احمد شہزاد کو ہیوز کے سانحے پر اپنی انجری یاد آگئی

اسپورٹس رپورٹر  جمعـء 28 نومبر 2014
اسٹیڈیم سے اسپتال جاتے ہوئے والدہ کے ساتھ بات کرنا چاہی تو فون نمبر ہی بھول گیا۔ احمد شہزاد  فوٹو : فائل

اسٹیڈیم سے اسپتال جاتے ہوئے والدہ کے ساتھ بات کرنا چاہی تو فون نمبر ہی بھول گیا۔ احمد شہزاد فوٹو : فائل

لاہور: پاکستانی اوپنر احمد شہزاد کو آسٹریلوی بیٹسمین فلپ ہیوز کے سانحے پر اپنی انجری یاد آگئی۔

انھوں نے کہا کہ خوش قسمت ہوں کہ باؤنسر لگنے کے باوجود بال بال بچ گیا، یو اے ای میں زخمی ہوا تو کچھ نہیں سوجھ رہا تھا، اسپتال جاتے ہوئے منیجر معین خان کی معاونت سے والدہ کے ساتھ بات کرنا چاہی تو فون نمبر ہی بھول گیا۔ تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم کے اوپنر احمد شہزاد نیوزی لینڈ کیخلاف ابو ظبی ٹیسٹ میں کورے اینڈرسن کا باؤنسر کنپٹی پر لگنے سے زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے تھے، ہیئر لائن فریکچر کی وجہ سے درد کی شدت اور نیم بے ہوشی کی کیفیت برقرار رہنے پر انھیں وطن بھجوا دیا گیا۔

اب وہ تیزی سے رو بصحت اور پریکٹس بھی شروع کر چکے ہیں۔احمد شہزاد نے کہا کہ فلپ ہیوز کی المناک موت کا سن کر چند لمحے کے لیے تو سکتہ ہی طاری ہو گیا تھا، مجھے آسٹریلوی بیٹسمین کی فیملی کا خیال آیا، اندازہ ہے کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہوں گے، جس روز فلپ ہیوز زخمی ہوئے اسی وقت سے ان کی صحت کیلیے دعا کرتا رہا ہوں، انھوں نے کہا کہ ابو ظبی میں گیند لگنے کے بعد کیوی پلیئرز کا رویہ بڑا ہمدردانہ تھا،تھوڑی ہمت ہوئی تو سب سے پہلے مجھے اپنے گھر والوں کی فکر مندی کا خیال آیا تھا، ایمبولینس میں اسپتال لے جایاجا رہا تھا تو منیجر معین خان سے کہا کے میری والدہ سے بات کرا دیں، انھوں نے نمبر پوچھا تو بھول گیا۔

بھائی کو کال ملانے کا کہاتو ان کا نمبر بھی یاد نہ آیا، اسپتال سے واپس آیا تو ٹی وی کیمرے کے سامنے ایک مسکراہٹ دی جو خاص طور پر فیملی کے لیے تھی کہ میں ٹھیک ہوں اوپنر نے کہا کہ انجریز کھیل کا حصہ ہیں اور ہمیں انھیں برداشت کرنا ہی پڑتا ہے، میں خوش قسمت ہوں کہ اتنی شدت سے گیند لگنے کے بعد کسی بڑی انجری سے بال بال بچ گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔