(پاکستان ایک نظر میں) - شاباش نوید بٹ ۔۔۔۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی

محمد عثمان فاروق  منگل 25 نومبر 2014
اگر اِس کھلاڑی کی حمایت کیجائے تو یہ نہ صرف پاکستان کو مزید کئی میڈل دلواسکتا ہے بلکہ اپنے جیسےکئی نوید بٹ تیار کرسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

اگر اِس کھلاڑی کی حمایت کیجائے تو یہ نہ صرف پاکستان کو مزید کئی میڈل دلواسکتا ہے بلکہ اپنے جیسےکئی نوید بٹ تیار کرسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

اسوقت وطن عزیز  میں ہر روز ہمیں اخبارات میں خون خشک کرنے والی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہر سو برائی اور پریشانی ہے اور اچھائی اور امید کوسو دور ہے۔ مگر ضروری نہیں جو نظر آئے بس وہی حقیقت ہو ، کچھ باتیں اور حقیقت وہ بھی ہوتی ہیں جو عموماً نظروں سے اوجھل ہوا کرتی ہیں۔

ایسی ہی ایک حقیقت نوید بٹ پاکستان کا وہ بیٹا ہے جو پولیو کی وجہ سے ٹانگوں سے معذور تھا لیکن اس نے اپنی معذوری کو اپنے مشن کے آگے آڑے نہ آنے دیا اور کیلیفورنیا میں ہونے والے باڈی بلڈنگ مقابلے میں 35ممالک کو پچھاڑتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کیا ۔ نوید بٹ نے ثابت کیا کہ پاکستانی وہ قوم ہے جو مشکلات اور پریشانیوں درمیان بھی معجزے دکھا سکتی ہے ۔ نوید بٹ نے پوری دنیا کو بتادیا کہ عزم جواں ہو تو معذوریاں اور لاچاریاں انسان کو منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتیں ۔نوید بٹ ان لاکھوں نوجوان کے لیے مثال ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی نا کسی پریشانی کا رونا رو کر چپ کرکے بیٹھ جاتے ہیں ۔

ان حالات میں جب دنیا بھر کا میڈیا پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے،  ایسے حالات میں نوید بٹ کی کامیابی دراصل دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ اگر پاکستانی نوجوان دشوار حالات اور خراب سہولیات کے باوجود 35خوشحال ممالک کے کھلاڑیوں کو پچھاڑ سکتا ہے تو ذرا سوچیئے اگر پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں اور نوید بٹ جیسے لوگو کو سرکاری سرپرستی مل جائے تو یہ نوجوان کیا کمال کرسکتے ہیں ۔

پولیو جیسی بیماری جو جسم کے جس حصے کو لگ جائے وہاں سے روح کھینچ لیتی ہے۔ جسم سوکھ کر ناکارہ ہوجاتا ہے۔ زندگی ایک عذاب لگنے لگتی ہے۔ امیدیں ویران ہو جاتیں ہیں ۔بیساکھیاں اور وہیل چئیر عمر بھر کا مقدر بن جاتیں ہیں۔ ایسے حالات میں نوید بٹ نے یہ مقابلہ جیتا ۔ ایک طرف شدید جسمانی معذوری دوسری طرف خراب ملکی حالات بالکل اردو کے اس شعری مصرعے کے مصداق کہ۔۔۔
’’ مزاج برہم،طویل رستہ ، برستی بارش ،خراب موسم ‘‘
لیکن کوئی بھی چیز نوید بٹ کے آگے رکاوٹ نہ بن سکی اس کے پاس عالمی مقابلے تک پہنچنے کے لیے وسائل نہیں تھے اس نے جیت کو اپنا مقدر سمجھتے ہوئے اندلس کے ساحل پہ کھڑے طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلانے کا فیصلہ کرلیا اور اپنا کلب اور موٹر سائیکل تک بیچ ڈالا ۔۔۔مقابلہ لڑا ۔۔۔اور تین گولڈ میڈل جیت کر پاکستان کی جھولی میں ڈال دیئے ۔آج عالمی امن کے ٹھیکیدار پاکستان کو پولیوستان قرار دینے پہ تلے ہیں لیکن نوید بٹ کی جیت ان تمام کے منہ پر زور دار تماچے سے کم نہیں ہے کہ پاکستانی قوم پولیو سے ڈرنے والی نہیں ہے ۔

یہ جیت اپنی جگہ ہم سب پاکستانیوں کے لیے قابل فخر بھی ہے خوشی اور مسرت کا موقع بھی ۔۔۔۔ مگر اِس فتح کہ بعد ہمیں آرام سے نہیں بیٹھنا بلکہ اِس بیماری کے خاتمے کے لیے مزید تگ و دو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اِس قوم کے لیے نام روشن کرنے والوں کا مزید اضافہ ہو۔ جس کے لیے اسوقت بہت ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستانی حکومت اعلی سطح پہ ماہر ڈاکٹرز اور علما کرام پہ مشتمل ایک ٹیم بنا کر پولیو ویکسین کے حوالے سے عوام میں موجود تمام شکوک شبہات کی نہ صرف تحقیق کرائے بلکہ عوام میں بھی آگاہی پیدا کرے کہ عمر بھر کی معذوری سے بچنے کے لیے پولیو ویکسین بہت ضروری ہے ۔

ویسے تو اِس بیماری کے خاتمے کے لیے میرے پاس ایک تجویز بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر حکومت سرپرستی کرے تو نوید بٹ پوری دنیا میں پولیو کے خلاف پاکستان کا سفیر بن سکتا ہے اور پوری دنیا میں پولیو کی وجہ سے پاکستانیوں پر بیرونی ممالک میں سفر پر جو پابندی کی باتیں ہورہی ہیں نوید بٹ پوری دنیا میں جاکر پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرسکتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے لازمی دلچسپی دکھانی ہوگی ۔ اگر نوید بٹ کی حمایت کی جائے تو نوید بٹ نہ صرف پاکستان کو مزید کئی گولڈ میڈل جیت کر دے سکتا ہے بلکہ اپنے جیسے مزید کئی نوید بٹ تیار کرسکتا ہے ۔ کیونکہ پاکستان وہ ملک ہے جو جذبوں اور حوصلوں کا گڑھ ہے ۔ پوری دنیا ہفتے میں پانچ دن کام کرتی ہے دو دن چھٹی مناتی ہے لیکن پاکستانی ہفتے میں ایک دن چھٹی کرتے اور چھ دن کام کرتے ہیں یہ وہ قوم ہے جو شام کو جنازے دفناتی ہے اور صبح پھر اپنے کام پہ چلی جاتی ہے یہ وہ ملک ہے جدہر پولیو کا خطرہ بڑھ جائے تو ایک پولیو کا ڈسا نوجوان باڈی بلڈنگ کا مقابلہ جیت لیتا ہے ۔جی ہاں ۔۔۔یہ پاکستان ہے ۔۔۔یہ بہادر نوجوانوں  کا دیس ہے ۔۔۔شاباش نوید بٹ ۔۔۔پوری قوم کو آپ پہ فخر ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔