سارک سربراہ کانفرنس اور خطے کے تنازعات

ایڈیٹوریل  جمعرات 27 نومبر 2014
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان مصافحہ نے اختتامی سیشن کو یاد گار بنا دیا۔ فوٹو : اے ایف پی

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان مصافحہ نے اختتامی سیشن کو یاد گار بنا دیا۔ فوٹو : اے ایف پی

کٹھمنڈو میں 18 ویں سارک سربراہ کانفرنس کے اختتامی سیشن میں پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان مصافحہ نے اختتامی سیشن کو یاد گار بنا دیا۔ سارک سربراہ کانفرنس کے اختتام پر فوٹو سیشن کے بعد سربراہان مملکت سے ہاتھ ملاتے ملاتے نریندر مودی پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس بھی پہنچ گئے۔ انھوں نے ہاتھ آگے بڑھایا تو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی انتہائی کھلے دل اور گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا‘ دونوں رہنماؤں کے مصافحہ پر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ دو روز ایک ہی ہوٹل کی چھت تلے کھنچے کھنچے رہنے کے بعد دونوں وزیراعظم بلا آخر ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے اور مسکرانے پر مجبور ہو ہی گئے۔ بھارتی اخبار کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان غیر رسمی ملاقات بھی ہوئی۔ سارک سربراہ کانفرنس کے پہلے دن دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے سے ملاقات سے گریز کیا، اطلاعات کے مطابق ان کے چہروں سے تناؤ ظاہر ہو رہا تھا سٹی ہال میں ایک ساتھ موجود ہونے کے باوجود انھوں نے ایک دوسرے سے بات چیت اور علیک سلیک نہیں کی‘ ان دونوں کے اس رویے سے ان افراد کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے درمیان ملاقات کرانے کے لیے کوشاں تھے۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بدھ کو سارک سربراہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ دنیا کی کل آبادی کے ایک چوتھائی انسانوں پر مشتمل یہ خطہ غربت‘ بیماری اور جہالت کا شکار ہے‘ یہاں پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے تاہم یہ خطہ معاشی ترقی کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔ معاشی پسماندگی کی وجہ بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ خطے کے ممالک کا یکجا نہ ہونا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ اگر ہم اپنی توجہ عوام کی فلاح و بہبود پر رکھیں تو سارک تنظیم باہمی اعتماد کو ایک نئے درجے تک لے جا سکتی ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی کانفرنس سے اپنے خطاب میں بڑی خوش کن باتیں کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کا مل کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے‘ ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت اور عوام کی زندگی کے بارے میں حساس ہونا ہو گا‘ ایک پنجاب سے دوسرے پنجاب میں سامان پہنچنے میں کراچی اور دبئی سے بھی کئی گنا زیادہ وقت اور پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ ہمیں کاروبار کے براہ راست راستوں کا استعمال کرنا چاہیے۔

انھوں نے اپنا پانچ نکاتی ویژن پیش کرتے ہوئے کہا کہ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ امداد‘تعاون اور رابطوں کے ذریعے لوگوں کے درمیان تعلقات کو بڑھانا چاہیے۔ دونوں رہنماؤں نے سارک ممالک کے مسائل اور اس کی ترقی کے راستوں کی تو درست نشاندہی کی مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ سارک تنظیم کو مضبوط بنانے اور باہمی اختلافات ختم کرنے کے لیے یہ رہنما کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سارک سربراہ کانفرنس کے ہر اجلاس کے موقع پر خطے کی ترقی کے لیے بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر اس کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔ سارک تنظیم کے غیر موثر ہونے کی ایک بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تنازعات ہیں۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھارت کو کئی بار دعوت دی لیکن بھارت کی موجودہ حکومت نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا بلکہ ایسے اقدامات کیے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا ملی۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ سارک کے مقاصد کے حصول اور ان کو حقیقت میں بدلنے کے درمیان فاصلے کو ختم کرنا ہو گا اور یہ باہمی معاملات میں اکٹھا ہو کر چلنے سے ہو گا‘ سارک میں اعتماد کی فضا کو فروغ دینا ہو گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خطے کے مسائل کا تو ذکر کرتے ہیں مگر دوسری جانب وہ پاکستان کے خلاف بیانات دینے سے بھی باز نہیں آتے۔

مبصرین کے مطابق نریندر مودی نے اپنی تقریر میں نہ صرف ممبئی حملوں کا ذکر کیا بلکہ دہشت گردی پر بھی بات کی جو ان کی اصل تقریر کا حصہ نہ تھا۔ پاک بھارت دونوں رہنماؤں نے کانفرنس کے موقع پر دیگر ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور باہمی تعلقات بڑھانے پر تبادلہ خیال تو کیا مگر انھوں نے خطے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ باہمی اختلافات ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے کوئی بات چیت نہیں کی۔

سارک ممالک بھی یورپی یونین کی طرح ترقی کر سکتے ہیں مگر انھیں ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے خلوص نیت سے کام کرنا ہو گا جو ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ نریندر مودی خطے میں موجود تناؤ کی کیفیت دور کرنے کے لیے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کرتے اور باہمی تعلقات بہتر بنانے کی طرف توجہ دیتے۔ اگر بھارت سارک ممالک کی ترقی کا حقیقی معنوں میں خواہاں ہے تو اسے پاکستان کے خلاف اپنے معاندانہ رویے میں تبدیلی لانا ہو گی کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں مذاکرات نہیں ہو سکتے اس کے لیے ناگزیر ہے کہ سرحدوں پر کشیدگی کا خاتمہ کر کے مستقل طور پر امن قائم کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔