بتائو علم اور عقل کیا کرے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 29 نومبر 2014

اس کی ناکام کوشش اب جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوچکی تھی وہ کافی دیر سے تالے کے ساتھ زور آزمائی کررہا تھا اس نے سو چا کنجی تو بظاہر صحیح ہے، یقینا تالے کے اندرکوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے تالا کھل نہیں رہا ہے اس کا غصہ اب اس درجے پر پہنچ چکا تھا کہ اگلا مرحلہ صرف یہ تھا کہ تالا کھولنے کے لیے وہ کنجی کے بجائے ہتھوڑے کا استعمال شروع کر دے۔ اتنے میں اس کے میزبان آگئے کیا تالا نہیں کھل رہا انھوں نے کنجی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا اچھا آپ کنجی غلط لگا رہے ہیں اصل میں آج ہی میں نے اس کا تالا بدل دیاہے مگر میں نئے چھلے میں ڈالنا بھول گیا۔ اس کی کنجی دوسری ہے۔

اس کے بعد انھوں نے جیب سے دوسری کنجی نکالی اور دم بھر میں تالا کھل چکا تھا۔ زمانہ جب بدلتا ہے دور کے بعد جب دوسرا دور آتاہے تو ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہوجاتاہے جو نئے زمانے کے مسائل کو پرانے زمانے کی کنجیوں سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے نئے زمانے میں زندگی کے دروازوں کے تمام تالے بدل چکے ہوتے ہیں مگر وہ پرانی کنجیوں کا گچھا لیے نئے تالوں کے ساتھ زور آزمائی کرتے رہتے ہیں اور جب ان کی پرانی کنجیوں سے نئے تالے نہیں کھل رہے ہوتے ہیں تو وہ کبھی تالا بنانے والے پر اور کبھی سارے سماج پر خفا ہوتے رہتے ہیں جب تالے تبدیل ہوچکے ہوں تو ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ پرانی کنجیوں سے نئے تالے کھل جائیں ۔

پاکستان کے عوام 67 سالوں سے اپنے لیے خوشحالی ،ترقی ، آزادی ، اختیار ، مساوات، روشن خیالی کے دروازے بار بار کھولنے کی کو شش کر رہے ہیں لیکن ہر بار انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اس بار بار ناکامی کے پیچھے بس ایک ہی راز چھپا بیٹھا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے صدیوں سے بند دل و دما غ کے دروازے نہیں کھول رہے ہیں جب تک آپ دماغ کے بند دروازے نہیں کھولیں گے دماغ کے جالے نہیں صاف کریں گے نئی سوچ ، نئے خیالات کے تازہ جھونکے نہیں آنے دیں گے ۔

اس وقت تک آپ کے لیے خوشحالی ، آزادی ، ترقی ، اختیار کے بند دروازے نہیں کھلیں گے۔ اگر ہم نے سچائی کے صابن سے اپنے آپ کو صاف نہیں کیا تو ہمارے جھوٹ کی بدبو ہمیں پاگل کر دے گی ۔ افلاطون نے کہا تھا ’’ بچے اندھیرے سے ڈریں تو کوئی تعجب نہیں لیکن بالغ لوگ روشنی سے ڈرنے لگیں تو یہ حیرت کی بات ہوگی۔‘‘ جب کہ یزد نے کہا تھا ’’ ہزاروں سال سے میں یہ ہی دیکھ رہا ہوں کہ پرانے نظریات پر کار بند لوگوں کے سامنے جب بھی نئے تصورات پیش کیے گئے تو انھوں نے تغیر پسندوں کے خلاف اپنی تلواریں بے نیام کرلیں اور جب ان کے انتقامی جذبے سرد پڑے تو انھوں نے خود پر لعن طعن کیا اور کف افسوس ملنے لگے ‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ علم سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی غربت نہیں ، علم سے آدمی کی وحشت اور دیوانگی دور ہوجاتی ہے ، دانشوروں کا طبقہ دنیا میں اس وقت وجود میں آگیا تھا جب انسان نے فطرت کے بارے میں اپنے آپ سے سوالات کرنا شروع کردیے تھے ۔

پھر آہستہ آہستہ علم روایات ، یادداشتوں اور دیو مالائی قصوں کے ذریعے پھیلتا چلا گیا، سماج کا وہ طبقہ جسے علم سے آگاہی حاصل ہوگئی تھی اس نے اس کے ذریعے نہ صرف سیاسی اقتدار پر قبضہ کر لیا بلکہ آگے چل کر وہ روحانی طاقت کے بھی مالک بن گئے ۔ اس طبقے کی یہ کوشش رہی کہ علم سے دوسرے طبقے مستفید نہ ہوں کیونکہ صرف اسی صورت میں وہ اپنی بالادستی معاشرے پر قائم رکھ سکتے تھے اس لیے بادشاہوں کے درباروں میں ان کی قدر تھی انھیں دینوی و دنیاوی علوم کے ماہر ہونے کی وجہ سے معاشرے اور دربار میں غلبہ حاصل تھا اور ان سے خوف بھی کھایاجاتا تھا بادشاہوں کی تاجپوشی اور پیدائش سے لے کر موت تک تمام رسومات کی ادائیگی ان کے ذمے تھی ۔

مذہبی وثقافتی تہوار ان کی رہنمائی میں منائے جاتے تھے اور ان کی کہی گئی باتوں کو آنکھ بند کرکے سچا تسلیم کیا جاتا تھا پھر ان ہی لوگوں میں سے ہی دانشوروں کا نیا طبقہ پیدا ہوا انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ چیزوں کو تسلیم کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کی جائے جانچ پڑتال کی جائے اسے عقل کے ترازو میں تولاجائے۔ ان کے فلسفے کی بنیاد شک اور تحقیق پر تھی ، اس کے بعد عقیدہ پرست دانشوروں اور عقل پرست دانشوروں میں جنگ چھڑ گئی اور تصادم شروع ہوگیا جو دنیا کے ہر سماج میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ عقیدہ پرست اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ انسانوںکو عقیدے کی زنجیرمیں باندھ کر قید رکھا جائے اورعقل پرست اس کوشش میں مصروف ہیں کہ انسانوں کو ان زنجیروں سے آزادی دلوائی جائے ۔

عقل پرستوں کی کوشش اور جدوجہد کے نتیجے میں آج دنیا بھر کے انسان اپنی زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تقریباً پوری دنیا تبدیل ہوچکی ہے آج عقل کی حکمرانی دنیا بھر میں قائم ہے ، لیکن دوسری طرف ہم گنتی کی ان چند قوموں میں شامل ہیں جو آج بھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔آزادی،خوشحالی،ترقی کے لیے معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہوتا ہے لیکن اگر آپ تبدیلی کے سامنے خود دیوار بن کر اس کے آگے کھڑے ہوجائیں تو پھر جمود کبھی نہیں ٹوٹ پاتا ہے معاشرتی انقلاب سے پہلے ذہنی انقلاب ضروری ہوتا ہے جب داخلی انقلاب آجاتا ہے تو پھر خارجی انقلاب کی بنیادیں استوار ہوجاتی ہیں ہم نے ان عقائد و تاریخی حقائق کو جو ہمیں ورثے میں ملے تھے اسے ہم نے بغیر سوچے سمجھے قبول کرلیا اس کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ انسان غور وفکر سے جی چراتا ہے اور دوسری یہ کہ ان کو جانچ پرکھ کا عمل خاصہ اذیت ناک ہوتا ہے، عمر گذرنے کے ساتھ اور غوروفکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہوجاتے ہیں کہ ہم انھیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے۔

اس لیے ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہوتا ہے جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں۔ ہم سب روایتوں بوسیدہ اخلاقیات ، عقیدوں کی زنجیروں میں بندھے ایسے غلام ہیں کہ اگر ہم ذرا برابر روگردانی کرتے ہیں تو ہماری پیٹھ پر کوڑے برسنے لگتے ہیں ہم روزگلتے سٹرتے رہتے ہیں ۔ لیکن کوڑے کو پکڑنے کی جرأت اور ہمت نہیں کرتے ۔ ہم اپنی جہالت ،کم عقلی،اندھیروں سے اس قدر مانوس ہوچکے ہیں کہ ہمیں روشنی ، علم اورعقل سے چڑہوگئی ہے ۔ ہم ہر اس شخص کے دشمن بن جاتے ہیں جو ہمیں آزادی دلانے کی بات کرتا ہے ۔ اور اس پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔ ہمیں آزادی سے زیادہ غلامی پسند ہے ، تو پھر آپ ہی بتائیں اس صورتحال میں علم اور عقل کیا کرے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔