30 نومبر کا جلسہ!! فریقین کو ذمہ داری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا

احسن کامرے  جمعـء 28 نومبر 2014
حکومتی و اپوزیشن رہنمائوں کی ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

حکومتی و اپوزیشن رہنمائوں کی ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

پاکستان تحریک انصاف  ایک بار پھر اسلام آباد میں 30 نومبر کو اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے جارہی ہے جس پر سیاسی و عوامی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔

اس جلسے کے حوالے سے حکومت اور تحریک انصاف اپنی اپنی حکمت عملی تیار کر رہی ہیں اور عوام کی نظریں30نومبر کے جلسے پر جمی ہوئی ہیں کہ تحریک انصاف کا یہ جلسہ ملکی سیاست میں کیا رخ متعین کرے گا اور حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کرنے جارہی ہے۔اسی حوالے سے گزشتہ دنوں ایکسپریس فورم میں ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیاجس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رانا ثناء اللہ (سابق صوبائی وزیر قانون پنجاب)

کسی بھی جمہوری ملک میں ایسی سیاسی سرگرمیاں جو آئین اور قانون کے مطابق ہوں ، ہمیشہ جمہوریت کے لیے بہتر ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ حزب اختلاف کا وہ کردار جو حکومت کو اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے میں مدد دے اور حکومت کو پوری طرح سے کٹہرے میں کھڑا کرنے والا ہو ، جمہوری روایات کو مضبوط کرتا ہے۔ ہم تحریک انصاف سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے اس جمہوری کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

تحریک انصاف نے پورے ملک میں ، خاص طور پر پنجاب میں جتنے بھی جلسے کیے، حکومت کی طرف سے وہاں کی مقامی انتظامیہ کو ان کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ تقریباََ ہر جگہ انتظامیہ اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی کا ماحول پایا گیا۔ 16 اگست کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد سے اب تک تحریک انصاف کی جانب سے متعدد بار معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ سب سے پہلے جلسے کے لیے جس جگہ کا تحریری طور پر معاہدہ ہوا تھا اس کی خلاف ورزی ہوئی۔ اس کے بعد اسلام آباد سے ہی سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا گیا اور پھر وہاں سے ملک میں پہیہ جام ہڑتال کے اعلانات بھی ہوئے۔

پھر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ ریڈزون میں داخل ہوئے اور پھر ریڈلائن کو بھی کراس کیا گیا جبکہ اس وقت ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے۔ اس تجربے کے پیش نظر 30 نومبر کے حوالے سے حکومت کو تحفظات ہوئے جنہیں شیخ رشید کی تقریر نے جلا بخشی اور پھر یہ شک پیدا ہوا کہ شاید تحریک انصاف اس دن صرف جلسہ نہیں کرنا چاہتی بلکہ اسے بعد میں انتشار کی شکل دینا چاہتی ہے۔اس بات کو عمران خان کے بیانات نے بھی تقویت دی۔

انہوں نے کہا کہ 30 نومبر کو اگر لوگ نہ نکلے اور کوئی فیصلہ نہ ہوا تو پھر حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ ان خدشات کے پیش نظر کہ پی ٹی آئی دوبارہ یہاں آکر انتشار، سول نافرمانی یا کوئی ہنگامہ آرائی کی صورت اختیار کرے ،حکومت نے یہ فیصلہ کیا جس کا اعلان چودھری نثار نے کیا کہ وہ خود تحریک انصاف سے رابطہ کریں گے۔ 30 نومبر کے جلسے میں اگر تحریک انصاف نے اپنے دیگر جلسوں کی طرح مقامی انتظامیہ سے تعاون کیا تو حکومت اس جلسے میں قطعی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ لیکن اگر ایسی صورتحال ہوئی جو شیخ رشید اور ان کے دیگر رہنماؤں کی تقاریر سے سامنے آرہی ہے تو یقینا یہ صورتحال ناخوشگوار ہوسکتی ہے اور حکومت کی کسی بھی طور ایسی خواہش نہیں ہے۔

وہ لوگ جو اس سارے معاملے میں درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتے رہے، جن میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کردار قابل تعریف رہا ہے، وہ گذشتہ دنوں اپنے اجتماع میں مصروف رہے۔ اسی طرح قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی اس میںاچھا کرداراداکیا، وہ ابھی ملک سے باہر ہیں۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ رابطوں کو جمہوری انداز میں آگے بڑھانے میں ان کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔ بطور سیاسی کارکن میری یہ رائے ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ اور تحریک انصاف کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہونی چاہیے اور تحریک انصاف کو وہاں جلسہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر اس میں ان کا انتشار کا کوئی ارادہ ہے تو اسے ختم کرنا چاہیے۔ کیونکہ معاملات اگر جمہوری انداز میں آگے بڑھیں تویہ جمہوریت اور ملکی سیاست کے لیے بہتر ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے سلسلے میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا ۔ اختلاف رائے تو ہر سیاسی جماعت میں ہوتا ہے اورکور کمیٹی کے اجلاس میں مختلف آراء سامنے آتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ پارٹی قیادت نے کرنا ہوتا ہے۔ میرے خیال میںپارٹی قیادت عمران خان کی گرفتاری کے حق میں نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے جلسے کے حوالے سے پہلی مرتبہ شک ہمیں شیخ رشید کی ننکانہ صاحب جلسہ میں کی گئی تقریرسے ہوا۔ جس میں ان کے الفاظ تھے کہ ’’ مارو، مر جاؤ، جلاؤ، گھیراؤ‘‘ جو میرے نزدیک درست نہیں اور ان الفاظ کو ہر سطح پر لوگوں نے نامناسب کہا۔

شیخ رشید نے جب یہ الفاظ استعمال کیے تو اس وقت عمران خان وہاں موجود تھے۔ لہٰذا پارٹی قیادت کی موجودگی میںایسے الفاظ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔لیکن تحریک انصاف کی طرف سے ان الفاظ کی تردید نہیں کی گئی۔ کسی بھی سیاسی جماعت کاجلسہ پریشر اور سیاسی قوت کا اظہار ہوتا ہے۔ میرے نزدیک تحریک انصاف کے جلسے ان دونوں زاویوں پر پورا اترتے ہیں ۔ لیکن جلسوں کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے، اس کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے اور اس کا فیصلہ ووٹ کے ذریعے ہی ہوگا۔ اگر انہیں ووٹ کے طریقہ کار پر کوئی اعتراض ہے یا انہیں دھاندلی کی شکایت ہے تو اس کے لیے الیکشن ٹربیونل موجود ہے۔

اس وقت دھاندلی کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ اس پر انکوائری کمیشن بناناچاہیے۔ لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ اس دھرنہ سیاست میں کچھ باتیں ایسی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے چیف الیکشن کمشنر کا چناؤ بھی مشکل ہوگیا ہے اور کوئی بھی شخص چیف الیکشن کمشنر بننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ اگر معتبر شخصیات کو بھی جلسوں میں للکارا جائے اور وہ ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیں تو یہ بات افسوسناک ہے۔

اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کے لیے سپریم کورٹ کو جو خط لکھا تھا اس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا اور بار کے کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جج صاحبان کو ایسے کمیشن کے حوالے سے تحفظات ہیں کہ وہ جو بھی فیصلہ دیں گے، یہ سیاسی قائدین اسے قبول کریں گے یا بعد میں اپنی تقاریر میں ان پر تنقید کریں گے۔ لہٰذایہ ایسے مسائل ہیں جنہیں سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے اور وہی رہنما اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو جرگہ میں رہے اور دونوں طرف گفتگو کرتے رہے۔

دھاندلی کے لیے انکوائری کمیشن پارلیمنٹ کا بھی بن سکتا ہے یا کچھ ایسے لوگوں کا بھی بن سکتا ہے جو اس وقت کسی بھی ادارے کا حصہ نہ ہوں اور جن پر سب کو اعتماد ہو۔ یہ ایسے معاملات ہیں جن کا حل صرف مذاکرات ہیں، 30 نومبر کے جلسے یا ڈی چوک میں ان کا حل نہیں نکلے گا۔ گجرانوالہ میں سیاسی جماعتوں میں تصادم کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے میری مقامی انتظامیہ سے بات ہوئی ہے اور ہم یہ کوشش کررہے ہیں کہ دونوں طرف سے ذمہ داروں کو بٹھا کر ایک ضابطہ اخلاق تیار کروایا جائے اور دونوں فریقین سے اس کی پابندی کروائی جائے۔

جے آئی ٹی کے سلسلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جے آئی ٹی کسی کی ڈکٹیشن پر نہیں بن سکتی۔ اس وقت اس کے سربراہ ڈی آئی جی ، سی سی پی او کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ ہیں جن کی زیادہ سروس پنجاب سے باہر کی ہے اور ان پر ماضی میں کرپشن یا غلط تفتیش کا کوئی الزام نہیں ہے۔ لیکن اگر پھر بھی طاہر القاری کو ان کی ذات پر کوئی اعتراض ہے تو اس کا طریقہ کار بھی موجود ہے ۔ وہ اس حوالے سے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو شکایت کر سکتے ہیں یا عدالت میں جا سکتے ہیں اور عدالت اس میں تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے لیکن اگر اس معاملے کو انہوں نے صرف سیاسی مقاصد اور اپنی تقاریر کے لیے کھلا رکھنا ہے تو پھر ہم بھی ان کا جواب دیتے رہیں گے۔

میاں محمود الرشید (اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی)

30 نومبر کے جلسے سے حکمران بوکھلا گئے ہیں۔ہمارا یہ جلسہ حاضری کے اعتبار سے ایک ریکارڈ جلسہ ہوگا۔ گزشتہ دو تین ماہ میں تحریک انصاف کے جلسوں نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑدیے ہیں۔ ہمارے ہر جلسے میں خواتین کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے جو اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت کے جلسے میں نہیں ہوئی ۔ اس کے علاوہ بغیر ٹرانسپورٹ او ر لمبے چوڑے انتظامات کے جلسے کا اعلان ہوتا ہے اور لوگوں خود چل کر آتے ہیں۔ لوگوں کا یہ جوش و جذبہ قابل تعریف ہے۔

یہ بھی تاریخ ہے کہ تحریک انصاف اس وقت اتنے بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے جبکہ ابھی انتخابات کا موسم بھی نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ عوام میں بیداری کی لہر ہے اور عوام حکمر انوں سے تنگ آچکے ہیں ۔ انتخابات کے وقت لوگ پیپلز پارٹی کے دور سے تنگ تھے اور انہوں نے پیپلز پارٹی کوووٹ نہیں دیئے۔ پھر ن لیگ کی حکومت آگئی اور انہوں نے لوڈشیڈنگ، مہنگائی ، بیروزگاری اور بد امنی کے خاتمے کے لیے بلند و بانگ دعوے کیے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے ان مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کو مشکل صورتحال سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس حکومت نے ایک سال میں جتنے قرضے لیے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں لیے گئے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کی باتوں نے لوگوں کو متاثر کیا اور لوگوںنے خود کہا کہ عمران خان عام آدمی کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ لہٰذا ان ساری وجوہات کی بناء پر ہم سمجھتے ہیں کہ 30 نومبر کا جلسہ بہت بڑا ہوگا اور حکمران اس سے خائف ہیں ۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ انتظامیہ ہمارے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے ۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں انہوں نے ہر جگہ کنٹینر لگا کر راستے بند کردیے اور پاکستان کو ’’کنٹینر ستان‘‘ بنا دیا۔ اسلام آباد میں تو پیدل چلنے والوں کے لیے بھی راستہ نہیں تھا۔

پھر وہاں خندقیں کھودی گئی، کریک ڈاؤن ہوا اور ہمارے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹرز کو دھمکایا گیا اور پھر ٹرانسپورٹرز نے خوف زدہ ہو کر ہمیں ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی۔ اب بھی یہ بالکل اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے 30 نومبر کو ہمارے خلاف کارروائی کرنے جارہے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز نے ہمیں پہلے ہی انکار کردیا ہے کہ وہ اس دن ہمیں ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کریں گے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق انہوں نے کارکنوں کی فہرستیں تیار کر لی ہیں اور یہ کریک ڈاؤن کر کے ہمارے کارکنوں کو گرفتار کریں گے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہی ہتھکنڈے دوبارہ استعمال کیے، ٹرانسپورٹ بند کی، کسی کو پہنچنے نہ دیا یا گرفتار کیا، تو یہ ان کی سب سے بڑے غلطی ہوگی۔ اگر انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر ہمیں روکنے کی کوشش کی تو خطرہ ہے کہ لاکھوں نوجوان رد عمل کا اظہار کریں گے جس سے انتشار پیدا ہو سکتا ہے اور اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔

حکومت نے شیخ رشید کی تقاریر کا بہت زیادہ حوالہ دیا ہے تو میں یہ بات واضح کردوں کہ ہماری سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ یہ شیخ رشید کے ذاتی خیالات ہیںتحریک انصاف کی پالیسی کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نے ہر سطح پر یہ کہا کہ ہماری ساری جدوجہد پر امن ہے اور 30 نومبر کے جلسے کو پر تشدد بنانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ہم نے اپنے رویے میں لچک پیدا کی ہے اور عمران خان نے نوازشریف کے استعفے کے مطالبے سے ایک قدم پیچھے ہٹایا ہے۔ میرے خیال میں عوام اور پارٹی کی طرف سے پریشر کی وجہ سے عمران خان نے ایسا کیا اور جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ۔ بجائے اس کے کہ حکومت اس کی قدر کرتی الٹا حکومتی اراکین کی جانب سے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور وہ اسے ہماری کمزوری سمجھتے رہے۔ لہٰذا اب اگر حکومت نے یہ موقع گنوا دیا تو یہ بھول جائیں کہ اپنی مدت سکون سے مکمل کر سکیں گے۔

نوید چودھری (مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

30 نومبر کے جلسے پر پوری عوام کو تشویش ہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ اسی حوالے سے آئندہ ملکی حالات اور سیاسی مستقبل کا جائزہ لیا جائے گا۔ جہاں تک جلسے کی بات ہے تو یہ ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی آئینی حدود میں رہتے ہوئے جلسہ کررہا ہے تو اس میں اتنی پریشانی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ چودھری نثار کا بیان ، پھر عمران خان کی تقاریراوراس کے ساتھ ساتھ اسحاق ڈار کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ حالات محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اس وقت بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہمارے اندورنی  معاملات اور بارڈر پر جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس کے پیش نظر تمام اپوزیشن جماعتوں کی یہ خواہش ہے کہ معاملات مذاکرات کے ذریعے حل ہوجائیں ۔ اسی لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی جرگہ کی صورت میں آگے بڑھے اور اس میں کافی پیشکش بھی ہوئی مگر حکومت کی طرف سے اس پر سرد مہری دکھائی گئی ۔ یہ وہی بات ہوئی جو ہم نے اسمبلی میں کہی تھی کہ جب آپ مسائل سے نکلیں گے تو آپ کے اندر پھر وہی فرعونیت اور رعونیت آجائے گی۔ لیکن دوسری طرف عمران خان جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ درست نہیں ہے اوراب وہ خود بھی کلیر نہیں ہیں کہ انہوں نے مذاکرات کرنے ہیں یا تصادم کی طرف جانا ہے۔

چند روز قبل ان کے ایک رہنما نے کہا کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو وہ وفاقی حکومت کے مختلف دفاتر پر قبضہ کرلیں گے۔ لہٰذا گرفتاری کی باتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ میری رائے یہ ہے کہ اگر تو صرف جلسہ ہونا ہے تو حکومت کو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے اور پھر اس کی تمام ذمہ داری تحریک انصاف کی ہوگی۔ لیکن اگر اس جلسے سے کوئی تکالیف آتی ہیں تو عوام ان کے لیے تیار نہیں ہیں اور عوام شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ اس ملک کے ساتھ مزید کیا ہوگا۔ لہٰذا حکومت اور تحریک انصاف کو معاملات 30 نومبر سے پہلے حل کر لینے چاہئیں اور 14 اگست والی صورتحال کو دہرانا نہیں چاہیے۔

تحریک انصاف کی یہ خواہش ہے کہ وہ اس ڈرامے کو دہرانا چاہتی ہے اور جو دس لاکھ لوگ وہ اس وقت نہیں لا سکے وہ اب اتنے لوگ لانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ بات پھرالزام تراشی کی طرف چلی جائے گی کہ ہمارے کنٹینرز کو روکا گیا اور کارکنوں کو آنے نہیں دیا گیا۔ جہاں تک جوڈیشل کمیشن کا تعلق ہے تو جب اس پر پارلیمنٹ نے ضمانت دی ہے کہ ہم اس پر عمل درآمد کرواسکتے ہیں تو تحریک انصاف کو اس ضمانت کی طرف جانا چاہیے اور یہ پارلیمانی کمیٹی حکومت سے بھی ضمانت لے سکتی ہے ۔ لیکن انہوں نے تمام لیڈرشپ کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور عمران خان تمام اداروں پر بھی تنقید کرتے رہے۔

اب عمران خان تنہا رہ گئے ہیں اور وہ مسائل سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈھ رہے ہیں ۔ میرے نزدیک 30 نومبر کوبھی 14 اگست کی طرح کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تحریک انصاف اس چیز کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کے لیے استعمال کرتی ہے تو اس کے نقصانات ملکی سیاست پر بہت زیادہ ہوں گے اور اس سے ملک کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا ہماری یہ خواہش ہے کہ انہیں مذاکرات کی میز پر لایا جائے اور انہیں پر امن جلسے کی اجازت دی جائے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ پر امن جلسہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ اب دونوں طرف سے جو زبان ا ستعمال ہورہی ہے اس میں امن کی فاختہ اڑتی ہو دکھائی دے رہی ہے۔

آج کل عمران خان پر شیخ رشید کا رنگ چڑھ گیا ہے اور وہ جو زبان استعمال کررہے ہیں اس پر پوری قوم پریشان ہے۔ یہ بات کہنا کہ شیخ رشید کی اپنی پارٹی ہے اور ان کی رائے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے تومیرے نزدیک یہ درست نہیں ہے۔ شیخ رشید یا کوئی بھی شخص جو ان کے پلیٹ فارم سے بولتا ہے وہ ان کی نمائندگی کررہا ہے۔ شیخ رشید نے یہ سب بازاری طریقے سے کہا جبکہ انہوں نے وہی بات پارلیمانی طریقے سے کہہ دی۔ لہٰذا جب یہی طریقہ کار ہوگا تو لوگوں میں فکر پیدا ہوگی۔

مسائل کے حل کے لیے پیپلز پارٹی نے ماضی میں بھی مثبت کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی ہم چاہیں گے کہ جرگہ کی صورت میں جو کمیٹی بنائی ہے اسے متحرک کریں تاکہ معاملات کو حل کی طرف لایا جاسکے۔ لیکن حکومت اس وقت سنجیدہ نظر نہیں آرہی کیونکہ اسحاق ڈار اور چودھری نثار کے بیانات سے لگتا ہے کہ حکومت اس وقت کچھ اور ہی کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت طاہرالقادری نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے تو اس کے بعد حالات خراب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ہمیں محاظ آرائی کی سیاست سے نکل کر ایک پر امن سیاسی عمل کی طرف بڑھنا چاہیے۔لاڑکانہ کے جلسہ کا جتنا شوروغل تھا وہ سب ختم ہوگیا۔

انہوں نے لاڑکانہ سے باہر 15 کلومیٹر دور ایک جگہ پر جلسہ کیا اور وہ جگہ اتنی چھوٹی ہے کہ 20 ہزار سے زیادہ لوگ اس میں نہیں آسکتے ۔ ان کی انتظامیہ میں وہ لوگ بھی نہیں تھے جن کی توقعات یہ لے کر آئے تھے اور وہاں ان کی کوئی تاریخ رقم نہیں ہوئی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ لاڑکانہ کسی کی جاگیر ہے۔ یہ تو عوام کا فیصلہ ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ لاڑکانہ کے لوگ بھٹو سے پیار کرتے ہیں اور بھٹو ازم کو سپورٹ کرتے ہیں، اس لیے وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔

فرید احمد پراچہ (مرکزی رہنما جماعت اسلامی)

21، 22 اور 23 نومبر کو ہم نے مینار پاکستان پرایک تاریخ ساز اجتماع کیا جس میں دنیا بھر سے لاکھوں مردوخواتین نے شرکت کی۔ مینار پاکستان پر اس سے پہلے بڑے بڑے دعوے کرنے والی جماعتوں نے بھی جلسے کیے ،لیکن ہمارا یہ اجتماع تعداد کے لحاظ سے ان سب سے بہت بڑاتھا ۔اس کے علاوہ ہمارے لوگ منظم تھے اوریہ اجتماع بامقصد تھا۔ 30 نومبر کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جلسہ کرنا سب کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ تحریک انصاف تو پہلے ہی مختلف شہروں میں جلسے کررہی ہے لہٰذا اگر یہ صرف جلسہ کرنے جارہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان معاملات حل کروانے کے لیے سراج الحق نے حکومت، پی ٹی آئی اوردیگر جماعتوں سے قریباََ 42 ملاقاتیں کی۔ میرے نزدیک یہ صلح کروانے والوں کا بہت بڑا کردار ہے لیکن یہ سب بے نتیجہ رہا۔ اور معاملات کے حل کے لیے مذاکرات کی جو فضا پیدا کی گئی تھی وہ پایہ تکمیل تک پہنچتی ہوئی نظر نہیں آرہی ۔ میرے نزدیک حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے کسی معاہدے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اعلان حکومت نے خودکیا تھا ۔ لہٰذا قانون اور آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ، جلد جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے۔ تحریک انصاف اس پر آرڈیننس کا مطالبہ کررہی ہے۔

میرے نزدیک بجائے آرڈیننس کے، ایکٹ کے ذریعے اس کی حیثیت مقررکی جائے اور اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور دیگر ممبران کی مدت تقریباََ پوری ہو چکی ہے۔ لہٰذا آئینی تقاضوں کے مطابق اور وسیع تر مشاورت کے ساتھ ایک نیا الیکشن کمیشن شکیل دیا جائے۔ اسی طرح انتخابی اصلاحات کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی میں زیادہ ممبران حکومت کے ہیں، اس لیے حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاملات میں مزید خرابی پیدا ہونے سے پہلے ہی نیک نیتی کے ساتھ انہیں حل کرے۔

فوج کے حوالے سے ماضی میں بھی کچھ خدشات نظر آئے اور اب بھی یہ بات کی جارہی ہے کہ ہم فوری طور پر فوج کو بلائیں گے۔ میرے نزدیک حکومت اور تحریک انصاف کی طرف سے ایسی فضا پیدا نہیں ہونی چاہیے جس سے فوج ہمارے معاملات میں آئے اور نہ ہی ایسی فضا پیدا کی جائے کہ ہمارے معاملات کسی تیسرے ادارے کے ہاتھ میں چلے جائیں ۔ حکومت کو یہ چاہیے کہ بے تابی کا مظاہرہ نہ کرے اور تمام مسائل تحمل کے ساتھ حل کرے۔

ہماری ملکی سیاست میں یوتھ کا شامل ہونا خوش آئند بات ہے اور اس کے علاوہ جو لوگ پہلے سیاست سے دور رہتے تھے وہ بھی اب سیاست میں حصہ لے رہے ہیں ۔ لہٰذا تمام سیاستدانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو تعمیری سوچ دیں اور سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ نئی نسل کو کیا منتقل کررہے ہیں اور اس کا معیار کیا ہے۔ کیونکہ اگر اگلی نسل کا مزاج بگڑتا ہے تو یہ بگاڑ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوگا اور حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔ لہٰذا میری تمام سیاستدانوں سے اپیل ہے کہ وہ ان سب چیزوں کا خاص خیال رکھیں اور نئی نسل کی مثبت طریقے سے سیاسی تربیت کریں۔

موجودہ مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کام کررہی۔مگر ساری ذمہ داری حکومت اور عمران خان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اخلاص کاثبوت دیں اور معاملات حل کریں۔ جوڈیشل کمیشن کی تجویز سراج الحق نے بہت پہلے عمران خان کو دی تھی جو انہوں نے اب مانی ہے اور استعفے کو جوڈیشل کمیشن کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔ میرے نزدیک عمران خان نے ایک اچھا راستہ دیا ہے لہٰذا حکومت کو معاملات آگے بڑھانے چاہیے اور دونوں جماعتوں کو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہیے۔

تحریک انصاف سے ہم یہ توقع کرتے ہیں وہ 30 نومبر کو آئینی حدود سے باہر نہیں نکلیں گے اور حکومت سے بھی امید ہے کہ وہ اس دن بے صبری کا مظاہرہ نہیں کریگی۔ اس وقت بھارت کے ساتھ بھی سرحدی کشیدگی چل رہی ہے اور اسی طرح دہشت گردی کے عالمی ایجنڈے بھی ہیں جن سے ہمیں نقصان ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اب اگر حالات خراب ہوئے تو یہ ہمارے لیے المیہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔