برسوں بعد…

منظور ملاح  جمعـء 28 نومبر 2014

میں تب ٹین ایجر تھا، جب ہر طرف خوشیاں تھیں، غربت ہوتے ہوئے بھی برداشت اور صبر ہاتھ سے جانے نہ دیا جاتا تھا۔ تب کسی بھی مسجد پر کسی بھی فرقے کا نام  نہ جھنڈا لگتا تھا۔ ہر فرقے کے لوگ عبادات اپنے اپنے طریقے مطابق کیا کرتے تھے، کوئی نعرے بازی ہوتی تھی نہ کوئی تشدد کی کارروائیاں۔ تب کسی گھر میں کوئی بیٹا پیدا ہونے سے لے کر شادی ہونے تک ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی تھیں۔

جس کے گھر میں شادی کی خوشی ہوتی تھی، تو شادی کے دن سے سات دن پہلے سارا گاؤں ہر شام کو اس کے گھر امنڈ پڑتا تھا۔ مرد حضرات ایک طرف بیٹھ کر زمانے کی گپ شپ لگاتے تھے، تو بچے دھلے ہوئے کپڑے پہن کر ادھر اْدھر کے کھیل کھیلتے تھے، جب کہ عورتیں، چھوٹے بچوں کو گود میں لیے، سونے کے زیورات پہنے باتوں میں لگی رہتی، ان میں سے کچھ سگھڑ عورتیں گالوں پر ہاتھ رکھ کر ‘دھری جوڑایم جیڈیوں ڑی’ سے اپنا آواز الاپتیں تو پورا گاؤں ان کی آواز سے مہک اٹھتا۔  کچھ عورتیں شادی والے گھر کے چولہے کا کام سنبھال لیتیں اورکچھ برتن وغیرہ صاف کرنے کا کام کرتیں،گھر کا مالک، پتے کی بیڑیاں،الائچی اور گْڑ کی مٹھائی اور چھالیاں، مردوں اور عورتوں میں تقسیم کرتے۔ ایسا لگتا تھا کہ پورے جہاں کی خوشیاں آسمان سے اْتر آئی ہیں۔

جب کہ گاؤں کا وڈیرہ اور وڈیری بھی ان خوشیوں میں شریک ہوتے تھے، جن کی رہنمائی میں شادی کی تقریبات ہوتیں۔ شادی والی رات خوشیوں کے رنگ دھنک جیسے لگتے، پوری رات راگ رنگ، لطیفے، قصے، ٹوٹکے،لوک شاعری پہیلیاں اور شادمانیاں ہوتی تھیں، صبح سویرے نکاح کا عمل شروع ہوتا اور شام کو دلہن کو اپنے والدین کے گھر سے لینے عورتیں آتیں اور لوک گیتوں کے ساتھ اسے دوپٹا اوڑھ کر دلہا کے گھر لے جاتیں، یوں شادی کا عمل مکمل ہوتا۔ لیکن کئی ہفتوں تک جب گاؤں کی عورتیں پانی بھرنے اکٹھی ہوتیں تو اس شادی کا ذکر بھی چلتا رہتا، یوں کئی دنوں تک خوشیاں گاؤں کے ہر گھر کے آنگن میں موجود رہتیں، ان شادیوں میں بغیر کسی ذات پات، مذہب یا فرقے کے سب شریک ہوتے۔

پھر کیا ہوا؟ اس ملک کو پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی، یا اپنے کرتوت آڑے آگئے، البتہ کچھ دن پہلے اسلام آباد ایئر پورٹ سے ایک فائیو اسٹار ہوٹل جاتے ہوئے راستے میں ٹیکسی ڈرائیور کی زباں سے نکلی ہوئی بات یاد آتی ہے کہ اس ملک کو بھٹو کی بددعا لگ گئی کیوں کہ جس نے ہمیں بہت کچھ دیا بدلے میں ہم نے اسے پھانسی چڑھا دیا۔ ضیاء الحق کی آمریت نمودار ہوئی تو ہمارے ملک کا سیاسی اور سماجی ڈھانچہ ہی بدل گیا، مسجدوں کی عمارتوں پر فرقے کا نام بھی لکھا جانے لگا تو مذہبی پارٹی کا علم بھی لہرانے لگا، مدرسوں کی تعداد بڑھنے لگی جو اپنے مکتب فکر کا پرچار کرنے لگے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگے آگے چل کر افغان جہاد کا نعرہ لگایا گیا جس کے پیچھے بھی کمرشل مقاصد تھے، ورنہ اصل مفادات کسی اور کے تھے۔

یوں جوق در جوق بیروزگار اور غریب نوجوان ان جہادی تنظیموں میں بھرتی ہونے لگے جو آمریت کی پیداوار تھی۔ اس عمل سے ریاست کے اندر ایک اور ریاست نے جنم لیا، آگے چل کر ان جہادیوں کی بندوقوں کا رْخ ایک دوسرے اور ملک کی لوگوں کی طرف کیا گیا، یوں ملکی استحکام خطرے میں پڑ گیا۔ خدا بھلا کرے ان ملکوں کا جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر جہادی لوگوں کو خیراتی ادارے قائم کرنے کی ترغیب دی اور اس مقصد کے لیے بھاری رقوم بھیجتے رہے۔ ان خیراتی اداروں کی پہلی ترجیح ان کے اپنے فرقے کے لوگ تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طرف افراتفری مچ گئی اور عام لوگوں کی توجہ بھی ان کی طرف کھچتی گئی یوں ہمارے سماج میں خوشیاں الوداع کرتی گئی، صدیوں کی رسومات اور نسلوں سے ثقافتی سرگرمیاں ختم ہوتی گئیں۔

ان کی جگہ مذہبی تفرقہ بازی، بے صبری اور پْر تشدد کارروائیاں بڑھتی گئیں، جس کے وجہ سے پورا سماج اجتماعی ڈپریشن کا شکار ہوگیا، اور ایک نئی شکل میں نمودار ہوا۔ اس ماحول میں جب میرے گاؤں میں شادی کے مواقعے آتے تو ہر طرف خاموشی چھائی ہوتی نہ وہ ڈھول کی آوازیں نہ ناچ گانا ایسا لگتا جیسے غمی کا موقعہ ہو، صرف شادی والے گھر کے آنگن میں چار پانچ بندے بیٹھے ہوتے، البتہ اگر کوئی فرقے وارانہ جلسہ ہو رہا ہو تو پورا گاؤں کھچا کھچ بھرا ہوا ہوتا، نعرے پہ نعرے، چھوٹے بڑے معصوم، بوڑھے۔ یا اللہ یہ کیا نظارہ ہے، اگر ایک فرقے کے آدمی سے دوسرے فرقے کی بات کرو تو کلہاڑی یا بندوق ہاتھ میں، اور تو اور جنازے پڑھانے پر بھی جھگڑا۔

اس ماحول میں سالوں سے آباد کئی ہندو لوگ بھی ہجرت کرکے چلے گئے، اب مذہب کی اصل روح ہی غائب۔ اب ہمارے گاؤں میں کوئی گیت نہیں گاتا، شادی پر مجمع اکٹھا نہیں ہوتا، عورتیں خوشیاں نہیں مناتیں، بچے شادی والے گھر کے آنگن پر کھیلنے نہیں آتے، کوئی میٹھی آواز گاؤں کی فضا کو معطر نہیں کرتی بلکہ جب عورتیں پانی بھرنے کے لیے اکٹھے ہوتی ہیں، تو خوشیوں کی بجائے ان کی زبانوں سے غم کے دریاء بہتے رہتے ہیں، سننے والے بھی مایوس ہو جاتے ہیں، دن رات غم ہی غم کی باتیں، ایک گھرکے لوگ بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی کہاں گئے وہ پیار و محبت کے رشتے۔

ایسے ہی گھٹن کے ماحول میں کچھ دن پہلے جب سردی کی خاموش رات میں اپنی چارپائی پر سویا ہوا تھا تو کئی سالوں کے بعد گیت و ساز کی مدھر آوازیں میرے کانوں پڑی، ایسا لگا جیسے کوئی سپنا دیکھ رہا ہوں،لیکن جب مکمل طرح نیند سے آزاد ہوا تو ایک خوشگوار حیرت پیدا ہوئی، مجھے لگا کہ اب اس گہرے اندھیرے میں کوئی روشنی کی کرن نکل آئی ہے۔

خدا کرے ایسی خوشیاں نہ صرف میرے گاؤں بلکہ میرے پیارے ملک کے لوگوں کے آنگن میں آتی رہیں اور روشنیاں جلتی رہیں، ورنہ ہمارے دل تو ویسے ہی مسافر کی طرح ہوتے ہیں، جن میں کئی ڈیرے ڈالتے ہیں اورکئی اکھاڑ کر چلے جاتے ہیں، صرف ان کے نشانات ہمیشہ کے لیے رہ جاتے ہیں، ویسے بھی ہمارے دل خوشیوں کے ڈیرے ڈالنے کے لیے آج کل بیتاب ہیں۔ کاش! ہم ایک دوسرے کو یہ خوشیاں دے سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔