قومی سیاست کے کچھ نئے اور پرانے چہرے

عبدالقادر حسن  جمعرات 27 نومبر 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جناب میاں نواز شریف محترم کی آزاد حکومت میں جو تماشے ہو رہے ہیں ان کا ایک نمونہ تین بھائیوں کے بڑے عہدے ہیں۔ یہ بھائی کچھ ہی پہلے پاکستان میں اچانک نمودار ہوئے اور اچانک ہی اہم عہدوں پر فائز بھی ہو گئے کوئی نون لیگ کا بڑا لیڈر ہے کوئی تحریک انصاف میں بہت ہی نمایاں اور ایک بھائی نہایت اہم سرکاری محکمے کا سربراہ ہے، ان کی یاد ایک خبر سے آئی ہے کہ ان تین میں سے دو بھائی اسد عمر اور محمد زبیر عمر کسی سرکاری قسم کے سیاسی تنازعے پر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ محمد زبیر کی جانب سے تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین پر لگائے جانے والے الزامات کی صفائی ان کے سگے بھائی اسد عمر کر رہے ہیں اور وہ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے بھائی کے الزامات کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ یہ تینوں پاکستان کی تاریخ کی ایک بڑی شخصیت جنرل عمر کے بیٹے ہیں۔ جنرل عمر سقوط ڈھاکا والے حکمران جنرل یحییٰ خان کے نائب اعلیٰ تھے اور بہت ہی سرگرم۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میاں ممتاز دولتانہ کے گھر پر سیاستدانوں کے اجلاس ہوتے تھے اور مشرقی پاکستان کی پریشان کن صورت حال پر بحثیں ہوا کرتی تھیں اس دوران جنرل عمر کے بہت فون آیا کرتے تھے اور میاں صاحب ان سے گفتگو کیا کرتے تھے بعد میں اہل محفل کو بتاتے کہ جنرل عمر تھے جو یہ بات کہہ رہے تھے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میں جو محض ایک قابل اعتماد رپورٹر کے طور پر کبھی ان محفلوں میں شریک ہوا کرتا ٹیلی فون اٹھا لیتا اور میاں صاحب کے سپرد کر دیتا کہ جنرل عمر آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بعد میں سقوط ڈھاکا کا ناقابل فراموش سانحہ ہو گیا یہ کام مکمل کر لینے کے بعد جنرل عمر پتہ نہیں کہاں گئے اب ان کے تینوں بیٹوں کے باقی ماندہ پاکستان میں اہم عہدوں پر سرفرازی سے وہ یاد آئے ہیں۔ یہ تینوں اپنی اپنی جگہ بہت ہی سرگرم ہیں اور ان کا اثرورسوخ دیکھ کر میرے جیسا کمزور پاکستانی بہت ڈر بھی جاتا ہے۔ خدا خیر کرے۔

اس وقت ان بھائیوں کی یاد ایک تنازع سے تازہ ہوئی جس میں دو بھائی آمنے سامنے ہیں۔ دو سردار صاحب ٹرین میں سفر کر رہے تھے اور خوب گپ لڑا رہے تھے۔ ساتھ بیٹھی ایک سواری بھی ان کی گفتگو سن رہی تھی جس سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک ہی شہر اور ایک ہی گھر سے ہیں۔ گپ شپ کے دوران ان کے گھر کا ذکر آ گیا اور باتیں گھر کے اندر تک پہنچ گئیں۔ جب گھر کی باتیں ہونے لگیں اور گھر کے لوگوں کے ساتھ دونوں کے تعلق کا ذکر آیا تو ساتھ بیٹھا ہوا مسافر کہنے لگا آپ تو مجھے رشتہ دار لگتے ہیں تو آپ یہ باتیں جو جھگڑے تک بھی چلی جاتی ہیں کیوں کر رہے ہیں۔ اس پر سردار صاحبان نے ہنس کر کہا کہ وہ باپ بیٹا ہیں اور وقت گزارنے کے لیے گپ شپ کر رہے ہیں۔

ہمارے یہ عمر خاندان کے نمایندے بھی الزامات میں الجھ کر بحث کر رہے ہیں ایک تیسرے آدمی کے لیے مگر ہیں دونوں سگے بھائی۔ خدا کرے یہ بچے کھچے پاکستان پر بحث مباحثہ نہ کریں۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ تینوں بھائی خوشحال زندگیاں چھوڑ کر آئے ہیں اور اب یہاں خوشحالی کے ساتھ ساتھ سیاسی خوشحالی میں بھی حصہ دار ہیں میرا اندازہ ہے کہ یہ جب اکٹھے ہوتے ہوں گے تو ہمارا مذاق اڑاتے ہوں گے اور ہمیں کبھی بعد میں پتہ چلے گا کہ یہ تو سگے بھائی تھے اور باقی ماندہ پاکستان کا سفر گزارنے کے لیے گپ شپ لڑا رہے تھے۔

ہماری سیاست میں ایک اور حادثہ بھی ہو گیا ہے اور شمس العلماء  ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو درد دل ہو گیا ہے۔ سیاست کے ہنگاموں میں ان کو آنسو گیس اور دوسری طرح طرح کی ناموافق چیزوں سے گزرنا پڑا ہے اس لیے ان کا اثر دل پر محسوس ہو رہا ہے۔ ڈاکٹروں نے انجیو گرافی کا مشورہ دیا ہے جو علاج نہیں مرض کا پتہ چلانے کا ایک ذریعہ ہے جیسے ایکس رے وغیرہ یہاں پاکستان میں بھی انجیو گرافی عام ہے اور کئی اسپتالوں میں ہوتی ہے۔

اس کی مشینیں بھی باہر سے آتی ہیں صرف ڈاکٹر مقامی ہوتے ہیں وہ بھی زیادہ تر باہر کے تربیت یافتہ لیکن حضرت مولانا کا دل بہت قیمتی ہے اور لاڈلا بھی آدھا باہر کا بھی۔ اس لیے وہ پاکستان میں کسی کو قریب نہیں آنے دیتا اور خبروں کے مطابق امریکا جا رہا ہے مگر ایک تشویش ناک خبر یہ بھی ہے کہ حضرت ممکن ہے امریکا میں طویل عرصہ مقیم رہیں اور ان کا معائنہ جاری رہے لیکن پاکستان میں ان کے مریدوں اور دھرنانچیوں کا کیا ہو گا اس کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر حضرت اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کینیڈا کی طرح امریکا سے بھی کوئی قریبی رشتہ جوڑ لیں تو بعید نہیں کیونکہ امریکا کے ساتھ تعلق کے بعد ان کی سیاست پاکستان کے آسمان تک جا پہنچے گی۔

حضرت جو چال چلنے والے ہیں اگر اس میں کامیاب رہتے ہیں تو سوال یہ ہو گا کہ ان کے ہم نفس جناب عمران خان تنہا تو نہیں رہ جائیں گے۔ ان دنوں ایک بڑی سیاسی سرگرمی سامنے آئی ہے کہ جناب عمران خان سے امریکا اور چین کے سفیروں نے ملاقاتیں کی ہیں ایک آدھ دن کے وقفے کے بعد یہ ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان ملاقاتوں میں بہت سے اشارے پوشیدہ ہیں۔ مجھے شک ہے کہ حضرت مولانا کے دل پر ان ملاقاتوں کا اثر بھی ہوا ہے جس کو زائل کرنے کے لیے بھی وہ اپنے بیمار دل کے ساتھ امریکا جانے کا ارادہ کر رہے ہیں کہ تمہیں نے درد دیا ہے تمہیں دوا دینا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاسی مقبولیت اور اس کے ساتھ پیری مریدی کی مقبولیت کے بعد رقیبوں کو بھی کوئی مرتبہ مل جائے اور دنیا کے دو اہم ترین ملکوں کے سفیر ان کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہیں۔ کہیں یہ سفیر حضرات عمران کے کسی مستقبل کے لیے تو اس سے نہیں مل رہے اور یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ شخص کیسا ہے اور کیسا رہے گا۔ پاکستان کی سیاست کی حد تک یہ طے ہے کہ یہاں کی حکومت امریکا بناتا ہے اور بگاڑتا ہے اب اس میں چین بھی کسی حد تک شامل ہو گیا ہے۔

مشرقی دنیا کے اس حصے میں پاکستان کے بغیر کوئی پیش قدمی نہیں ہو سکتی۔ جب تک موجودہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہاں کی حکومت کن لوگوں کے پاس ہیں اور یہاں عمر برادران کا کیا اثرورسوخ ہے۔ پاکستان کو ایک ہوشیار ذہین اور چالاک حکمران کی ضرورت ہے جو اپنی اس منفرد حیثیت سے ملک کے مسائل حل کر سکے اور اپنی اس حیثیت کا بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔