اطہر نفیس کی یاد میں

رئیس فاطمہ  جمعرات 27 نومبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

لوگ کہتے ہیں کہ ہم ’’مردہ پرست‘‘ ہیں لیکن میرا ماننا ہے کہ ہم ’’مفاد پرست‘‘ ہیں چند مستثنیات کو چھوڑ کر باقی سب ’’مردہ پرستی‘‘ بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ اس پرستش سے بھی انھیں کوئی نہ کوئی ذاتی، خاندانی یا مالی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یقین کرنے کو اگر جی نہ چاہے تو ایک طائرانہ نظر ان ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں اور فنکاروں کی زندگی پہ ڈال لیجیے جن کو ان کی وفات کے بعد ہمارے ٹی وی چینلز، پرنٹ میڈیا، اور دیگر ادبی انجمنوں نے یاد کیا ہو۔

ان میں صرف ان شخصیات کے نام آپ کو نظر آئیں گے۔جن کے لواحقین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوں اور وہ متعلقہ اداروں کے سربراہوں کو ہر قسم کے فوائد پہنچانے کے اہل ہوں یا پھر وہ جن جن کی آل اولاد ادبی ٹھیکیداروں کو منہ مانگا معاوضہ دے کر نہ صرف مقالات پڑھوا سکتی ہوں، بلکہ ایک اوسط درجے کے ادیب یا شاعر کو محض دولت کے بل بوتے پر، میر و غالب کے ہم پلہ قرار دلوانے کے لیے بڑے بڑے ادبی ٹائی کون کو مسند صدارت پہ لاکر بٹھانے کے گر بھی جانتی ہو۔ اور جو ان تمام صفات سے محروم ہو اسے کون پوچھتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک بے مثل شاعر بھی تھے جن کا تعارف عبیداللہ علیم ان الفاظ میں کروایا کرتے تھے ’’ان سے ملو! یہ اطہر بھی ہیں اور نفیس بھی۔‘‘ جی ہاں! بالکل وہی اطہر نفیس جن کی ایک غزل خود فریدہ خانم جیسی بڑی گائیکہ کی شہرت کا بھی باعث بنی۔

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا‘ اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں‘ اب سچا شعر سنائیں کیا

اطہر نفیس 22 فروری 1933کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے شادی نہیں کی، تمام عمر تنہا رہے۔ قریبی دوست اس غم تنہائی کو ان اشعار کی معنویت سے منسلک کرتے ہیں:

اطہر تم نے عشق کیا‘ کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا‘ یا سب جیسا احوال ہوا

اطہر کا پورا نام کنور اطہر علی خاں تھا، ان کے ایک بھائی کنور قمر علی خاں پولیس آفیسر تھے۔ اطہر بھائی اپنی والدہ کو آپا کہتے تھے۔ انھیں بہت چاہتے تھے، فرمانبردار اور چہیتے بیٹے بھی تھے، لیکن زندگی کی تنہائی کو دور کرنے والی بات انھوں نے کبھی نہ مانی، شاید اس لیے کہ:

جل گیا سارا بدن ان موسموں کی آگ میں
ایک موسم روح کا ہے‘ جس میں اب زندہ ہوں میں

اطہر مدتوں ایک اردو روزنامے کے ادبی سیکشن سے وابستہ رہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ انھوں نے ادبی صفحے کے نگراں ہونے کا کوئی ذاتی فائدہ کبھی نہیں اٹھایا، نہ انھوں نے ادبی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے ہوائی سفر کے ٹکٹ اور اخراجات کی مانگ کی، نہ دو نمبر کے ادیبوں اور شاعروں کے گوشے مخصوص کر کے پیسہ کمایا اور نہ ہی بے توقیروں کو ’’توقیر‘‘ دے کر خود کو شرمندہ کیا۔ وہ نسلاً سورج بسنی راجپوت تھے اور راجپوتوں کی آن، شان اورکبر و ناز سب ان میں موجود تھا۔ لیکن وہ کبھی ارادتاً اس کا اظہار اپنی گفتگو میں نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ان کے مزاج کا تیکھا پن اور ذات کا احساس ان کے چہرے اور لہجے سے ہمیشہ جھلکتا تھا۔ بڑے مہذب، شائستہ اور دھیمے مزاج کے انسان تھے جو گیلی لکڑی کی طرح اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے۔

ان کا صرف ایک شعری مجموعہ ’’کلام‘‘ کے نام سے 1975 میں احمد ندیم قاسمی نے ادارہ فنون سے شایع کیا۔ احمد ندیم قاسمی اطہر نفیس کی نہ صرف بہت عزت کرتے تھے بلکہ ان کی شاعری کے بھی بڑے مداح تھے۔ اطہر نفیس کی شہرت کے لیے در در نہ بھٹکنا اور ہر صاحب اقتدار کی چوکھٹ پہ ماتھا نہ ٹیکنا یقینا قاسمی کے لیے حیران کن رہا ہوگا۔ اسی لیے وہ ان کی اتنی عزت کرتے تھے۔ سہ ماہی ادبی جریدے ’’سیپ‘‘ نے اپنے ایک شمارے میں اطہر نفیس کی شاعری پر ایک خصوصی مطالعہ ضرور شامل کیا تھا۔ مضمون لکھنے والوں میں عبیداللہ علیم، ساقی فاروقی اور جناب سلیم احمد شامل تھے۔

21 نومبر 1980کو اطہر نفیس نے ذات کی تنہائی سے نجات پالی۔ انٹرنیٹ اور فیس بک کو دعا دیجیے کہ اس کی بدولت دوست احباب ان کی سالگرہ اور یوم وفات پہ انھیں یاد کرلیتے ہیں۔ ورنہ تو شاید ہی کبھی کسی آرٹس کونسل، انجمن ترقی اردو یا کسی اور ادارے نے انھیں یاد کیا ہو ۔ البتہ اگر کسی ادارے نے کبھی کوئی محفل سجائی ہو تو مجھے بھی خبر دے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل جب وہ بہت بیمار تھے تو اپنے احباب میں یہ مشہور کردیا تھا کہ وہ اندرون سندھ جا رہے ہیں تاکہ وہ عیادت کے لیے آنے پر مجبور نہ ہوں۔ آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہونے سے پہلے یہ شعر کہا تھا:

چاروں سمت سمندر ہے
پانی سر سے اوپر ہے

اطہر نفیس ایک ایسے خوددار شاعر اور انا پرست انسان تھے جو ’’مشہوری‘‘ کے لیے کسی لفافے کا محتاج تھا نہ ہی کسی ادبی دربار میں مسند نشیں کے لیے راگ درباری گا کر بیرون ملک مشاعروں میں دوروں کا دعوت نامہ حاصل کرنا پسند کرنا تھا۔ جیساکہ آج کل بڑی باریکی سے ہو رہا ہے۔ ادبی ادارے ہائی جیک ہوچکے ہیں۔ سفارشی کلچر کے پروردہ، قصیدہ نگار، شہرت کے لیے خود کو سستے داموں بک جانے والوں نے باعزت اور جینوئن شعرا، ادبا اور فنکاروں کے لیے راستے بند کردیے ہیں۔ اسی لیے ہر طرف رنگ برنگی ساڑھیاں، آنچل اور تھری پیس سوٹ ’’آرٹ لورز‘‘ کا قبضہ ہے۔ بہرحال یہ ہولناکی تو بہت بڑھ چکی ہے۔ اطہر نفیس کا ذکر خیر ان کے کچھ اشعار میں۔

دروازہ کھلا ہے کہ کہیں لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

میں اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہر سو
جو مجھ سے کہہ سکے‘ میں بے وفا ہوں

اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

میرے ہونٹوں کا تبسم دے گیا دھوکا تجھے
تو نے مجھ کو باغ جانا دیکھ لے صحرا ہوں میں
………
لمحوں کا عذاب سہہ رہا ہوں
میں اپنے وجود کی سزا ہوں

زخموں کے گلاب کھل رہے ہیں
خوشبو کے ہجوم میں کھڑا ہوں

کسی صحرا میں بچھڑ جائیں گے سب یار مرے
کسی جنگل میں بھٹک جائے گا لشکر میرا

نہ منزل ہوں‘ نہ منزل آشنا ہوں
مثال برگ اڑتا پھر رہا ہوں

وہ ایسا کون ہے جس سے بچھڑ کر
خود اپنے شہر میں تنہا ہوا ہوں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔