(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - لڑکیوں کے دکھ عجب ہوتے ہیں!

لبنیٰ اعظم  جمعـء 28 نومبر 2014
نورالعین بھی قبیلے کی ایک ایسی لڑکی تھی جس کی زندگی میں صبح تو رو ز آتی مگر آفتاب کہیں روٹھ گیا۔ فوٹو فائل

نورالعین بھی قبیلے کی ایک ایسی لڑکی تھی جس کی زندگی میں صبح تو رو ز آتی مگر آفتاب کہیں روٹھ گیا۔ فوٹو فائل

جو خواب دیکھا تھا شہزادیوں نے پچھلے پہر
پھر اس کے بعد مقدر میں تاج و تخت نہ تھا

اکیڈمی سے گھر لوٹتے وقت نورالعین کے دماغ میں بہت سے سوالات پیدا ہو رہے تھے۔ جو کہ ایک لڑکی کا فطری پن ہوتا ہے ۔ ایک اہم سوال کیا لڑکی پیدا ہونا کوئی گنا ہ ہے ؟بہت سارے قارئین میرے اس سوال پر انگلیاں اٹھائیں گے،مگر کچھ کہنے سننے سے پہلے نور العین کیساتھ ہونیوالے واقعات کو پڑھ، سمجھ لیا جائے تو پھر حقیقت کی روشنی میں اندھیرہ تکلیف نہیں دے گا۔ نور العین ایک پڑھی لکھی ، سمجھدار ، خوش شکل لڑکی ہے جو کہ وقت کیساتھ ساتھ خاتون میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی ، اس کے بہت سارے رشتے آتے جاتے رہے۔ اس بار بھی ایک رشتہ آیا تھا نور العین جیسے ہی گھر داخل ہوئی کچن میں نئے برتن دیکھ کر سمجھ گئی کہ کوئی پھر قیمت لگانے آگیا ہے۔ماں نے نور العین سے کہا بیٹی تیا ر ہو جاؤ اور چائے لے کر کمرے میں آجائو وہاں کچھ لوگ تمہیں دیکھنے کیلئے آئے ہیں ۔ یہ طریقہ اور الفاظ نور العین کیلئے نئے نہیں تھے۔وہ ماں سے لڑپڑی اس بار میں کسی کے سامنے نہیں جائوں گی ۔میں ذہنی مریضہ بن چکی ہوں ۔میرا سکون تباہ ہو چکا ہے ۔کیا مجھے جینے کا حق نہیں ۔کتنے لوگ آئے دیکھا، چلے گئے اور پلٹ کر واپس نہ آئے۔آخر مجھے بھی احساس محرومی ہوتا ہے۔مجھے نہیں جانا کسی کے سامنے۔

ماں بیٹی کے اس رد عمل پر تڑپ اٹھی۔اسے احساس تھا کہ نورالعین کس کرب سے گزر رہی ہےلیکن وہ اپنی بیٹی کے مستبقل کیلئے فکر مند تھیں، کہنے لگیں کہا کہ اس ستم گر معاشرے میں مرد کے بغیر عورت کا کوئی وجود نیں ہے ۔ مرد عورت کو تحفظ دیتا۔ معاشرے میں جینے کا تصور دیتا۔چیز وہی اچھی لگتی ہے جو کسی کی ملکیت ہو۔ ورنہ راہ میں پڑی ہڈی پر تو ہر کتا بلا لپکتا ہے۔ نور العین ان سب باتوں کو بخوبی سمجھتی تھی مگر اس کے اندر ایک ڈر تھا کہ باقی لوگوں کی طرح اس بارآئے ہوئے لوگ بھی اسے نہ کرکے چلے جائیں گے۔

یہ ہمارا المیہ ہے ہم لوگ بہنوں بیٹیوں والے ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی بیٹیوں پر طرح طرح کی نکتہ چینیوں سے باز نہیں آتے ۔ ہمارا معاشرہ جھوٹی بندشوں اور خود ساختہ رسموں کی لپیٹ میں ہے ۔ اسی پکڑ نے انسان کے خاص طور پر لڑکیوں کیلئے بیشمار مسائل پیدا کر دیئے۔ معاشرہ پڑھ لکھ گیا مگر احساسات سے دور ہوتا چلا گیا ۔شاعر نے سچ ہی کہا ہے۔

ہے مسئلہ سورج مکھی قبیلے کا
کہ صبح نکلے مگر آفتاب نہ ہو

نورالعین بھی قبیلے کی ایک ایسی لڑکی تھی جس کی زندگی میں صبح تو رو ز آتی مگر آفتاب کہیں روٹھ گیا۔ جب بھی کوئی رشتہ آتا بن سنور کر ان کے سامنے جاتی مگر وہ لوگ کچھ نہ کچھ نکتہ نکال کر چلے جاتے ۔ایک بار اس کی رنگت پر سوال ہواجو نورالعین کو چبھ گیا ۔ وہ سوچنے لگی رنگ زیادہ اہم ہے یا خوبصورت روح۔دوسری بار تعلیم پر اعتراض ہوا اور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی تیسری بارجو انکار ہوا وہ اس کا گھر تھا کہ گھر اچھا نہیں ہے، اور چوتھی بار تو حد ہی ہوگئی رشتے والوں نے کہا کہ لڑکی تھوڑی موٹی ہوگئی ہے۔ہمیں موٹی لڑکیاں نہیں پسند ہمارا لڑکا خاصا لمبا ہے ہمیں اسمارٹ لڑکی کی تلاش ہے۔ پھر انکار ہوگیا۔ ایک اوررشتہ آیا۔لڑکے کی بہنوں نے نورالعین کے پائوں دیکھ کر ناگواری کا تاثر دیتے ہوئے کہا پہلی نظر پائوں پر ہی پڑتی ہے ۔لڑکی کے پائوں خوبصورت ہونے چاہیں اس سے لڑکی کی صفائی ظاہر ہوتی ہے۔ان لوگوں نے تو ساری حدیں پار کر ڈالی۔نورالعین اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔لڑکے کو ایک نظر دیکھا جو بے حد کمزور ار بڑے ہوئے ناخنوں کیساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

نورالعین نے سوچا جو شخص خود بڑھے ہوئے ناخن رکھتا ہے اسے کیا ہوش صفائی کیا ہوتی ہے ۔ہاں مگر وہ مرد ہے اس کی یہی برتری ہے جو سب عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔ا س رشتے سے بھی انکار ہو گیا۔ خیر جس رشتے کے لئے نورالعین کی ماں رضامند کر رہی تھی اسے مجبوراً کمرے میں چائے کا ٹرے اٹھا ئے جانا تھا ۔وہاں بیٹھے لوگوں نے بہت گہری نظر ڈالی اور باتوں ہی باتوں میں کہہ ڈالا کہ ہمارا لڑکا جوان ہے اس کیلئے خوبرو لڑکی کی تلاش ہے ویسی بیٹی کی عمر کیا ہے۔؟ یہ سوال نورالعین اورماں دونوں کو چھلنی کر گیا ۔نورالعین اٹھ کر کمرے میں چلی آئی اور خاموش لب، بھیگی آنکھوں سے رب سے شکوہ کرنے لگی۔

لڑکیوں کے دکھ بھی عجب ہوتے ہیں سکھ ان سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

ہمارے معاشرے کا سنگین المیہ ہے کہ لوگ اپنے لڑکوں کو دیکھتے نہیں اور لڑکی میں ہزاروں عیب نکال کر چل پڑتے ہیں ۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مثلاً اس کے بال ٹھیک نہیں رنگ صاف نہیں لڑکی کم بولتی ہے ،زیادہ بولتی ہے، گھر چھوٹا ہے وغیرہ وغیرہ پہ انکار کرنے سے لڑکی کی ذات پر کتنا اثر ہوتا ہوگا۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں آج ہم دوسروں کے گھر جا رہے ہیں کل کوئی ہمارے گھر بھی آئیگا۔ اصل میں ہم ہر چیز پرفیکٹ طلب کرتے ہیں پھر چاہے وہ لڑکی ہو ، جانور،یا کھلونا۔

ہم یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ صرف ایک ہی ذات مکمل ہے اللہ کی۔ باقی سب دنیا عیبوں سے بھری پڑی ہے۔ رشتے والے تو گھر سے چلے گئے مگر لڑکی پر کیا گزرتی ہے وہ کبھی سوچا؟ شہزادے کے انتظار میں لڑکیاں گھر بیٹھی رہ گئی۔سروں پر سفیدی نکل آتی ہے ،کہیں جہیز کی وجہ سے انکار تو کہیں رنگ کی وجہ سے،یہ چھوٹی چھوٹی باتیں لڑکیوں کو کتنا بڑا دکھ دے جاتی ہیں یہ بات ہم کبھی نہیں سوچتے ہیں۔ ہمیں اپنے بیٹے میں عیب نظرنہیں آتے ، لڑکا سگریٹ پیتا ہے ماں کہتی ہے کوئی برائی نہیں اسے تھوڑی طلب ہوتی ہے پی لیتا ہے خود چھوڑ دیگا۔ لڑکا غلط صحبت میں ملوث ہے کوئی بات نہیں یہ تو آجکل نارمل ہے۔ لڑکا کافی لڑکیوں سے دوستی رکھتاہے۔یہ بھی کوئی عیب نہیں جوان ہے گرم خون ہے آخر کہیں تو ہاتھ سلگائے گا نہ کوئی مسئلہ نہیں خود ہی شادی کے بعد ٹھیک ہوجائیگا۔ لڑکا کماتا نہیں بے روزگار ہے بھئی دیکھیں لڑکی اپنا رزق لیکر آتی ہے جب شادی ہوگی تب لڑکے کا رزق بھی کھل جائیگا۔ لڑ کے کا خود کتنا ہی خر ا ب کردار کیوں نہ ہو لڑکی پاک دامن ہونی چاہیے۔ ہم دوسروں کی بیٹیوں کو انکار کرنے سے پہلے خود ا پنے بیٹو ں کے کردار کا احتساب کیوں نہیں کرتے ۔؟آخرکیوں ہم بیٹوں کے ہزاروں عیبوں پر پردہ ڈال کر دوسروں کی بیٹیوں کے عیبوں کو دیکھنے لگتے ہیں۔

شادی نصیب کا کھیل ہوتی ہے رشتہ دیکھنا مانگنا کوئی غلط بات نہیں مگر ہم لوگ غلط طریقہ استعمال کرتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ کوئی ایسا راستہ اپنائیں کہ لڑکی بھی دیکھ لیں اور لڑکی کو پتہ بھی نہ چلے اس طرح اگر پسند آجائے تو بہت اچھی بات ہےلیکن اگر کسی وجہ سے نہ پسند ہو تو اس طرح کم از کم لڑکی کو احساس کمتری نہیں ہوگا۔ باعزت لوگ ہمیشہ دوسری کی عزت کا خیال کرتے ہیں۔ ایسے حساس معاملات نہایت ہی باریک بینی سے طے کئے جانے چاہیں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔