ہمیں مودی کی پہل کا انتظار کرنا ہو گا

نصرت جاوید  بدھ 26 نومبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

دعویٰ ہمارا گزشتہ چند برسوں سے یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے اور جمہوری آزادیوں کا سب سے بڑا مظہر ہمارا ہمہ وقت چوکس اور بلند آواز میڈیا ہے۔ ایک پیشہ ور صحافی ہوتے ہوئے مجھے ایسی جمہوریت پر نازاں و شاداں ہونا چاہیے مگر مجبوری یہ بھی ہے کہ معاملات جیسے کہ وہ نظر آیا کرتے ہیں ان پر میں دل ہی دل میں اکثر سوالات اٹھاتا رہتا ہوں۔

ایسے ہی سوالات گزشتہ دو دنوں سے خود کے ساتھ کرتے ہوئے انکشاف یہ ہوا کہ ملکی سیاست اور اس کے اہم کرداروں پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے ان پر بے رحم تنقید اور طنز کی تمام تر آزادی کے باوجود ہم صحافیوں نے بنیادی ریاستی امور پر ٹھوس حوالوں سے غور کرنا چھوڑ رکھا ہے۔ پاکستان کے خارجہ امور بھی ایسا ایک شعبہ ہے جس کی بابت اصل حقائق تک پہنچنے کی صحافیانہ صلاحیت محدود سے محدود تر ہو چکی ہے۔

میں نے خارجہ امور پر جنرل ضیاء کے زمانے میں رپورٹنگ کرنا شروع کی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے بار ہا ایسے لمحات آئے جب بہت ہی ’’حساس‘‘ نوعیت کے سوالات اٹھے۔ ان سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی خاطر فارن سیکریٹری جیسے سینئر ترین افسر ہم لوگوں کے لیے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بریفنگز کا اہتمام کرتے۔ ان بریفنگز میں پیچیدہ ترین موضوعات پر تفصیلی بحث مباحثے ہوتے۔ بہت کچھ جان لینے کے باوجود اپنی خبر یا کالم لکھتے وقت ہم چند چیزوں کو یقینا ’’قومی مفاد‘‘ کی خاطر نظرانداز کر دیتے مگر خود بے خبر نہ ہوتے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے غیر ملکی ممالک کے ساتھ معاملات پر بذاتِ خود صحافیوں کو مدعو کر کے تفصیلی گفتگو کی عادی تھیں۔ نواز شریف صاحب ایسے تردد کی زحمت نہیں کیا کرتے۔ مگر ان کے گزشتہ دونوں ادوار کے وزرائے خارجہ صحافیوں کے ساتھ مسلسل رابطوں میں رہتے۔ جنرل مشرف بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح اپنی خارجہ پالیسی کے ہر پہلو کے بارے میں صحافیوں کے ساتھ تند و تیز مباحثے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔

خورشید قصوری ان کے وزیر خارجہ تھے اور وہ صحافیوں کو زیادہ سے زیادہ اعتماد میں لینے کی لگن میں مبتلا رہتے۔ جنرل مشرف کے دور میں ان کے وزیر خارجہ ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے مشیر طارق عزیز اور آئی ایس آئی کے سربراہ ہوتے ہوئے جنرل احسان بھی حکومت کے سخت نقاد صحافیوں کو بھی خارجہ امور کے سلسلے میں مکالموں کے لیے مدعو کر لیا کرتے تھے۔

2008ء کے بعد سے یہ روایت تقریباََ ختم ہو چکی ہے۔ وزارتِ خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ ہوتی ہے جس میں بس روایتی باتیں ہوتی ہیں۔ شاہ محمود قریشی جب بھی کہیں اتفاقاََ مل جاتے تو بس اس بات کا یقین دلانا شروع ہو جاتے کہ کیری لوگر بل وغیرہ کے بارے میں ’’ان‘‘ کے تحفظات دور ہو چکے ہیں۔ حنا ربانی کھر ہمیشہ بہت مہذب مگر اپنے محکمے کے حوالے سے کوئی گفتگو کرنے سے اجتناب برتا کرتیں۔ اِن دنوں ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں۔ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی اپنے محکموں کے بارے کیا سوچ رہے ہیں ہم صحافیوں کی اکثریت کو خبر نہیں۔

اتنے برس خارجہ امور کے بارے میں لکھنے کے باوجود میں ہرگز اس قابل نہیں کہ آپ کو یہ بتا سکوں کہ نواز شریف صاحب نے نیپال میں ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس میں خود جانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ سارک ایک اہم علاقائی فورم ہے جس کے امکانات کا شاید 5 فیصد بھی ہمیں زمین پر ہوتا نظر نہیں آتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی برسوں سے موجود بداعتمادی نے سارک ممالک کے درمیان آمد و رفت تک کو مشکل بنارکھا ہے اور علاقائی تجارت بھی اسی بداعتمادی کی وجہ سے فروغ نہیں پا سکی۔

سارک سربراہی کانفرنسوں کے تقریباََ تمام تر اجلاس میں نے خود رپورٹ کیے ہیں۔ ہر کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے صحافی صرف یہ جاننے کی کھوج میں مصروف رہتے کہ ان کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں۔ ہم لوگوں کا یہ رویہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے صحافیوں کو بہت ناراض کر دیتا تھا۔ وہ بس اپنے سربراہوں کی تقاریر وغیرہ اپنے اخباروں کو بھیجنے کے بعد سارک کانفرنس سے لاتعلق ہو جایا کرتے۔

محترمہ جب دوبارہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو نئی دلی میں ہونے والی سارک کانفرنس میں انھوں نے خود جانے کے بجائے اس وقت کے صدر فاروق خان لغاری کو بھیجا تھا۔ ان دنوں کشمیر میں آزادی کی جدوجہد بڑے زوروں پر تھی۔ محترمہ کو خوب علم تھا کہ ان سے اس تحریک کے بارے میں وہاں کی حکومت تند و تلخ باتیں کرے گی اور بھارتی صحافی یک جا ہو کر پاکستان کو اس تحریک کا واحد ذمے دار ٹھہرائیں گے۔ نرسمہا راؤ کا بطور بھارتی وزیر اعظم ویسے بھی یہ آخری سال تھا اور وہ آیندہ انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں کوئی ٹھوس پہل کرنے کے قابل نہ تھے۔

بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد یہ پہلی سارک کانفرنس ہیں جہاںمودی خود موجود ہوں گے۔ موصوف نے 25 اگست کو پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان مذاکرات کا احیاء ایک بے بنیاد عذر کے ساتھ روک دیا تھا۔ ان کے ذاتی ایماء پر بھارت نے پاک-بھارت سرحد کو گرم رکھا اور ان دنوں ان کی جماعت مقبوضہ کشمیر میں ہر وہ حربہ اختیار کر رہی ہے جو بالآخر وہاں ایک ایسی حکومت بنا سکے جو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو ملی خصوصی حیثیت کا باقاعدہ خاتمہ کر دے۔

ان حالات میں نواز شریف کی مودی سے ملاقات قطعی بے نتیجہ رہے گی اور اس ملاقات کو وہاں کی افسر شاہی اپنے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر پھیلانے کے لیے سفاکی کے ساتھ استعمال کرے گی کہ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو کشمیر میں موجود ’’دہشت گردی‘‘ کا حقیقی ذمے دار ٹھہرایا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس ملاقات کے حوالے سے کسی Counter Spin کے لیے پوری طرح تیار نہیں۔ ہمارے میڈیا میں بلکہ سوالات یہ اٹھائے جائیں گے کہ نواز شریف جہاز بھرکر نیپال کیوں چلے گئے ہیں۔

عمران خان کے کنٹینر سے بھی اس ضمن میں جلی کٹی باتیں ہوں گی جنھیں ہمارے ’’حب الوطنی‘‘ کے جذبوں سے مالا مال اینکر حضرات نمک مرچ لگا کر اپنی Ratings کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔ نواز شریف صاحب نے بھارتی وزیر اعظم کی حلف برداری میں شریک ہو کر ہر حوالے سے یہ پیغام دیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کو ماضی کا اسیر نہیں رکھنا چاہتے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کھلے ذہن کے ساتھ خطے میں دیرپا امن کے راستے تلاش کرے۔ بھارتی وزیر اعظم نے 25 اگست کی ملاقات روک کر ان کی نیک نیتی کو شدید زک پہنچائی ہے۔ پاکستان کو آگ بھڑکانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ افغانستان اور ایران کے حالیہ واقعات اس خطے میں دیرپا امن کے راستے بنا رہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ 26 جنوری کو دلی پہنچ کر امریکی صدر بھارتی وزیر اعظم کو ہر صورت سمجھانا چاہیں گے کہ وہ امن کے امکانات کو کمزور نہ کریں۔ ہمیں اب بھارتی وزیر اعظم کی پہل کا انتظار کرنا ہو گا اور یہ پہل فروری-مارچ 2015 میں کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت تک انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔