تقریریں بنجر اور دعوے بانجھ ہوتے ہیں خان صاحب

جاوید چوہدری  جمعـء 28 نومبر 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

خان صاحب ہمارے ملک کی حقیقتیں ہمارے پرسپشن سے بالکل مختلف ہیں۔ آپ جانتے ہیں دنیا کے جس ملک کی آبادی 5 کروڑ ہو جائے وہ سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے آئیڈیل ہوجاتا ہے‘ پانچ کروڑ آبادی کے ملک میں مختلف سائز کی کم سے کم پانچ لاکھ کمپنیاں ہونی چاہئیں‘ ان کمپنیوں میں کم سے کم دو کروڑ لوگ ملازم ہونے چاہئیں اور انھیں ملک کے لیے کم سے کم 50 بلین ڈالرز کی مصنوعات سالانہ تیار کرنی چاہئیں اور مہینے میں کم سے کم ایک بلین ڈالر کمانے چاہئیں، وہ ملک تب جا کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا‘ دنیا میں آٹھ لاکھ سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں‘ یہ  245 ممالک میں کاروبار کے امکانات تلاش کرتی رہتی ہیں‘ یہ ہر اس ملک میں داخل ہوتی ہیں ۔

جس کی آبادی اڑھائی کروڑ سے اوپر ہے‘ پانچ کروڑ آبادی کے ممالک ان کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں جب کہ ہمارے ملک کی آبادی آئیڈیل ممالک سے چار گنا زیادہ یعنی 20 کروڑ ہے‘ یہ دنیا بھر کی کمپنیوں کے لیے آئیڈیل مارکیٹ ہونے چاہیے تھے‘ آپ خود سوچئے جس ملک میں روزانہ 40 کروڑ روٹیوں کی ضرورت پڑتی ہو‘ جس ملک میں اگر فی کس ایک پاؤ گندم کو معیار بنا یا جائے تو اس ملک میں روزانہ 5 کروڑ کلو گندم استعمال ہو گی‘ ہم اگر اس کے ساتھ سبزی‘ دالیں‘ دلیئے‘ گھی‘ مصالحے‘ مرغی اور گوشت کو بھی شامل کر لیں تو ان میں سے ہر جنس روزانہ لاکھوں کلو گرام کی مقدار میں استعمال ہو گی‘ جس میں روزانہ 10 کروڑ لیٹر دودھ درکار ہو‘  جس ملک کا ہر شخص اگر سال میں صرف دو جوڑے کپڑے اور دو جوتے خریدے تو اسے سال میں 40 کروڑ جوڑے کپڑے اور 40 کروڑ جوتے چاہئیں‘ جو لوڈ شیڈنگ کا شکار بھی ہو‘ جسے مزید دس ہزار میگاواٹ بجلی چاہیے۔

جس ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سو بڑی کمپنیاں درکار ہوں اور ہر کمپنی اگر سالانہ ایک ارب ڈالر خرچ کرے تو ہماری سفری ضروریات پوری ہوں گی‘جسے موٹروے جیسی تیس بڑی شاہراہیں بھی درکار ہوں‘ جس ملک کے صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس ذاتی سواری ہو‘ باقی ننانوے فیصد لوگ موٹر سائیکل سے ذاتی کار کا انتظار کر رہے ہوں‘ جس ملک کی 18فیصد آبادی قدرتی گیس‘پانچ کروڑ لوگ ذاتی گھر اور چالیس فیصد تعلیم‘ چالیس فیصد صاف پانی اور 20فیصد علاج کی سہولت سے محروم ہوں ‘یہ ملک غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے آئیڈیل ترین نہیں ہوگا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے‘ غیر ملکی کمپنیاں تو رہیں ایک طرف ملکی کمپنیاں بھی ملک سے فرار ہو رہی ہیں‘ ہمارے 80 فیصد مالدار لوگ ملک سے باہر سیٹ اپ بنا چکے ہیں‘ یہ دوبئی سے لے کر کینیڈا تک شفٹ ہو چکے ہیں‘کیوں؟ آپ کا جواب یقینا کرپشن‘ سرخ فیتہ‘ نااہل حکمران اور دہشت گردی ہو گا‘ یہ وجوہات بھی یقینا موجودہیں لیکن یہ سب مل کر دس فیصد بنتی ہیں‘ نوے فیصد وجہ مختلف ہے اور وہ وجہ آج سے چند برس قبل جنرل الیکٹرک نے تلاش کی تھی‘ یہ دنیا کی 7ویں بڑی کمپنی ہے۔

اس کا ریونیو 140بلین ڈالر سے زائدہے‘ اس نے چند برس قبل پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجوہات تلاش کرائیں‘ اس کے سامنے دو بڑی وجوہات آئیں‘ پہلی وجہ پاکستان میں اعلیٰ پائے کی مینجمنٹ موجود نہیں‘ غیر ملکی کمپنیوں کو تجربہ کار منیجر نہیں ملتے اور دو یہاں پیشہ ور اور ماہر کارکن موجود نہیں ہیں‘ آپ اگر کسی ملک میں آئی فون کا کارخانہ لگاتے ہیں تو آپ کو کم سے کم دو ہزار ورکرز اور 40 منیجرز چاہئیں لیکن آپ کو اگر ملک میں ورکر ملیں گے اور نہ ہی منیجرتو آپ کارخانہ کیسے لگائیں گے‘ ہمارے ملک میں 20 کروڑ لوگ ہیں لیکن صرف ایک کروڑ لوگ کام کرتے ہیں اور ان میں سے بھی تین چوتھائی لوگوں کے پاس مستقل کام نہیں چنانچہ ایک کروڑ لوگ 19 کروڑ لوگوں کا بوجھ کتنی دیر اٹھائیں گے؟ 20 کروڑ لوگوں میں سے صرف دس لاکھ ٹیکس دیتے ہیں‘ گویا دس لاکھ لوگ 19 کروڑ 90 لاکھ لوگوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں اور اس میں جوہری دفاع کے اخراجات بھی شامل ہیں۔

آپ ان دس لاکھ لوگوں کی تعداد میں کتنا اضافہ کر لیں گے؟ آپ اگر انھیں بڑھا کر ایک کروڑ بھی کر لیں آپ تب بھی ملک نہیں چلا سکیں گے‘ آپ کو ملک چلانے کے لیے کم از کم 8 کروڑ کماؤ پوت چاہئیں اور یہ  بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ اعلیٰ تربیت یافتہ  ہونے چاہئیں اور یہ پورا ٹیکس بھی ادا کریں‘ آپ کو ان کے ساتھ ساتھ کم از کم 5 لاکھ بڑی اور درمیانے درجے کی کمپنیاں بھی چاہئیں‘ خان صاحب آپ یہ سب کچھ کہاں سے لائیں گے؟ آپ کے پاس اگر الہ دین کا چراغ بھی آ جائے آپ تب بھی یہ سب کچھ تین چار پانچ برسوں میں نہیں کر سکیں گے‘ حقیقت تو یہ ہے ہماری پوری قوم‘ہماری ساری حکومتیں صرف پانی سے بجلی پیدا کرنے پر لگ جائیں‘  سارے وسائل پن بجلی میں جھونک دیں تب بھی ہم دس برسوں میں پورے ملک کو بجلی فراہم کرنے کے قابل ہوں گے‘ یہ وہ حقیقت ہے جسے آپ کنٹینر سے خطاب کرتے وقت بھول جاتے ہیں‘ آپ پاکستانیوں کو مزید خواب بیچ کر گھر چلے جاتے ہیں۔

خان صاحب حقیقت تو یہ ہے 25 نومبر 2014ء کی رات کراچی کے ایک گھر سے 26 کمسن بچیاں برآمد ہوئیں‘ یہ بچیاں باجوڑ ایجنسی سے لائی گئی تھیں اور قرضے کی ڈیڑھ دو لاکھ روپے قسط ادا نہ ہونے پر آگے روانہ کر دی گئیں‘ یہ بچیاں کہاں سے آئیں‘ یہ کس کس گھر کی چشم و چراغ تھیں‘ والدین انھیں اپنے زخمی کلیجوں سے الگ کرنے پر کیوں مجبور ہوئے اور ان بچیوں نے دو تین چار برس بعد کس کس کی ہوس کے بستر پر ذبح ہونا تھا؟ آپ شاید یہ نہیں جانتے ہوں گے‘ خان صاحب ملک کے دس بڑے شہروں میں ایسے درجنوں گینگ موجود ہیں جو روٹی‘تعلیم اور شادی کے نام پر سوات‘ آزاد کشمیر اور قبائلی علاقوں سے نابالغ بچیاں لاتے ہیں اور بعد ازاں ان بچیوں کو ملک اور بیرون ملک ہوس کے کاروبار پر لگا دیتے ہیں لیکن وہ ریاست جو تین دن میں ان بچیوں کے والدین کی نشاندہی نہ کر سکی ہو‘ وہ یہ کاروبار کیسے روکے گی؟ خان صاحب آپ کچھ نہ کریں ۔

آپ اگر خیبر پختونخواہ میں ہر بچے کو رجسٹر کرنا شروع کردیں اور یہ قانون بنادیں صوبے کا کوئی بچہ والدین کے بغیر سفر نہیں کرے گا تو آپ کی پوری زندگی اس قانون پر عملدرآمد پر خرچ ہو جائے گی‘ یہ ریاست اگر 26 بچیوں کی حفاظت نہیں کر سکتی‘ خیر پختونخواہ اگربیس تیس لاکھ بچیوں کو نہیں پال سکتا تو پھر آپ پورا ملک کیسے کنٹرول کریں گے‘ ہیومن ٹریفکنگ دنیا کا سنگین ترین جرم ہوتا ہے لیکن یہ جرم معمولی سی توجہ سے روکا جا سکتا ہے مگر ہم اگر ملک میں یہ قانون نہیں بنا سکتے‘ ہم اگر اس پر عمل نہیں کرا سکتے تو ہم ملک کے ڈبل شاہوں اور سو سو بچوں کے قاتلوں کو پھانسی کیسے لگائیں گے؟ ہم فرقہ واریت کو مذہب قرار دینے والے لوگوں کو کیسے روکیں گے؟

خان صاحب سرگودھا میں 12 بچے انکیوبیٹر اور دیگر طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے‘ تھر میں 128 بچے غذائی قلت کی وجہ سے مر چکے ہیں‘ تھر میں خشک سالی اور قحط کی وجہ سے گزشتہ پانچ برسوں سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں‘ حکومت اب تک تھر پرایک ارب روپے خرچ کر چکی ہے لیکن تھر کا بحران ختم نہیں ہورہا‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا کی کوئی ریاست 15 لاکھ لوگوں کو زندگی بھر نہیں پال سکتی‘ آپ کے صوبے میں 28 لاکھ آئی ڈی پیز چھ ماہ سے دربدر پھر رہے ہیں‘ وفاق اور صوبائی حکومت انھیں نہیں سنبھال سکی‘ آپ اگر سندھ حکومت سے توقع کریں‘ یہ پانچ برسوں سے تھر کے قحط زدہ لوگوں کو پال لے گی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہو گی۔

آپ مٹھی میں اسپتال بنا سکتے ہیں‘ آپ وہاں جدید ترین مشین بھی لگا سکتے ہیں لیکن آپ ڈاکٹر‘ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ان مشینوں کو چلانے والے لوگ کہاں سے لائیں گے اور آپ اگر لے بھی آئے تو آپ ان لوگوں کو مٹھی میں کتنے دن روک سکیں گے؟ یہ کراچی یا حیدر آباد بھاگ جائیں گے اور ان کے جانے کے بعد مٹھی یا تھر دوبارہ پہلی پوزیشن پر ہوگا اور تھر کے یہ 15لاکھ لوگ اگر بے ہنر رہیں گے‘ یہ کام نہیں کریں گے اور یہ ریاست کو ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو ریاست ان کے لیے سڑکیں‘ اسکول‘ اسپتال‘ ٹرانسپورٹ اور صنعتی یونٹ کہاں سے بنائے گی۔

ہم کہتے ہیں تھرکوئلے کی دولت سے مالا مال ہے‘ یہ درست ہے لیکن کیا تھر کے لوگوں یا پاکستانی قوم میں یہ کوئلہ نکالنے کی صلاحیت موجود ہے؟ ہم لوگ تو کوئلہ نکالنے کے لیے بھی چین کے محتاج ہیں چنانچہ پھر تبدیلی کیسے آئے گی اور خان صاحب آپ 14 اگست سے اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں‘ اس کی سیکیورٹی پر ایک ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں‘ آپ نے بھی یقینا ساٹھ ستر کروڑ روپے خرچ کیے ہوں گے‘ یہ رقم کس کھاتے میں جائے گی؟ کیا یہ اس غریب قوم کے کندھوں پر بوجھ نہیں‘ اگر ہاں تو اس کا ذمے دار کون ہے؟

خان صاحب دنیا میں خوابوں کی کاشت آسان ترین کاروبار ہے کیونکہ اس کے لیے بیج درکار ہوتے ہیں اور نہ ہی زمین‘ پانی‘ کھاد اور کسان‘ بس آنکھیں بند کر کے لیٹ جائیں اور خوابوں کی ٹہنیوں پر ہیرے جواہرات لہلہانے لگتے ہیں مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو خوابوں کا مسافر بدستور یخ ٹھنڈی زمین پر پڑا ہوتا ہے اوراس کے اوپر وہی بے مہر آسمان تنا ہوتا ہے اور اس کے دائیں بائیں مسائل کا سمندر بھی اسی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے‘ کاش دعوے انڈے دیتے اور تقریروں پر بالیاں اگتیں تو قومیں یہ انڈے‘ یہ بالیاں بیچ کر نئے ملک خرید لیتیں‘ تقریریں بنجر اور دعوے بانجھ ہوتے ہیں خان صاحب یہ قوموں کے مقدر نہیں بدلا کرتے‘پرانی قومیں کام کرنے سے نئی بنا کرتی ہیں اور ہم خان صاحب من حیث القوم سب کچھ کر سکتے ہیں‘ اگر نہیں کر سکتے تو بس کام نہیں کر سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔