یہ کیسے ممکن ہے

جاوید چوہدری  جمعرات 27 نومبر 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہم تمام اعتراضات‘ تمام دلائل اور تمام نکات چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں اور یہ مان لیتے ہیں عمران خان ملک کے مخلص ترین‘ سچے ترین اور مقبول ترین لیڈر ہیں اور یہ واقعی وہ انقلابی لیڈر ہیں جن کے لیے نرگس ہزاروں سال اپنی بے نوری پر روتی ہے اور یہ وہ ناقہ صحرائی ہیں جو صحراؤں کی آوارہ ہواؤں کو سوئے حرم لے جاتی ہیں‘ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں خان صاحب کے قول اور فعل میں بھی کوئی تضاد نہیں‘ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں عمران خان کا انقلاب سچا ہے اور 30 نومبر کے بعد یہ سچا انقلاب واقعی آ گیا‘ ملک بدل گیا‘ ہم نئے پاکستان میں داخل ہو گئے‘ اب سوال یہ ہے عمران خان نئے انقلابی پاکستان کے مسائل کیسے حل کریں گے‘ مثلاً یہ ملک میں ریفارمز کیسے کریں گے‘ ہندوستان کی دس ہزار سال کی تاریخ ہے۔

ان دس ہزار برسوں کی تاریخ میں ہندوستان کی پہلی منظم پولیس 1860ء کی دہائی میں بنی‘ ہندوستان کی تاریخ کا پہلا پولیس ایکٹ انگریز سرکار نے 1861ء میں بنایا‘ آج اس ایکٹ کو 153 سال ہو چکے ہیں‘ برصغیر اس وقت سات آزاد ممالک پر مشتمل ہے‘ یہ سات ملک آج تک 1861ء کے ایکٹ کو پوری طرح نہیں بدل سکے‘ یہ ایکٹ آج بھی ان ممالک میں 1861ء کی اسپرٹ کے ساتھ موجود ہے‘ یہ سات ممالک اسے کیوں نہیں بدل سکے؟ اس کا جواب بہت سیدھا اور واضح ہے‘ انگریز ہندوستان کی تاریخ کا واحد حکمران تھا جس نے پورے خطے کی روایات‘ قوموں‘ نسلوں اور ثقافت پر باقاعدہ ریسرچ کی‘ یہ ایکٹ اس ریسرچ کی بنیاد پر بنایا اور جب تک اس خطے کی یہ روایات‘قومیں‘ نسلیں اور ثقافت موجود ہے ہم یہ ایکٹ نہیں بدل سکیں گے۔

برصغیر کے لوگ ’’شریکے‘‘ کے قائل ہیں‘ ہم حریف کو مقدموں میں پھنسانے کے لیے اپنی فصلوں کو آگ لگا دیتے ہیں‘ اپنے مکان گرا دیتے ہیں اور اپنے عزیز کو خود گولی مار کر مخالف پر پرچہ درج کرا دیتے ہیں‘ ہم خواہ سونے کے پہاڑ پر بیٹھے ہوں مگر ہم سے دوسرے کی پانچ سو روپے کی نتھلی برداشت نہیں ہو گی‘ ہمارا یہ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پھڈے چلتے رہتے ہیں‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان شریکے کی لڑائی ہے‘ بھارت فوج رکھتا ہے تو ہم بھی رکھتے ہیں‘ وہ ایٹم بم بناتا ہے تو ہم بھی بناتے ہیں‘ ہم ہزاروں سال سے طبقاتی تقسیم کے مرض میں بھی مبتلا ہیں‘ہمارے خطے میں چار ذاتیں ہوتی تھیں‘ ہم آج بھی چوہدریوں ‘ مزارعوں ‘ سیدوں اور مریدوں میں تقسیم ہیں۔

یہ تقسیم بڑھتے بڑھتے فرقوں تک پہنچ چکی ہے‘ ہم اب رانا سے شیعہ رانا اور سنی رانا بھی ہو چکے ہیں‘برصغیر تاریخ کے کسی دور میں آبادی کنٹرول نہیں کر سکا‘ برصغیر نے آج بھی دنیا کی ایک تہائی آبادی کا بوجھ اٹھا رکھا ہے‘ پاکستان محدود ترین وسائل کے باوجود 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘انگریز نے شریکے‘ طبقاتی اور مذہبی تقسیم اور آبادی کو ذہن میں رکھ کر پولیس فورس بنائی تھی‘یہ سارے ایشوز آج بھی موجود ہیںلہٰذا کوئی ملک 1861ء کے اس پولیس ایکٹ کو نہیں بدل سکا چنانچہ عمران خان اس ملک میں پولیس ریفارمز کیسے کریں گے۔

جس میں قائداعظم سے لے کر ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف تک پولیس ٹھیک نہیں کر سکے اور جس کے دائیں بائیں چھ ملکوں میں آج بھی پولیس ایکٹ 1861ء قائم دائم  ہے‘حقیقت تو یہ ہے‘ بھارت کا سیاسی نظام نہرو جیسے آکسفورڈ کیمبرج لیڈر سے ٹی بوائے نریندر مودی پر آ گیا لیکن بھارت اپنی پولیس فورس سے 1861ء کی روح نہ نکال سکا‘ آپ آج بھی بالی ووڈ کی کوئی فلم دیکھ لیجیے‘ آپ کو اس میں ظالم‘ رشوت خور اور سیاستدانوں کا غلام پولیس اہلکار ضرور ملے گا۔

آپ اب آئین کی طرف آ جائیے‘ انگریزوں نے ہندوستان میں 1935ء  میں جامع آئینی اصلاحات کیں‘ یہ ہندوستان کی تاریخ کی پہلی مکمل دستوری اور قانونی دستاویز تھی‘ یہ خطہ اس سے قبل ایسی دستاویز سے محروم تھا‘ برصغیر کی ہیت 1947ء میں تبدیل ہو گئی‘ یہ آج سات ممالک کا گروپ ہے‘ سارک کے سات ممالک نے 68 برسوں میں بے شمار دستوری کوششیں کیں‘ ہم نے بھی چار آئین بنائے لیکن یہ تمام آئین 1935ء کے دستور کی بنیادوں پر استوار تھے‘ آپ ملک کے کسی قانون کا پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو اس میں 1935ء کا ہندسہ ضرور ملے گا اور یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ آپ ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا بھی کوئی قانون کھول کر دیکھ لیجیے‘آپ کو وہ 1935ء کے ایکٹ کا چربہ ملے گا‘ یہ تمام ملک اور ان کے تاریخ ساز لیڈر جب 1935ء کی روح سے رہائی حاصل نہیں کر سکے تو آپ کیسے کریں گے‘ ملک کا تیسرا بڑا ایشو انصاف ہے‘ ملک کی آبادی زیادہ ہے۔

عدالتیں کم ہیں‘ قانون کمزور ہے اور لوگ پھڈے باز ہیں‘ ہم میں سے ہر تیسرا شخص کسی نہ کسی مقدمے کا محرک ہے‘ یہ خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ انصاف کی دہائی ضرور دیتا ہے‘ ہم اگر 20 کروڑ لوگ ہیں تو سات کروڑ لوگ انصاف کے طلب گار ہیں اور ان سات کروڑ لوگوں میں سے ساڑھے چھ کروڑ لوگوں کی درخواستیں میرٹ پر نہیں ہوتیں چنانچہ آپ خواہ پوری دنیا کے جج جمع کر لیں آپ ملک میں عدالتی درخواستیں نہیں نبٹا سکیں گے‘ آپ کے لیے یہ بات یقینا حیران کن ہو گی پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں دنیا کی چند عدالتوں میں شمار ہوتی ہیں جن میں ہر سال لاکھوں مقدمے دائر ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر بابر اعوان نے چودھویں ترمیم اور سپریم کورٹ حملے پر میاں نواز شریف کے خلاف 1997ء میں پٹیشن جمع کرائی تھی۔

سپریم کورٹ نے 18نومبر 2014ء کو 17 سال بعد اس پٹیشن کو غیرمؤثر قرار دیا‘ ان 17 برسوں میں چار حکومتیں بدلیں اور آئینی ترامیم 14 سے 20 ہوگئیں‘ ہم اس تاخیر پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن حقیقت قدرے مختلف ہے‘ ہماری سپریم کورٹ میں اگر ہر سال 22 ہزار درخواستیں جمع ہوں گی اور جج 17 ہوں گے تو آپ الہ دین کا چراغ بھی لے آئیں تو بھی آپ ان پٹیشنز کا فیصلہ نہیں کرسکتے‘آپ کسی دن صبح کے وقت کسی سول جج کی عدالت کے سامنے چلے جائیں اور آپ سول جج کے دروازے پر چسپاں فہرست دیکھ لیں اور پھر آپ یہ جواب دیجیے کیا کوئی جج آٹھ گھنٹے میں ڈیڑھ سو کیس سن سکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر آپ یقینا پورے ملک کو انصاف فراہم کر لیں گے اور اگر نہیں تو پھر آپ خواہ کتنا بڑا انقلاب لے آئیں آپ لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکیں گے‘ ملک کا چوتھا بڑا مسئلہ مہنگائی‘ بے روزگاری اور قرضے ہیں۔

آپ نے کبھی غور کیا یہ تینوں مسئلے ایک ہی کوکھ سے جنم لیتے ہیں‘ جس ملک میں بے روزگاری ہو گی وہاں مہنگائی بھی ہوگی اور جس ملک میں مہنگائی ہو گی وہ غیر ملکی قرضے بھی ضرور لے گا‘ اب سوال یہ ہے بے روزگاری ہوتی کیوں ہے؟ جواب واضح ہے ملک میں جب سرمایہ کاری نہیں ہو گی‘ لوگ جب کاروبار کے خلاف ہوں گے اور عوام جب تاجروں‘ سرمایہ داروں‘ صنعت کاروں اور دکانداروں سے نفرت کریں گے تو ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کیسے کم ہوں گی؟ آپ خود سوچئے ملک میں جب نئے صنعتی یونٹ نہیں لگیں گے تو نوکریاں پیدا نہیں ہوں گی اور جب نوکریاں نہیں ہوں گی تو بے روزگاری ہو گی اور جب بے روزگاری ہو گی تو لوگوں کی جیب میں پیسے نہیں ہوں گے اور جب پیسے نہیں ہوں گے تو مہنگائی بڑھے گی اور جب مہنگائی بڑھے گی تو حکومتیں سبسڈی بھی دیں گی اور ان کی ٹیکس کولیکشن بھی کم ہو گی اور جب خزانہ خالی ہو گا تو حکومت قرضے لے گی اور جب حکومت قرضے لے گی تو وہ دوسرے ملکوں کی غلام بھی ہو گی اور ہمیں مانناہوگا ہم 20 کروڑ لوگ ہیں اور ہم بے ہنر بھی ہیں اور ہم کاروباری طبقے سے نفرت بھی کرتے ہیں چنانچہ ہم مہنگائی‘ بے روزگاری اور قرضوں سے کیسے آزاد ہوں گے؟ عمران خان جواب دیں! ہمارے ملک کا پانچواں مسئلہ انرجی کرائسس ہے۔

ہم گیس‘پٹرول اور بجلی تینوں شعبوں میں اپنی ضرورت پوری نہیں کر پا رہے‘ ہمارے ملک میں 68 برسوں میں پانی سے بجلی بنانے کے صرف چار بڑے منصوبے لگے ہیں‘ پن بجلی سستی ہوتی ہے لیکن منصوبہ مہنگا اور طویل ہوتا ہے‘ آپ کو بڑا ڈیم بنانے کے لیے دس سال کا عرصہ اور ہزار ارب روپے چاہئیں‘ کیا قوم دس سال انتظار کر سکتی ہے اور کیا ہم دس پندرہ ہزار ارب روپے الگ کر سکتے ہیں؟ آپ سردیوں میں انڈسٹری کو گیس دیتے ہیں تو چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں‘ گھروں کو گیس دیتے ہیں تو انڈسٹری بند ہو جاتی ہے‘انڈسٹری بند ہوتی ہے تو مزدوربے روزگار ہو جاتے ہیں اور ہمارے کل مالیاتی ذخائر 15 ارب ڈالر ہیں لیکن ہم ہر سال16 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کرتے ہیں۔

آپ یہ مسئلہ کیسے حل کریں گے اور اگر آپ نے یہ حل کر لیا تو عوام گیس‘ بجلی اور پٹرول کے بل کہاں سے ادا کریں گے! اور آخری مسئلہ آپ جس ملک میں دو کروڑ20 لاکھ آبادی کا ایک صوبہ نہیں سنبھال سکے‘ آپ وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے‘ آپ جس میں اپنے چند لاکھ ورکروں کونہیں سنبھال سکے‘ یہ آپ کے جلسوں میں خواتین کے پنڈال میں داخل ہو جاتے ہیں‘ یہ آپ کے کنٹینر پرلڑ پڑتے ہیں اور آپ دس دس سینئر لوگوں کی رکنیت معطل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ان میں تین ایم پی اے بھی شامل ہوتے ہیں۔

آپ جس میں اپنے آٹھ بائی چالیس فٹ کے کنٹینر پر نظم و ضبط پیدا نہیں کر پاتے اور جس میں آپ اپنے 33 ایم این اے کو متحد نہیں رکھ پاتے آپ اس میں ساڑھے چار سو ارکان پارلیمنٹ کو کیسے سنبھالیں گے؟ آپ اس ملک کے 20 کروڑ لوگوں کو کیسے سنبھالیں گے؟ دنیا میں اگر تقریروں سے تبدیلیاں آسکتیں تو آپ یقین کیجیے دنیا میں کوئی بیماری ہوتی‘کوئی جرم ہوتا اور نہ ہی کوئی طبقاتی تقسیم ہوتی۔ مسائل کے حل کے لیے اہلیت اور وقت دونوں درکار ہوتے ہیں لیکن آپ صرف لفظوں سے مسائل کی آگ بجھانا چاہتے ہیں‘ آپ لفظوں کے ذریعے پاکستان کو سپر پاور بنانا چاہتے ہیں‘ یہ کیسے ممکن ہے خان صاحب!۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔