- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
کوئٹہ فائرنگ : پولیو ورکرز غیر محفوظ کیوں؟
کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 3 خواتین سمیت 4 پولیو ورکرز جاں بحق جب کہ 3خواتین زخمی ہوگئیں ۔ اس انسانیت سوز واقعہ نے جہاں ملک کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا سامان کیا ہے وہاں پولیو ورکرز کو دی جانے والی نام نہاد سیکیورٹی میکنزم کا پول بھی کھول دیا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر پولیو مہم کے لیے گھر سے نکلنے والی خواتین اور مرد ورکرز کو قتل کرنے کے بعد ملزمان با آسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوجائیں ۔ اس سانحہ کے بعد پولیو مہم کی کامیابی کے کتنے امکانات باقی رہ جاتے ہیں اس پر ارباب اختیار کو زوردار بیانات سے زیادہ ٹھوس اور سخت اقدامات پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ دنیا پہلے ہی پاکستان کو پولیو کے خاتمہ میں ناکامی اور دنیا بھر میں اس مرض کا ذمے دار ٹھہرا چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا الٹی میٹم بھی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے اس واقعہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے جب کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے جاںبحق ورکرز کے لواحقین کے لیے 10، 10 لاکھ اور زخمیوں کے لیے 2، 2 لاکھ امداد کا اعلان کردیا ، جب کہ ایمپلائز یونین اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے مہم کا بائیکاٹ کردیا ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ آور پاکستان اور اس کے مستقبل کے دشمن ہیں ۔دریں اثنا کراچی میں بھی انسداد پولیو مہم پر اس کا اثر پڑا اور مہم کے آخری روز کوئٹہ کے واقعے کے نتیجہ میں چند یونین کونسلوں میں پولیو رضاکار مہم ادھوری چھوڑ کر گھروں کو روانہ ہوگئے ۔
دیگر صوبوں میں بھی اس واقعہ کے منفی اثرات کا حکام کو ادراک کرنا چاہیے۔ سندھ کے علاقے کوٹری سائٹ خدا کی بستی میں پولیو ٹیم کو نامعلوم افراد نے کام کرنے سے روک دیا ، فاٹا کے قبائلی علاقوں میں سیکیورٹی کی کیا صورتحال ہے ،اﷲ ہی بہتر جانتا ہے ۔ ادھر اراکین قومی اسمبلی نے پولیو ورکرز پر حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومتیں پولیو ورکرز کے تحفظ کے لیے فوج کی خدمات حاصل کریں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک گیر پولیو مہم کو سبوتاژ کرنے والی غیر مرئی باطل قوتوں کے خلاف بھی آپریشن ضرب عضب کے طرز پر اعلان جنگ کرے ۔ ساتھ ہی پولیو مہم کی معطلی یا ناکامی کے ہولناک سیاسی اور بین الاقوامی نتائج سے حکمرانوں کوہر لمحہ خبردار رہنا چاہیے ۔ پولیو ورکرز کی ہلاکتیں درد انگیز اور پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔