- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
خواتین کے حقوق کیلئے قوانین موجود ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا، ایکسپریس فورم
لاہور: موجودہ حکومت نے 25ہزارخواتین کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرنے کا بل پاس کر لیا ہے اور اس کے علاوہ وراثت میں بھی خواتین کو حصہ دینے کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے۔
خواتین کے حقوق کیلیے بنائے گئے قوانین نمائشی ہیں کیونکہ ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا، عملی طور پریہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلیے ناکافی ہیں، معاشرے کو پر امن بنانے کیلئے سیاسی جماعتیں خواتین کے حقوق کو اپنے ایجنڈہ کا حصہ بنائیں ، خواتین کو حقوق دیے بغیر ہم دنیا میں تنہائی کا شکار ہوجائیں گے، بدقسمتی سے سالانہ5ہزارخواتین کی ا موات گھریلو تشدد کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سول سوسائٹی، حکومتی و اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا۔
پنجاب کے صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق خلیل طاہرسندھو نے کہاکہ خواتین کے مسائل صرف ایک فرد یا حکومت کی ذمے داری نہیں بلکہ یہ اجتماعی ذمہ داری ہے اور یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں جب بھی خواتین پر تشدد کا کوئی کیس ہوتا ہے تو عالمی سطح پر ہماری بدنامی ہوتی ہے لہٰذا ہمارے معاشرے میں سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی مجرم سزا سے نہ بچ سکے۔
موجودہ حکومت نے 25 ہزار خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرنے کا بل پاس کرلیا ہے اور اس کے علاوہ وراثت میں بھی خواتین کو حصہ دینے کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے جس کے تحت عورت کو اس کا حصہ بروقت ملے گا اور اس کے اکائونٹ میں منتقل کردیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنی فرسودہ روایات کو ختم کرنا ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بیگم بیلم حسنین نے کہاکہ پیپلز پارٹی نے اپنے ہردور میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے بڑھ چڑھ کر آواز اٹھائی اور خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے زیادہ بل بھی ہمارے دور میں ہی پاس ہوئے۔ انھوں نے کہا ہمارے دور میں عورت کو ہراساں کرنے والے بل سے کافی فرق پڑا تھا مگر موجودہ حکومت کے دور میںکچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہم خواتین کے حقوق کے علمبردار ہیں اور ہم ہمیشہ عورت کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں اور اس سے عورتوں کو تقویت ملی۔ حکومت کو بچیوں کی تعلیم کیلیے اقدامات کرنے چاہیں اور انھیں مفت تعلیم دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قوانین موجود ہیں مگر ذمے دارکوسزا نہیں دی جاتی لہٰذا قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی سعدیہ سہیل رانا نے کہاہم خوش نصیب ہیں کہ اسلام نے عورت کو حقوق اور معاشرے میں عزت دی، ہمارے معاشرے میں عورت کو ہر سطح پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ہر شعبے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔