکہ دووقت کی روٹی نصیب ہو۔”ماتھائی”کوپڑھنے کاشوق تھا۔

اس نے ایک کیتھولک اسکول میں داخلہ لے لیا۔ یہاں اس نے ایک اورچیزسیکھی کہ “خداسے محبت کا اصل راستہ اس کے بندوں سے محبت کرنے کا ہے”۔اس نظریہ نے اس بچی کی زندگی بدل ڈالی۔ کینیااب آزادی کے نزدیک تھا۔امریکا کے ایک امیر شخص اور سیاستدان جان ایف کینڈی نے ایک سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بقول افریقہ کے غریب بچوں کومعیاری تعلیم کااتناہی حق ہے جتناعام امریکی کو!اس اچھوتی اسکیم کے تحت ماتھائی کوکینسس(Kansas)میں ایک بہترین کالج میں پڑھنے کاموقعہ ملا۔

اس کے شوق کودیکھ کراسے ایک پرائیویٹ ادارہ نے اتنے پیسے مہیاکیے کہ وہ پٹسبرگ یونیورسٹی (Pisttsburg University)سے ماحولیات میں ڈگری لے سکے۔امریکا سے واپسی پراسے کسی بھی یونیورسٹی میں نوکری نہ مل سکی۔بہت مشکل سے جرمنی کے ایک پروفیسر”ہوف مین” (Hofmann)نے نیروبی میں اسے ایک ریسرچ اسسٹنٹ کی نوکری دیدی۔ماتھائی نے شہرمیں ایک چھوٹی سی دکان کھول لی۔جہاں وہ اوراس کی بہنیں کام کرتی تھیں۔اس کی اہلیت کودیکھ کرپروفیسر ہوف مین نے اسے جرمنی کی ایک بہترین یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے میں بھرپورمددکی۔وہ مشرقی افریقہ کی پہلی سیاہ فام عورت تھی جس نے ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کی۔

1972میں اس نے نیروبی کی واحدیونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا۔اس نے یونیورسٹی میں ایک “ٹریڈ یونین” بنا ڈالی۔اسکامقصد کام کرنے والی خواتین کے لیے حقوق حاصل کرناتھا۔یونیورسٹی نے اس کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔عدالت نے یونیورسٹی کی بات مان لی۔فیصلہ ماتھائی کے خلاف آیا۔مگراس عورت نے ہارنہ مانی۔اس نے یونیورسٹی میں ایساماحول پیداکردیاکہ انتظامیہ  نے مجبورًااس کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے۔

تدریس کے ساتھ ساتھ اس نے ماحولی آلودگی کے خلاف مہم چلانے کابھی فیصلہ کیا۔اس کے مطابق کینیاکاسب سے بڑامسئلہ آلودگی ہے۔اس نے نیروبی میں ماحولیات کاایک سینٹرقائم کیا اور اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے سے ملکرکام کرنا شروع کردیا۔سترکی دہائی میں اس نے نوجوانوں کاسب سے بڑامسئلہ یعنی”بے روزگاری”کوشدت سے محسوس کیا۔اس کے ذہن میں ایک اچھوتاخیال آیا۔اس نے ماحولیاتی آلودگی اور بے روزگاری میں ایک رابطہ پیداکرڈالا۔ “Enviocare” کے نام سے اس نے ایک پروگرام ترتیب دیا۔اس پروگرام کا مقصدملک میں نوجوانوں کوپودے لگانے کاکام کروانا تھا۔ جوجتنے پودے لگاتاتھا،اسکواتنے ہی پیسے مل جاتے تھے۔ سب سے پہلے یہ کام”کرورا” (Karura)کے جنگل میں شروع کیاگیا۔یہ پروگرام صرف اس وجہ سے فیل ہوگیاکہ “ماتھائی”کے پاس مالی وسائل نہیں تھے۔

اس ناکامی کے اندراس کی اصل کامیابی پوشیدہ تھی۔بین الاقوامی اداروں نے اس کے کام میں دلچسپی لینی شروع کردی۔اس عورت نے زندگی میں اپنا راستہ خود تلاش کرنے کا فیصلہ کیاہوا تھا۔ 1977 میں اس نے ایک جلوس کی قیادت کی،جس میں ہزاروں لوگ موجودتھے۔اس نے نیروبی شہرکے نزدیک کاموکنجی(Kamu Kunji)پارک میں عام شہریوں سے سات پودے لگوائے۔ ہرپودااس آدمی کی خدمات کااعتراف تھاجولوگوں کی خدمت کرتاتھا۔یہ نیروبی کی پہلی”گرین بیلٹ” تھی۔ ان سات پودوں سے دنیاکی ایک عظیم تحریک شروع ہوئی جسکا نام” گرین بیلٹ تحریک”تھا۔کینیامیں1979میں ڈینیل موئی (Daniel Moi) ملک کاصدربن گیا۔

وہ ایک روایتی سیاستدان تھا۔ لوگوں کے مسائل سے بے خبراورکرپشن سے لبریز!اسکوماتھائی میں ایک خطرناک سیاسی حریف نظرآیا۔ موئی نے ہرسطح پرماتھائی کوبدنام اورخراب کرنے کی حکومتی مہم شروع کردی۔ماتھائی نے پارلیمنٹ کے لیے الیکشن لڑنے کافیصلہ کرلیا۔ ریڑننگ افسرنے حکومت کے حکم پراس کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے۔وہ عدالت میں چلی گئی۔عدالت بھی ملک کے صدرکے سامنے بے بس تھی۔عدالت نے بھی اسے الیکشن میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا۔اس فیصلہ کے بعد ماتھائی کا یہ احساس اوربڑھ گیاکہ ملک میں انصاف، جمہوریت اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کاکوئی معیاری نظام موجودنہیں ہے۔

اس نے ان تمام اہداف حاصل کرنے کے لیے ایک اجتماعی تحریک شروع کردی۔حکومت نے اسے یونیورسٹی کی نوکری سے برخواست کردیا۔ ماتھائی نے ہارنہ مانی۔اس نے اپنی”گرین بیلٹ تحریک”جاری رکھی۔ ناروے حکومت نے اس کام میں اسکاہاتھ تھام لیا۔وہ لوگوں کو پودے لگوانے کے نہ صرف پیسے دینے لگی بلکہ اگرکوئی عورت یہ کام کرتی تھی تواس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کے خاوندکوبھی معمولی سااعزازیہ شروع کردیاجاتاتھا۔صدرموئی نے طاقت سے اس مہم کو روکنے کی کوشش شروع کردی۔ماتھائی کوگرفتار کرلیا گیا۔ حکومت نے اسکو “پاگل عورت”کہناشروع کردیا۔لوگوں نے ماتھائی کی گرفتاری کے خلاف ہڑتالیں شروع کردیں۔

غیرملکی حکومتوں نے بھی صدرموئی پردباؤڈالاکہ وہ طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔ مجبوراً صدرموئی کوماتھائی کوجیل سے رہا کرنا پڑا۔پراب وہ عورت جدوجہدکا نشان بن چکی تھی۔اب “ماتھائی”کویہ احساس ہوچکاتھاکہ اپوزیشن آپس میں متحدنہیں ہے،اسلیے وہ حکومت کامقابلہ نہیں کرسکتی۔اس نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرناشروع کردیا۔اس نے 1992کے الیکشن میں تمام حکومتی مخالف جماعتوں کاایک پلیٹ فارم بنادیا۔مگرحکومتی وسائل اتنے زیادہ تھے کہ حکومتی جماعت کانو(Kanu)طاقت اورجبرکے استعمال سے دوبارہ جیت گئی۔اس عورت کے لیے حکومتی سطح پرزندگی جہنم بنادی گئی۔اسے قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔مگراس نے ہارنہ مانی۔

اپوزیشن کوکمزوردیکھ کرحکومت نے نجکاری کاایک بہت بڑاپروگرام شروع کردیا۔نیروبی کے نزدیک “کروراجنگل” کو فروخت کرنے کافیصلہ کیاگیا۔وہاں ساٹھ منزلہ اپارٹمنٹ بلڈنگ اورگالف کورس بنانے کامنصوبہ بنایاگیا۔ “ماتھائی” اپنے حمایتی پارلیمنٹ کے ممبران،اخباری نمایندوں اورلوگوں کے جم غفیر کے ساتھ اس جنگل میں منتقل ہوگئی۔اس نے نجکاری کوقبول کرنے سے انکارکردیا۔پولیس سے ہاتھاپائی میں وہ شدیدزخمی ہوگئی۔مگراس نے احتجاج جاری رکھا۔ماتھائی اب کینیاکی دیومالائی شخصیت بن چکی تھی۔عوامی دباؤکے تحت حکومت کوجنگل کی نجکاری کاپروگرام ختم کرناپڑا۔

صدرموئی نے اپنے اقتدارکو بچانے کے لیے کینیاکے دوقبائل،کیکویوز(Kikuyus)اورکالنجسز(kalenjins)میں جنگ شروع کروا دی۔وہ لوگوں میں ثابت کرناچاہتاتھاکہ صرف اس کی حکومت ہی ملک میں استحکام پیداکرسکتی ہے۔ماتھائی نے ایک عجیب اوربہادری والی حرکت کی۔جس علاقہ میں خوفناک قتل عام جاری تھا،وہ عام لوگوں کے ساتھ ان علاقوں میں منتقل ہوگئی۔حکومت نے اسے بہت ڈرایاکہ اسے قتل کردیاجائیگا۔مگرماتھائی نے وہاں لڑائی کوروکنے کے لیے دونوں قبائل کے سرداروں کواکٹھاکیا۔اس نے ان لوگوں سے قریبی جنگل میں پودے لگوانے شروع کردیے۔ماتھائی نے ان پودوں کو”امن کے پودوں”کانام دیدیا۔اس کی یہ کوشش کامیاب ہوگئی اورکینیامیں اندرونی جنگ ختم ہوگئی۔

2002کے الیکشن میں ماتھائی کی سیاسی پارٹی نے حکومت کوعبرتناک شکست دی۔اسکواپنے حلقے سے 98% ووٹ ملے۔اس نے وزیراعظم بننے سے انکارکردیا۔اس نے اپنے لیے ماحولیات کی وزارت کاانتخاب کیا۔وہ تمام لوگ، جنہوں نے دہائیاں اس پربے پناہ مظالم کیے تھے،اس کے کردارپرگھٹیاترین حملے کیے تھے،اس عظیم عورت نے ان تمام دشمنوں کومعاف کردیا۔2004میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں ننگے پیرپھرنے والی بچی کو”امن جمہوریت اور ترقی “کانوبل پرائزدیاگیا۔

ہمارے ملک میں شدیداندرونی اختلافات ہیں!ہم اپنے ہی ملک میں اپنے شہریوں سے جنگ کررہے ہیں۔ ہمارے لاکھوں لوگ بے گھرہوچکے ہیں۔وہ سرکاری کیمپوں میں بے سروسامانی کی تصویربن چکے ہیں!ہمارے شہروں میں ہروقت دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ روز نکلنے والاسورج اَن گنت اموات کی خبرلیکرطلوع ہوتاہے!ہم ایک ایٹمی قوت ہیں!ہمارے پاس مضبوط ترین فوج ہے!ہمارے پاس ہرادارہ موجودہے!مگرہمارے ملک میں “امن کے پودے”لگانے والاکوئی شخص موجودنہیں!جس دن وہ دیوانہ رہنماآگیا،ملک میں خودبخودامن آجائیگا!مجھے آج بھی یقین ہے کہ”امن کے پودے”لگ کررہینگے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔